نصرت پروین انصاری کراچی
گرمیوں کی تعطیلات ہماری زندگی میں بےحد اہمیت رکھتی ہیں ۔ہم ان تعطیلات سے بھرپور محظوظ ہونے کے لیے متعدد پروگرام بناتے ہیں کہ فلاں کے گھر ملنے جائیں گے ، فلاں خالہ،ماموں یا چچا کے گھر کچھ دن رہ کر آئیں گے ، گھر میں کچھ سلائی کے منتظر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے ، صبح سویرے ضرور قریبی پارک میں جا کر چہل قدمی اور ورزش کے ذریعے صحت بہتر کریں گے اور اس سال گرمی کی چھٹیوں میں پہاڑی علاقوں کی سیر اہلِ خانہ سمیت کریں گے مگر وائے افسوس!

دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے
بس 20فیصد ہی مقاصد حاصل ہوپاتے ہیں

یوں تو دنیا میں عام طور پر چار موسم ہوتے ہیں مگر پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں پانچ موسم اللہ کی عطا سے پائے جاتے ہیں اور وہ پانچواں موسم موسمِ برسات ہے،جس کا ہر کوئی شدت سے انتظار کرتا ہے۔ مگر یہ موسم لگاتار تین چار دن چلتا رہے تو لوگ جلد بے زار ہو جاتے ہیں خصوصاً کراچی والے کیونکہ سب ندی نالے، جل تھل ایک ہوجاتا ہے۔ موسمِ گرما کو عموماً کراچی کے لوگ پسند نہیں کرتے اس لیے طویل لوڈ شیڈنگ گلے پڑ جاتی ہے مگر موسم گرما میں دو ماہ کی اسکول و کالجوں کی تعطیلات کے باعث نہ صرف لوگ کراچی کے مختلف ساحلی علاقوں کی سیر کو جاتے رہتے ہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان کے آبی علاقوں کو بھی شرفِ ملاقات بخشتے ہیں۔
موسمِ گرما کی تعطیلات کا ایک اور مزہ، مزے مزے کے پھلوں کی دستیابی ہے۔ الحمدللہ گرمیوں میں شدید گرمی، جو اللہ کی طرف سے اجناس کی بہترین تیاری کا ذریعہ ہوتی ہے، میں انسان شاہِ ثمر آم سے سب سے زیادہ مقدار میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ یوں تو کراچی میں گرمیوں میں تربوز ، خربوزہ، انگور ،شہتوت،سردا،گرما اور جامن بھی افراط میں دستیاب ہوتے ہیں مگر بادشاہ سلامت ”آم“چاہے کتنے ہی مہنگے کیوں نہ ہوں ہر شخص کم یا زیادہ مگر ان سے لطف اندوز ضرور ہوتا ہے ۔
گرمیوں میں پائے جانے والے پھل صحت کے لئے بہترین ہوتے ہیں بشرط یہ کہ انہیں درست مقدار میں اپنی صحت اور موسم کے لحاظ سے ہی کھایا جائے ۔ تعطیلات ِ گرما کو اسکول وکالج جانے والے طلبہ اور اساتذہ شدت سے انتظار کرتے ہیں رشتے ناتے جو معمول کی زندگی سے متاثر ہورہے ہوتے ہیں ان کو ایک مضبوط ڈور میں باندھیں گے مگر آج کل چھٹیاں آتی تو ہیں اور رات گئے تک اکثر جگہ رشتے داروں سے میل ملاقات رہتی ہے لیکن دوری پھر بھی برقرار رہتی ہے ، سب ساتھ ہوکر بھی ساتھ نہیں ہوتے کیونکہ انٹرنیٹ جو ہے۔
ان چھٹیوں میں تقریبا سبھی رات گئے تک اپنے اپنے موبائل فون پر اپنی اپنی پسند کے پروگرام دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور صبح ہوتے ہی سوجاتے ہیں اور تین چار بجے تک اٹھتے ہیں ،تب تک گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہوتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ چھٹیوں کے یہ ایام گزر جاتے ہیں اور معمول کی زندگی ایک بار پھر تیز رفتاری سے چلنے لگتی ہے ۔ آخیر میں یہ کہنا چاہتی ہوں
کہ
سردی بھی اچھی،
گرمی بھی اچھی،
دن اچھے برسات کے
خزاں کے ہوں کہ بہار کے