ساری رات وہ اپنے لعل کی چارپائی سے لگی بیٹھی رہی۔ اپنی بے بسی اور لاچاری کا احساس بے چین کیے دے رہا تھا۔ بچے کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا تھا۔ فجر کے وقت اس دکھیاری کی آنکھ لگ گئی۔ چند لمحوں بعد چونک کر آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتی ہے
شمائلہ شکیل حیدرآباد

”بی بی! آپ کے بیٹے کو گردن توڑ بخار ہواہے۔ اس کا دھیان رکھیے گا۔“ کل رات سے اس کے دس سالہ بیٹے کو بخار تھا۔ اور آج سہ پہر تو عجیب ہی وحشت زدہ سی کیفیت ہو گئی تھی۔ ماں جیسے ہی پاس گئی وہ خوف کے مارے اچھل کر ماں سے لپٹ گیا۔ ماں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کی ایسی حالت پر تڑپ اٹھی۔ اور جلدی سے محلے کے ایک ”اتائی ڈاکٹر“ کو بلوایا اس ڈاکٹر نے بچے کی حالت کے پیش نظر جب ماں کو صاف لفظوں میں بخار کی نوعیت بتائی تو وہ ممتا کی ماری دہل کر رہ گئی۔
شوہر گھر پر موجود نہیں تھا کہ بچے کو شہر، کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ خود کے پاس تو بس کے کرائے کے دس روپے بھی نہیں تھے، کجا کے ڈاکٹر کی فیس دیتی۔ فیس تو بعد کی بات تھی اس بچاری دیہاتن کو تو کسی ڈاکٹر کا بھی پتا نہیں تھا۔ ڈاکٹر کا معلوم بھی ہوتا تو کیا کر لیتی درندہ صفت شوہر کا خوف دروازے کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہ دیتا۔۔۔۔ سہ پہر سے شام اور شام سے رات ہوگئی۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور، بے بس اور بے کس ماں اپنا آپ بھلاۓ کبھی بیٹے کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے لگتی، کبھی جسم دبانے لگتی، تو کبھی ہاتھ اور پاؤں سہلاتی، کبھی بے اختیار اپنے لخت جگر کو چومنے لگتی، کبھی اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی، کبھی چمچ سے قطرہ قطرہ پانی اس کے حلق میں ٹپکاتی اور کبھی شہنشاہ کائنات کے دربار عالی میں سجدہ ریز ہو کر اشکوں کا ہدیہ پیش کرکے اپنے بچے کی صحت اور زندگی کی بھیک مانگنے لگتی۔
ساری رات وہ اپنے لعل کی چارپائی سے لگی بیٹھی رہی۔ اپنی بے بسی اور لاچاری کا احساس بے چین کیے دے رہا تھا۔ بچے کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا تھا۔ فجر کے وقت اس دکھیاری کی آنکھ لگ گئی۔ چند لمحوں بعد چونک کر آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتی ہے کہ وہی بچہ۔۔۔۔ جس کے لئے کل شام سے لے کر۔۔۔۔ ساری رات تڑپتے بلکتے۔۔۔۔ رب سے آہ و زاریاں کرتے گزاری۔۔۔۔ وہ بچہ رب کے حضور۔۔۔۔۔ ہاتھ باندھے۔۔۔۔ نماز فجر کے لئے مصلے پر کھڑا ہے۔ ایک بے بس ماں کی تڑپتی بلکتی فریادیں عرش پہ پہنچ کر اللہ سے اپنے بچے کی صحت اور زندگی کے فیصلے کروا آئی تھیں۔
جب اس کو اپنے انیس سالہ بیٹے کے قتل کی خبر ملی اور معلوم ہوا کہ اس کو پوسٹ مارٹم کے لیے شہر کے سرکاری اسپتال لے جایا گیا ہے، تو وہ ٹوٹی بکھری، بدحواس ماں، گاؤں سے ننگے پاؤں نکل کھڑی ہوئی۔ راستے میں بیسیوں سواریاں ملیں، لیکن بیٹے کے غم میں مدہوش۔۔۔۔ سات کلومیٹر کا طویل فاصلہ۔۔۔۔۔ پیدل طے کر کے شہر جا پہنچی۔ جوان اولاد کی موت نے اس غریب، بیوہ ماں کو پاگل کردیا۔ تپتی دوپہروں میں۔۔۔۔ ننگے پاؤں۔۔۔۔۔ گلی گلی۔۔۔۔۔ اپنے جگر گوشہ کو ڈھونڈتی پھرتی۔۔۔۔۔۔۔
نکڑ کی دکان پر جا کھڑی ہوتی اور پوچھتی ”بھائی! میرا آصف تو نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟“ ہر راہ چلتے سے مستفسر ہوتی ”تم نے میرے آصف کو کہیں آتے جاتے تو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ ؟؟“ محلے کے گھروں میں جا جا کر دریافت کرتی۔۔۔ ”میرا آصف تمہارے گھر تو نہیں آیا۔۔۔۔؟ کبھی کہتی ”ہاۓےے او ربا!!! میں بھی کیسی بھلکڑ ہو گئی ہوں آصف گھر آکر میرا انتظار کر رہا ہوگا اور میں یہاں بیٹھی ہوں۔۔۔۔۔“
اگر کوئی اس سے ملنے چلا جاتا تو کہتی ”پتا نہیں آصف کہاں چلا گیا ہے؟ میں اس کے لیے کھانا پکا کر بیٹھی ہوں۔ اسے بھوک لگی ہوگی۔۔۔۔۔۔“