ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہے شادی ہوۓ ذرا تحمل سے کام لو۔۔۔شادی سے پہلے  اور شادی کے بعد کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے  شادی کے بعد کئی طرح کی ذمے داریاں ہوتی ہیں، جنہیں  نبھاکر چلنا ہی ازداوجی زندگی کو پرسکون بھی بناتا ہے اور رشتے کو مضبوط بھی کرتا ہے ۔

قسط۔1

بنت مسعود

"آپ جانتی ہیں ان لوگوں کو بہو نہیں، نوکرانی چاہیے تھی.".ارشاد صاحب جیسے ہی داماد کو رخصت کرکے کمرے میں واپس آۓ بیٹی کو ماں سے شکوہ کرتے پایا۔

"لو بھلا بتاؤ۔۔۔اتنے امیر لوگ ہیں پھر بھی گھر کے کام بہوؤں سے کرواتے ہیں۔"نزہت بیگم بیٹی کے دکھڑے سن کر حیران ہوتے ہوۓ بولیں۔

"کیا ہوا سب خیریت ہے؟"ارشاد صاحب بیٹی کو روتا دیکھ پوچھ بیٹھے۔

"ایک ہفتے پہلے ہی کھیر پکوائی ہے اور دوسرے دن سے جھاڑو برتن اور کپڑے دھونے کی باری لگادی اور اس پر بس نہیں کیا بلکہ صبح جلدی اٹھ کر ساس سسر کو ناشتا دینے کی ذمے داری بھی ہماری بچی بر ڈال دی ہے۔"نزہت بیگم دلگیری سے بولیں پھر پوچھا۔

" دو بڑی بہویں اور بھی ہیں ان کی۔۔۔ کیا ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟"

"جی۔۔وہ بھی اپنی اپنی باری کا کام نمٹاتی ہیں ، ایک دوپہر کا کھانا دیتی ہے اور دوسری رات کا۔۔۔میرے حصے میں ناشتا لگادیا۔"

'دیکھیں کیسے لوگ ہیں ہم نے آج تک اپنی بچی کی نیند خراب نہیں کی اور یہاں تو اسے ہی ناشتے کی ذمہ داری سونپ دی۔"

ارشاد صاحب خاموشی سے سنتے رہے بولے کچھ نہیں۔نزہت بیگم  بیٹی سے کرید کرید کر سوال کرتی گئیں اور بیٹی اپنی مظلومیت کا رونا روتی رہی۔

ابھی ڈیڑھ ماہ پہلے ہی تو اسے رخصت کیا تھا۔اس سے پہلے کئی دفعہ وہ رکنے آئی تھی خوش اور مطمئن تھی۔جیسے ہی گھر کے کام اور ذمے داریاں سونپی گئیں اس نے پریشان ہوکر ساری باتیں ماں کو بتادیں۔

"سنیں میں سوچ رہی ہوں کہ آپ کو صالح سے بات کرنی چاہیے۔بیٹی بیاہی ہے کوئی نوکرانی نہیں بھیجی ان کے یہاں۔"۔نزہت بیگم بیٹی کی بےجا طرفداری پر اتری تھیں۔

"میں کیا بات کروں گا بھلا؟یہ ان کے گھر کا معاملہ ہے۔"

"لو بھئی بیٹی تو آپ کی ہے وہ ظلم کریں ہم خاموش رہیں۔"

"ظلم نہیں یہ تو گھر کے کاموں کی تقسیم ہے اور بہویں بھی تو نبھارہی ہیں ذمے داری۔"

"آپ بات نہیں کرسکتے تو میں خود ہی کرلوں گی۔"وہ عادت کے مطابق ہٹ دھرمی سے بولیں۔

"مدحت بیٹی ابھی شادی کو ہوۓ عرصہ ہی کتنا ہوا ہے وہاں کے لوگوں کو سمجھو پرکھو اور پوری کوشش کرو جو ذمے داری دی گئی ہے خوش اسلوبی سے نبھاؤ۔"

