دونوں بڑی جٹھانیاں اس کے گھر جاتے ہی اپنے میکے چلی گئیں اب میری بچی گھر کا سارا کام اکیلے کر رہی ہے بھلا بتاؤ ساس نے بھی کچھ نہ کہا اور جانے دیا۔

 دوسری اور آخری قسط

بنت مسعود احمد

نزہت نے جوائنٹ فیملی سسٹم میں بمشکل ایک سال گزارا پھر علیحدہ گھر کی مانگ کردی۔ وہ جانتی تھی کہ ارشاد صاحب الگ گھر افورڈ کرسکتے ہیں پھر وہ کیوں نہ فرمائش کرتی۔اماں بھی اس عرصے میں ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ چکی تھیں۔انہیں پہلے ہی اندازہ ہوچکا تھا کہ نزہت جلد بدیر ایسا مطالبہ کرسکتی ہے اور وہی ہوا۔۔۔انہوں نے بیٹے کو کسی بھی قسم کی ذہنی اذیت سے بچانے کو نزہت کی بات کی تائید کردی اور اماں کی رضامندی سے جلد ہی ارشاد صاحب نے اپنا الگ گھر لے لیا۔

وہ نئے گھر میں جاکر شروع کے دن تو پھولے نہ سماتی۔ایسی آزادی کسی کام کی کوئی فکر ہی نہیں.۔۔۔چین و سکون۔۔۔نہ ساس کا ڈر۔۔۔نہ کاموں کی ذمے داری اور نہ ہی بچوں کا شور و غل۔۔۔البتہ ارشاد صاحب کچھ خاموش خاموش رہنے لگے تھے۔۔۔جب سے نئے گھر میں آئے تھے باہر کا کھانا ساتھ لے کر آفس سے آرہے تھے۔۔کسی دن سالن نہیں آتا مگر روٹی تو بازار سے ہی لازمی آتی۔۔۔گھر کو سیٹ کرنے اور سمیٹنے کی وجہ سے کھانا پکانا مشکل ہورہا تھا۔۔۔اس دن نزہت نے فون کرکے  روٹی لانے کا کہا کہ آج انڈوں کا خاگینہ بنارہی ہوں۔جس پر پندرہ دن سے بازار کی روٹی کھا کھا اکتاۓ ہوئے ارشاد میاں بولے۔

"آج گھر میں روٹی پکالو۔۔۔آٹا کب سے آیا رکھا ہے۔"

"میں تھک گئی ہوں، آج تو بہت۔۔۔پتا ہے میں نے سارے برتن ڈیوائیڈر میں سیٹ کرکے رکھے ہیں۔"

"جو بھی ہے ہمیں دو ہفتے سے زیادہ ہوچکے ہیں گھر میں آۓ۔کافی کام تو میں نے مل کر سمیٹا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔"

" بس آج  لے آئیں میں کل بنالوں گی۔۔پلیز۔۔"نزہت اپنی منوانے والوں میں سے تھی وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔

انہوں نے بنا کچھ کہے فون بند کردیا۔

★**★

چند ماہ گزرے تو ننھی مدحت نزہت کی گود میں آگئی۔اب بچی کے ساتھ اکیلے گھر کے کام نمٹانا اس کے لیے مشکل ہونے لگا تو وہ چڑچڑی ہونے لگی۔

روز گھر کی صفائی روز کے صبح سے رات تک کے برتن ہفتے بھر کے کپڑوں کی دھلائی اور روز کا سالن روٹی پھر چھوٹی بچی کی ذمے داری جو دن بھر سوتی اور رات کو خود بھی جاگتی اور نزہت کو بھی جگاتی۔۔۔

وہ شوہر سے کچھ کہتی تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑالیتے کہ میں کیا کرسکتا ہوں میں تو صبح کا گیا رات دیر سے گھر آتا ہوں۔

★***★

آج کو اگر وہ اسی گھر میں رہ رہی ہوتی تو اسے بہت سے آسانیاں میسر آسکتی تھیں۔اسے یاد تھا کہ کرن جب گھر کے کاموں میں لگی ہوتی تھی تو صبا بھابھی اس کی بچی سنبھالے بیٹھی ہوتی تھیں۔

