اہلیہ محمد اسامہ

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے ذریعے جس دین کی تکمیل فرمائی ہے ،وہ ایک ابدی اور جامع نظام حیات ہے۔یہ صرف چند تعلیمات و عبادات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی سے وابستہ ہر مسٸلے کا حل اس میں موجود ہے۔دین اسلام کا مؤقف تجارت کےحوالے سےاعتدال پر مبنی ہے اور وہ اپنے ماننے والوں کو تجارت کےذریعے کسب حلال کی ترغیب دیتا ہے۔لہذا تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی احکام سے واقفیت رکھتا ہو اور انہی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے تجارت کرے گا تو ہی فلاح پائے گا۔

 تجارت وہ ناگریز ضرورت ہے جس کے بغیرانسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا۔ جب یہ تجارت اسلامی احکامات کے مطابق ہوگی، تو عبادت بن جاٸے گی۔دنیاوی فائدے کا حصول بھی اور اخروی ثواب کا حق دار بھی ٹھہرے گا۔

اللہ رب العزت نے قرآن میں کچھ مقامات پر تجارت اور مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر فرمایا ہے کہ اگر کاروبار احکامِ اسلامی کے طرز پر ہو تو یہ بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔بلاشبہ نبی پاک ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے اورخود نبی علیہ الصلاة والسلام نے نبوت سے قبل تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔

نبی کریم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے،فرمایا:

”سچا امانت دار تاجر جنت میں نبیوں، صدیقوں اور ولیوں کےساتھ ہوگا“

مفہومِ حدیث میں موجود دو باتیں ہی تجارت کی بنیاد ہیں کہ بات سچی ہو اور مال خالص ہو۔ایک تاجر کےلیے اس رتبے کا حصول مشکل تو ہے ناممکن نہیں۔اورخصوصا اس دور میں تاجر کاسچ بولنا یقینا ایک مشکل امر ہوگا لیکن اگر نبی پاکﷺ کے فرمان ”کہ جو شخص جھوٹ بول کرمال بیچے گا ، مال تو بک جاٸے گا لیکن برکت ختم ہوجاٸے گی“ اس حدیث کو دیکھا جائے تو اس رتبے کو پانا مزید آسان ہوجاٸے گا۔جہاں اسلام نے کمائی کے ذراٸع محدود کیے ہیں وہیں مصرف کے مقامات بھی واضح کیے ہیں کہ فلاں مقام پر خرچ جاٸز اور فلاں مقام پر ناجاٸز ہے۔اور یہی اسلامی معیشت و تجارت کا بنیادی داٸرہ ہے۔