"آپ رہنے دیں۔۔۔اگر یہ ایسے ہی برداشت کرتی گئی تو ہر کوئی اسے دباتا رہے گا۔"

"بیگم بیٹی کو گھر بسانے والے گر سکھاؤ نہ کہ گھر توڑنے والے۔۔۔"ان کے لہجے میں ناگواری تھی۔

"کیسی باتیں کرتے ہیں آپ میں اپنی بچی کا گھر کیوں توڑنے لگی۔۔۔؟مگر بیٹی پر جو زیادتی کی جارہی ہے وہ میں برداشت نہیں کروں گی۔"

ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہے شادی ہوۓ ذرا تحمل سے کام لو۔۔۔شادی سے پہلے  اور شادی کے بعد کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے بیٹی۔۔۔۔ماں باپ کے گھر میں بے فکری ہوتی ہے مگر شادی کے بعد کئی طرح کی ذمے داریاں ہوتی ہیں جنہیں اچھے طریقے سے نبھاکر چلنا ہی ازداوجی زندگی کو پرسکون بھی بناتا ہے اور رشتے کو مضبوط بھی کرتا ہے اور یہیں سے لڑکی کی تربیت کا پتا چلتا ہے۔"وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی بولنے پر مجبور تھے اتنا کہہ کر خاموش ہوۓ تو مدحت بول پڑی۔

"ابو اتنا ڈھیر کھانا میں نے گھر میں کبھی نہیں بنایا پھر روز کی بیس روٹیاں۔۔۔"

"روزانہ کھانا روٹی صرف تمہیں ہی تو نہیں بنانی پڑیں گی دو وقت تمہیں آرام بھی میسر آۓ گا پکی پکائی ملے گی۔"

وہ باپ ہو کر بیٹی کو ایک ماں کی طرح سمجھارہے تھے جبکہ نزہت بیگم غصے سے منہ پھلاکر بیٹھی بڑے ضبط سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔

★**★

ارشاد صاحب اپنی بیگم کی عادتوں سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ خود چار بھائی اور دو بہنیں تھے۔ ان کا نمبر بھائیوں میں آخری تھا۔ ان کی شادی سے پہلے تینوں  بہویں بڑی خوش اسلوبی سے ساس کی رہنمائی میں گھر کا نظام  سنبھال رہی تھیں مگر نزہت بیگم کے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی گھر میں اختلافات زبانی تکرار سے شروع ہوکر چھوٹی موٹی لڑائیاں تک آچکے تھے۔

گھر کی بڑی یعنی ارشاد صاحب کی والدہ کے لیے ایسی صورتحال پریشان کن تھی۔۔۔ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مسئلہ کہاں ہورہا ہے اور کس طرح حل کرنا ہے۔۔۔کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے بڑی بہو کو اکیلے میں طلب کیا اور ان سے گھر کے معملات کی ابتری پر راۓ مانگی کہ کس طرح ان سب اختلافات پر قابو پایا جاۓ۔

"اماں میں، فرح اور کرن ہر کام انصاف سے مل بانٹ کر انجام دیا کرتے تھے۔مگر نزہت اکثر اپنی باری کام یا تو چھوڑ دیتی ہے یا پھر اس طریقے سے کرتی ہے جو نہ کرنے جیسا ہی ہوتا ہے۔"

مثال کے طور پر نزہت کو اپنی باری میں مرغی کا سالن بنانا تھا تو اس نے سالن کے لیے منگائی مرغی فریز کردی اور کرن نے اپنی باری میں پکانے کے لیے جو مرغی دھو کر فریز کی تھی وہ نکال کر پکالی۔