سبزی بھی وہی بنادیتی تھیں مگر اس وقت اسے یہ سب دکھلاوا اور ڈھکوسلے بازی لگتی۔کسی کا بچہ تنگ کرتا یا بیمار ہوتا تو دیوارنی جٹھانی ایک دوسرے سے تعاون کرتیں۔مگر اسے اس گھر میں سب کچھ اکیلے ہی کرنا تھا۔پہلے وہ بڑی بےفکری سے اپنے میکے رکنے جایا کرتی تھی مگر اب میکے جاکر اسے ارشاد کے کھانے کی فکر اور ان کا اکیلا پن  بے چین رکھتا۔ وہ دو دن میں ہی واپس آجاتی۔

★**★

مدحت کے بعد راحت پھر فہد تین اوپر تلے کے بچوں کے ساتھ وہ گھن چکر بن کر رہ جاتی۔کبھی کبھی اسے پچھتاوے گھیرنے لگتے وہاں سب مل جل کر ایک دوسرے کے کام آکر بڑے آرام سے گزر بسر کررہے تھے اور یہاں وہ اکیلی جان۔۔۔اور تین بچے پھر گھر کی پوری ذمے داری۔۔۔

وقت کا کام گزرنا ہی ہے سو وہ گزر ہی گیا۔۔۔بیٹیاں بڑی ہوئیں تو انہیں کچھ آرام میسر آیا مگر جلد ہی مدحت کا ایک اچھی فیملی سے رشتہ آگیا اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق وہ رخصت ہوکر ماں باپ کا گھر سونا کرگئی۔

★***★

ارشاد صاحب خوب سمجھ رہے تھے کہ نزہت بیگم جس طرح خود بھرے پرے سسرال میں گزارہ کرنے کے حق میں نہ تھیں وہی سبق وہ بیٹی کو بھی سکھانا چاہتی تھیں۔وہ جانتے تھے کہ کاموں کے بوجھ سے وہ الگ گھر میں آکر بےزار آچکی تھیں اب وہ نہیں چاہتے تھے کہ ماں کی غلطی بیٹی دہراۓ سو بیٹی کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش میں لگے تھے۔

★**★

مدحت تین دن رک کر آج صالح کے ساتھ واپس جانے والی تھی۔رات کے کھانے پر نزہت نے چھوٹی بیٹی کے ساتھ مل کر کافی اہتمام کرلیا تھا۔

داماد اتنا تکلف دیکھ کر شرمندہ ہوا جارہا تھا کہ اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا۔مجھے گھر کا فرد سمجھیں اس قدر اہتمام کی ضرورت نہیں۔

کھانے کے بعد نزہت بیگم کا پکا ارادہ تھا کہ وہ داماد سے بیٹی کے متعلق بات کریں گی۔مگر ارشاد صاحب تو داماد سے ملکی حالات پر تبادلہ خیال میں اتنا مشغول ہوگئے کہ اسی میں سارا وقت بیت گیا اور ان کے گھر جانے کا وقت ہوگیا۔

★**★

"دیکھا آپ نے میری بات آپ سمجھتے کب ہیں؟"وہ کافی دیر سے فون پر مصروف تھیں اب فون رکھا تو غصے آسمان کو چھو رہا تھا۔

"کیا ہوا کس سے بات کر رہی تھیں۔؟"

"میری مدحت کا فون تھا۔۔آپ سے کہہ بھی رہی تھی کہ داماد سے بات کریں مگر آپ تو بیٹی بیاہ کر اسے بالکل ہی پرایا کرچکے ہیں۔"

"بات کیا ہوئی ہے وہ بتاؤ۔۔۔"

"دونوں بڑی جٹھانیاں اس کے گھر جاتے ہی اپنے میکے چلی گئیں اب میری بچی گھر کا سارا کام اکیلے کر رہی ہے بھلا بتاؤ ساس نے بھی کچھ نہ کہا اور جانے دیا۔۔۔"

"دیکھو بیگم مدحت کی باتیں سن کر اس سے خواہ مخواہ کی ہمدردی مت جتاؤ اسے گھر بساۓ رکھنے دو۔"

