گلاب صاحب کو شاید ہم پسند نہیں یا وہ بہت حساس ہیں، مجھے الوداع کہہ جاتے ہیں۔۔ مگر میں بھی ہار نہی مانتی ایک گلاب جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ مسکرا رہا ہوتا ہے

لائبہ عبد الستار میر پور خاص

کچھ چیزیں انسان کو پسند ہوتی ہیں اور پھر پسند سے بڑھ کر محبوب ہو جاتی ہیں مجھے بچپن میں پھول بہت پسند تھے گھر کے سامنے بہت ہی دلکش و حسین پارک تھا پھر گھر میں بھی چند گملے رکھ لیے گئے پھر رفتہ رفتہ بڑے ہوئے، گھر بدلا ، عمر بڑھی ، سوچ بدلی ، مقاصد بنے، مزاج میں سنجیدگی کی آمد ہوئی، سب کچھ بدلا مگر وہ ایک پسند اب پسند سے بڑھ کر محبوب بن گئی فرق یہ ہوا بچپن میں پھول ہاتھوں میں پسند تھے اب پتیوں سے بھرپور ٹہنی پر  دلکش لگتے۔۔

ابتدا میں چھوٹی سی بالٹی میں پودا لگایا پھر ایک گملا، ایک سے دو ، دو سے تین پھر صحن کے دونوں طرف پودوں کا بسیرا ہوا۔۔۔

درمیان سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتا پودے میرے ہی استقبال میں لہلہا رہے ہیں۔۔۔ چنبیلی کے پودے میں تو میری جان بستی تھی موسم بہار میں خوب چنبیلی لگتے مگر میرا دل ان سے بھی نہ بھرتا کیا ہی اچھا ہو کہ ایک عدد اور چنبیلی گھر کی گھر میں آمد ہو  ؟ اب تک یہ صرف خیال تھا مگر آخر کب تک، ؟اگلے چند دنوں میں ایک اور چنبیلی مجھ سے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھا رہا تھا ۔۔ انتہائی خوشدلی سے قبول کرتے ہوئے اسکے لئے جگہ بنائی گئی اور صحن کی زینت میں مزید اضافہ ہوا اگر اندھیری رات کو اپنے روشن ستاروں پر ناز تھا تو مجھے صحن کے پودوں پر ۔۔ صحن کی جگہ تو پر ہوگی تھی جسمیں لیموں، چنبیلی، گلاب ،گل دپھری ،گوار پٹھا (ایلوویرا) تین قسم کی مختلف بیلیں اور کچھ ایسے پودے جن جسکے نام سے ہم واقف نہ ہوسکے۔۔۔   اب ذہن کی سوچیں صحن سے ہٹ کر سیڑھیوں کی طرف براجمان ہونے لگیں ۔۔۔ لہذا چند دنوں میں ہر سیڑھی پر ایک پودا میرے قدم کا منتظر رہنے لگا ۔۔

پھر گلاب سے بھی مانوسیت بڑھنے لگی مگر گلاب صاحب کو شاید ہم پسند نہیں یا وہ بہت حساس ہیں جس بنا پر کچھ مہینوں میں مجھے الوداع کر کے دکھ کی وادی میں اتار کر چلے جاتے ہیں۔۔ مگر میں بھی ہار نہی مانتی ایک گلاب جاتا ہے تو دوسرا اسکی جگہ مسکرا رہا ہوتا ہے۔۔۔ مگر پھر وہ مرجھانے لگتا ہے تو پھر میں پریشان ہوجاتی ہوں آخر میں کیوں اس قابل نہی کہ میں اسکی دیکھ بھال کر سکوں اُسکے مرض کی تشخیص کرسکوں۔۔ میں سوائے اسکے کچھ نہی کرپاتی کہ اس کے پاس بیٹھ کر اسکی تعریفوں کے گن گاتی ہوں۔۔