کرن کے بچے چونکہ چھوٹے ہیں تو وہ اکثر ترتیب شدہ مینو کے حساب سے اپنے حصے کا کچھ کام پہلے ہی نمٹاکر رکھتی ہے۔کرن کو نزہت کی حرکت غلط لگی اور جب اس نے اس سے اس بابت پوچھا تو نزہت نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ جب آپ کی باری  آۓ گی میں دھو کر دے دوں گی مگر جب کرن کی باری آئی تو وہ صبح ہی ارشاد بھائی کے ساتھ اپنی امی کے یہاں چلی گئی۔"

ایک دن دودھ اسے ابالنا تھا مگر وہ بھول گئی اور کمرے میں چلی گئی۔میں نے دودھ ابالا کیونکہ بچے دودھ پی کر سوتے ہیں۔ یہ بات آئی گئی ہوگئی پھر ہر دفعہ یہی ہونے لگا وہ اپنی باری میں دودھ ابالتی  نہیں تھی۔

جب میں نے اس طرف توجہ دلائی تو کہنے لگی "بھئی جس جس کے بچے دودھ پیتے ہیں وہی ابالا کرے ہر کسی کی باری لگانے کی کیا تک ہے۔"

جس پر فرح نے کہا کہ "صبح کا ناشتا تو سبھی کرتے ہیں "۔تو اس پر نزہت ذرا تیز لہجے میں بولی کہ" میں اپنے اور شوہر کے لیے میں ایک کپ دودھ خود ابال لوں گی کوئی زحمت نہ کرے۔"

بس اسی طرح کی کئی چھوٹی موٹی باتیں ہیں جو دلوں میں رنجشیں پیدا کررہی ہیں۔

اتنا کہہ کر بڑی بہو صبا خاموش ہوئی تو غور سے سنتی ان کی ساس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی اور بولیں۔

"تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتائیں ساری باتیں؟؟"

"بس اماں خواہ مخواہ آپ کا دل دکھنا مجھے مقصود نہ تھا۔"

"میں بات کروں گی نزہت سے۔۔۔"

"مگر میری کوئی بات نہ کیجیے گا کہیں وہ یہ سوچے کہ میں اس کی شکایتیں کرتی ہوں آپ سے۔۔"

"میں جانتی ہوں کہ کیسے بات کرنی ہے تم بے فکر رہو۔"

★**★

اس رات نزہت ساس کے کمرے میں پہنچی تو ارشاد کو پہلے سے وہاں موجود پاکر تھوڑی حیران ہوئی۔

"اماں آپ نے بلایا تھا؟"سلام کے بعد وہ بولی۔

"ہاں ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو ۔خیر سے آج تمہاری شادی کو پورے تین ماہ ہوچکے ہیں۔امید ہے تہمارا دل لگ گیا ہوگا۔۔۔صبا فرح اور کرن سے بھی گھل مل گئی ہوگی؟"

"جی اماں سب ہی بہت اچھے ہیں۔"

"تم خود اچھی ہو جب ہی تمہارے ساتھ سب اچھے ہیں۔"وہ مسکرا کر بولیں۔

"بیٹی تم میری سب سے چھوٹی اور آخری بہو ہو۔۔اس سے پہلے میری تینوں بہوؤں نے یہ گھر بڑی خوش اسلوبی سے سنبھال رکھا تھا اب تم بھی اس گھر کی ایک فرد ہو  جس طرح صبا گھر اور کچن کے کاموں کو  انصاف سے تقسیم کرکے چلتی ہے امید  ہے تمہیں سمجھنا مشکل نہ ہوگا بلکہ تم اپنی کوشش اور لگن سے جلد ہی تینوں کی طرح اس نظام کو لےکر چلو گی۔"

"جی بالکل میری کوشش تو یہی ہے پر مجھے لگتا ہے کہ سب کے کام ایک ہی حساب سے بانٹنا نا انصافی ہے۔"