"کیا ہوگیا ہے آپ کو ہر وقت ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں۔۔۔خدا کا خوف کریں کیوں مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں اسے گھر بسانے دینا نہیں چاہتی۔۔۔؟"

"تو اور کیا کہوں؟وہ کچھ کہتی ہے تو بجاۓ اسے حکمت سے سمجھانے کے الٹا آپ اس کی بات کی تائید کرتی ہیں۔اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں۔۔یہ بیٹی کے ساتھ دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟؟"ارشاد صاحب کا ضبط جواب دے چکا تھا۔

"اگر میں غلط ہوں تو پھر آپ اپنی بیٹی کو خود کیوں نہیں سمجھاتے۔۔ا"ن کا لہجہ بے زار تھا۔

"ٹھیک ہے میں اس سے خود بات کرلوں گا۔"۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔"

★***★

 

"دونوں جٹھانیاں بہنیں تھیں اس لیے ایک ساتھ رکنے چلی گئیں اور وجہ یہ تھی کہ ان کی امی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ورنہ دونوں ایک ساتھ خاص موقعوں پر ہی جایا کرتیں تھیں۔"

ارشاد صاحب نے جب مدحت سے معاملہ پوچھا تو ساری بات سن کر انہیں نزہت کی منفی سوچ پر بہت افسوس ہوا۔انہوں نے بڑی نرمی سے بیٹی کو سمجھایا کہ" دیکھو وہ مجبوری میں گئی ہیں۔کوئی یہ سوچ کر نہیں گئیں کہ تم پر کام کا بوجھ ڈال دیں اور ان کے جانے کے بعد پیچھے افراد کتنے رہ گئے۔آج تم کسی کی مشکل میں  کام آؤ گی تو کل کو کوئی تمہاری مشکل میں بھی مدد کو آۓ گا۔کسی کے لیے آسانیاں کروگی تو اللہ تمہارے لیے وہ راہیں کھول دے گا جس میں آسانیاں اور راحتیں ہوں گی ان شاءاللہ۔"

"مجھے لگا کہ شاید میں اپنی امی کے گھر سے رک کر آئی تو وہ میری ٹسل میں رکنے چلی گئیں۔"

"کسی سے بدگمانی ٹھیک نہیں۔۔اور وجہ بھی تو تمہارے سامنے آچکی ہے۔کسی بھی بات یا معاملے کی تحقیق کیے بنا صرف اپنے اندازوں پر کسی کے بارے میں راۓ قائم کرنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔بعد میں کبھی ہم اپنی بدگمانی پر خود ہی شرمندہ ہونا پڑجاتا ہے۔"وہ رسان سے بولے۔

"ابو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔"وہ شرمندگی سے بولی۔

"اچھے اخلاق اور خدمت خلق یہ ایسی خوبیاں ہیں جو مخلوق اور خالق دونوں کو خوش کرتی ہیں۔"

وہ خاموشی سے اپنے بابا کو سن رہی تھی۔اس نے بابا کو بہت کم بات کرتے دیکھا تھا وہ کم گو۔۔۔وہ جس طرح محبت اور نرمی سےاسے سمجھارہے تھے اسے بہت ڈھارس مل رہی تھی وہ سسرال کی ذمہ داریوں سے پریشان ہوکر فرار کی راہیں ڈھونڈرہی تھی مگر بابا کی باتوں سے اسے ہمت اور حوصلہ مل رہا تھا۔ وہ ان کا مان توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔لاڈ اٹھانے والے بابا۔۔اس کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے ہر قربانی دینے والے آج بیٹی سے بس اتنا ہی تو مانگ رہے تھے کہ میری بیٹی شوہر کے گھر جاکر ہمارے لیے عزت و فخر کا باعث بنے۔اس کے لیے یہ سب کرنا تھوڑا مشکل تھا پر ناممکن نہیں۔اب اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ محنت اور لگن سے سسرال میں وہ مقام ضرور حاصل کرے گی، جو اس کے بابا چاہتے ہیں اور ارشاد صاحب کو یقین تھا کہ ان کی بیٹی ان کی توقع سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھالے گی۔

★***★ختم شد