دیکھو گلاب تم مرجھاؤ نہیں تم مسکراتے ہوئے اچھے لگتے ہو تمہارا رنگ بہت خوبصورت ہے اور خوشبو کے تو کیا ہی کہنے تمہارے کانٹے لگنے سے مجھے اتنی تکلیف نہی ہوتی جتنا تمہارے مجھے الوداع کرنے سے ہوتی ہے ۔۔ میں تمہاری سرسبز پتیوں پر عروسی رنگ کا گل دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں تو کیا تم میری خوشی کی خاطر جی نہی سکتے ؟

کیا تم میرے صحن کی رونق میں اضافہ نہی کرسکتے؟

تمہیں معلوم ہے کسی محبوب کی جدائیگی کا دکھ؟

کیا تم اپنے محب کے پاس اسکی خوشی کی خاطر خود کو سنوار نہی سکتے؟

مگر کب تک آخر کب تک؟

وہ واحد گلاب کا پودا میرے صحن کے تمام ہرے بھرے پودوں میں ، انتہائی توجہ کے باوجود اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ سنو لائب! یہ دنیا فانی ہے اس دنیا کی رنگینی میں کھو کر، دنیا کو باغ بنا کر ، دلکش ترین چیزیں ترتیب دے کر ، بالآخر ختم ہوجانا ہے یہ دنیا فنا ہو جانی ہے ، روح نکلنے کی دیر ہے خوبصورت انسان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بننے میں دیر نہیں لگنی۔۔

 

ع:حساب اعمال کا بھی ہو گا شمار ہوں گی عبادتیں بھی

بہت گراں ہوں گی نیکیاں بھی پر اصل قیمت وفا کی ہو گی۔۔

اور پھر مجھے قرآن کا فرمان یاد آتا ہے .

لوگ اڑاے ہوے پتنگوں کی طرح ہوجائیں گے ( القارعہ 4)

پہاڑ دھنی ہویی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے (  القارعہ 5 )

اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح  ہوجائیں گے ( سورہ مزمل  14 )

 

ع : یہ ریزہ ریزہ پہاڑ ہوں گے  تو ٹوٹ جائیں گے چاند تارے

نہ کوئی ترتیب اور نہ صورت نظامِ ارض و سما کی ہو گی۔

 

وہ دن کڑا ہو گا سب دنوں سے گھڑی جزا و سزا کی ہو گی

نہ کوئی توبہ قبول ہوگی نہ قدر کوئی دعا کی ہوگی

 

پھر میں اس گلاب سے نصیحت حاصل کرتی ہوں واقعی یہ دنیا فانی ہے اس گلاب کی طرح ایک دن میں بھی مرجھا جاوں گی اور میری جگہ آج میں ہوں تو کل کوئی اور ہوگا کسی کی زندگی اسکے محبوب کی وجہ سے نہی بڑھے گی خواہ وہ اس کی تمام تر محبتوں کا مرکز ہو یہ زندگی تو رب کی امانت ہے جو وقت پر اسے لوٹانی ہے۔۔

لہذا تم کو چاہیے کہ اصل مقصد ہمہ وقت یاد رکھو اور اپنے رب سے تعلق مضبوط کرو اور رب تک پہنچنے کا ذریعہ اللہ کے رسول ہیں قدم قدم پر ان سے رہنمائی لو۔۔

پھر ایک خوشی کی لہر میرے وجود میں دوڑ جاتی ہے کہ

جو میں خود نہ سمجھ سکی وہ گلاب مجھ کو سکھا گیا

خود دنیا سے چلا گیا اور مجھے مقصود دنیا بتا گیا

ایک گلاب سے مجھے اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی طرف متوجہ کیا گیا اور مقصود زندگی یاد دلایا گیا اور ذریعہ نجات بھی بتایا گیا

 

ع: یہ دیکھا جائے گا روزِ محشر کہ کس کو کس سے رہی ہے نسبت

جہاں محبت نبی کی ہو گی وہیں محبت خدا کی ہو گی

نہ زہد و تقویٰ نہ پارسائی خدا سے کوئی نہ آشنائی

کہ مجھ گنہگارِ دو جہاں کو اک آس خیر الوریٰ کی ہو گی