(بنتِ قریشی مکیہ، ابراہیم اکیڈمی، تخصص دعوۃ والارشاد)

 عمومی طور پر یہ ضرب المثل انسانوں کے لیے سننے میں آتی ہے کہ’’ جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے‘‘ اور کبھی اللہ کی دوسری مخلوق، جیسے جانوروں وغیرہ کے لیے بھی بولی جاتی ہے، لیکن اگر دیکھا جائے، تو ہم پودے بھی اِس کا مصداق ہیں۔ آج مَیں آپ کو اپنی کہانی سُنانے جا رہا ہوں کہ کیسے اللہ نے مجھے نئی زندگی دی۔مَیں ایک ایسا پودا تھا، جو حُسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھا۔ مَیں نے اس گھر میں پرورش پائی، جہاں میرے اور بھی ساتھی پودے تھے، لیکن مجھے ایک منفرد مقام حاصل تھا کہ مجھے بالکل الگ، قدرے بلند جگہ پر رکھا گیا تھا، کیوں کہ میری شاخیں نیچے کی طرف پھیلی ہوئی تھیں-

الگ ہونے کے باوجود گھر میں آنے والے ہر شخص کی نظر مجھ پر ضرور ٹھہرتی اور میرے بارے میں سوال ہوتے کہ’’ یہ کون سا پودا ہے؟‘‘،’’ یہ کیسے لگے گا؟‘‘،’’ کہاں سے لیا؟‘‘ بہت سے تو  مجھے ساتھ لے جانے کے تمنّائی اور شائق  بھی تھے، لیکن میرے محافظ انکار کرتے۔ مَیں دل ہی دل میں خوش ہوتا اور اس تعریف پر پُھولے نہ سماتا۔ گھر والوں سے ملی اہمیت ہر سرشاری سے جھوم جاتا۔ دن یوں ہی ہنسی خوشی گزر رہے تھے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ خوشیاں دائمی نہیں ہوتیں،تو میری  بہار، یہ خوشی، یہ شادابی بھی عارضی ثابت ہوئی۔اچانک مجھے اپنی جڑیں کم زور ہوتی محسوس ہوئیں اور مجھے لگا کہ میرا تنا میری شاخوں کا بوجھ نہیں سہہ سکتا، کیوں کہ جڑ اور تنے کا رابطہ کٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ بظاہر مَیں ہرا بَھرا اور صحت مند دِکھتا۔ اِس لیے کسی کی توجّہ میری طرف نہیں گئی۔ گھر والوں نے ایک تبدیلی دیکھی کہ مجھے جس گملے میں  لگایا گیا تھا، اُس میں پانی جمع رہنے لگا، لیکن اُن کی کسی تدبیر سے پہلے ہی مَیں کھوکھلی جڑوں کو خیرباد کہہ کر ہری شاخوں سمیت زمین پر آن پڑا۔ سب دُکھی تھے، کوئی مجھے اُٹھا کر باہر پھینکنے کو تیار نہیں تھا اور مَیں دو، تین دن اسی جگہ پڑا رہا۔ گھر والوں نے سوچا کہ مجھے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کی نذر کر دیا جائے، لیکن اُن کی ہمّت ساتھ نہیں دیتی تھی، لیکن کب تک وہ میرا  بوجھ اٹھاتے اور ایک ناکارہ چیز سنبھال کر رکھتے۔آخر ایک دن کوڑا اُٹھانے والوں کے حوالے کردیا۔ دروازے تک میری جدائی کا غم  اُن کی زبان پر تھا۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اُنھوں نے میری ایک شاخ اٹھائی اور ایک نئے گملے میں لگا دی۔ مجھ پر پہلے سے زیادہ محنت ہوئی۔ چھوٹے بچّے کی طرح میری دیکھ بھال ہوتی رہی اور یوں مَیں پھر سے زندگی کی طرف لَوٹ آیا۔ اب مَیں پھر وہاں ہی ہوں، لیکن ساتھی شاخوں کے بچھڑنے کی وجہ سے میرے چہرے کی شادابی ماند پڑ گئی ہے۔ میری مسکراہٹیں خزاں کی نذر ہو گئیں۔ اب مَیں زندہ ہوں، لیکن لوگوں کے لیے پُرکشش نہیں رہا۔ دوبارہ اسی مقام تک پہنچنے میں وقت تو لگے گا۔ شاید حُسن و جمال پر اتراہٹ مجھے لے ڈوبی۔ میرا مسکن، ساتھی سب بدل گئے، اب مَیں بھی باقی پودوں کے بیچ ایک عام زندگی گزار رہا ہوں، لیکن اپنے خالق و مالک کا بے حد شُکر گزار ہوں کہ مجھے نئی زندگی دی۔