ساس کے سامنے وہ اپنی بات کرکے خاموش ہوئی تو وہ بولیں۔

"صبا اس گھر کی بڑی بہو ہے تو وہ اس وقت سے گھر کو لے کر چل رہی ہے جب کوئی دوسری بہو نہیں آئی تھی اور ابھی بھی اس کا یہ حال ہے کہ اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کرتی ہے ۔اس کے خود کے تینوں بچے بڑے ہوگئے ہیں تو دونوں دیورانی کے بچوں کا خیال اپنے بچوں کے جیسے رکھتی ہے اور بہت سے کام ان کے بغیر کہے نمٹادیتی ہے۔کیا تمہیں اس چیز کا اندازہ نہیں ہوا؟"ساس نے پوچھا۔

"اماں آپ بڑی ہیں ٹھیک کہہ رہی ہوں گی مگر مجھے لگتا ہے کہ صبا بھابھی کو ہر معاملے میں اپنی چلانے کا شوق ہے۔۔۔وہ سب کا کام اپنی مرضی سے بانٹتی ہیں کھانے کا مینو بھی بغیر کسی سے بوچھے خود ہی ترتیب دیتی ہیں۔"نزہت نے دل میں کھٹکتی بات ساس سے بنا کسی لگی لپٹی کے کہہ ڈالیں ارشاد صاحب بیگم کے اعترازعات پر سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔

"ایسی بات نہیں ہے صبا کھانے کے معاملے میں گھر کے ہر فرد کے مزاج سے بخوبی واقف ہے اسی لیے گھر کا مینو وہ بناتی ہے اور فرح کرن کو روز روز کھانے سوچنا ایک مشکل کام لگتا ہے تو یہ ذمہ داری صبا پر انہی کی رضامندی سے ڈالی گئی ہے۔

اگر تمہیں کچھ اپنی پسند کا پکانا ہوا کرے تو تم اپنی باری میں خود سوچ کر پکالیا کرو۔ساس نئی بہو کی باتیں سن کر تحمل سے سن کر بولیں۔

"ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں۔۔"۔۔نزہت مؤدب ہوکر بولی۔

★***★

یوں نزہت بیگم نے اپنی باری میں ڈھیر سارے چائنیز چاول پکالئے۔جو گھر کے آدھے افراد نے کھاۓ اور آدھے لوگوں نے چائینز کو ہاتھ تک نہ لگایا۔اور دسترخوان سے بھوکے ہی اٹھ گئے جن میں نزہت کے شوہر ارشاد بھی شامل تھے۔نزہت جو گردن اکڑا کر بیٹھی تھی ایک دم سے گھبراگئی۔

صبا فرح اور کرن کے ساتھ بچے بھی خاموشی سے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔

نزہت کا چہرہ مارے شرمندگی کے سرخ پڑگیا۔

سارا دن ہوگیا تھا اسے کچن میں جتے ہوۓ وہ جو وہ تو سمجھے بیٹھی تھی کہ اس کی واہ وا ہوگی مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہوچکا تھا۔

★**★

گھر کی عورتیں یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ چاروں بھائیوں میں سے سواۓ فرح کے شوہر کے کوئی بھی چائنیز کھانا تو دور کی بات چکھنا بھی پسند نہیں کرتا تو اسی لحاظ سے صبا ہمیشہ ایک سالن چائینز کے ساتھ اضافی بنواتیں تھیں مگر یہ بات نزہت کو معلوم نہ تھی نہ اس نے بڑی جٹھانیوں سے مشورہ لینا ضروری سمجھا۔آخر میں تھک کر چور بھی ہوئی اور مزاجی خدا بھی ساری رات خالی پیٹ کروٹیں بدلتے رہے۔

حالانکہ اس نے کتنی منتیں کی کہ معاف کردیں۔ میں کچھ اور بنادیتی ہوں یا آملیٹ کے ساتھ پراٹھا تل کردے دیتی ہوں مگر ارشاد صاحب نے بھوک ہڑتال نہ چھوڑی۔ (جاری ہے)