تربوز نہایت خوش ذائقہ پھل ہے جس کی رنگت اور ذائقہ سب کو ہی بھاتا ہے اور ہر کوئی اسی کا دیوانہ نظر آتا ہے۔ اپنے لال گلابی وجود پر گہرا اور دبیز سبز پیرہن پہنے شائقین کے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ تربوز گرمی کا بہترین توڑ ہے۔ اسی لیے قدرت نے اسے گرم موسم میں پیدا کیا تاکہ گرم اور خشک موسم سے نڈھال تھکے ہارے لوگ اس کے میٹھے گودے اور رسیلے پانی سے اپنی پیاس بجھا سکیں
ام محمد سلمان
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک شخص کسی سفر پر جا رہا تھا۔ سخت گرمی کا موسم تھا یہ وہ وقت تھا جب سواریاں عام نہیں تھیں اور لوگ زیادہ تر پیدل ہی سفر کرتے تھے۔ اس مسافر کے ساتھ ایک گدھا اور ایک مرغ بھی تھا۔ چلتے چلتے وہ کسی گاؤں کے قریب پہنچا تو اپنے کھانے پینے کے لیے کچھ لینا چاہا۔ اب وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ میں کوئی ایسی چیز خریدوں جسے میں بھی کھا سکوں، میرا گدھا بھی اور مرغ بھی. تاکہ ہم تینوں کا پیٹ بھر جائے ۔ اب ایسی کیا چیز ہو سکتی تھی؟ وہ ابھی اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھا کہ اس کی نظر پیپل کے درخت کے نیچے تربوز کے ڈھیر پر پڑی ۔ دو آدمی اس ڈھیری کے پاس بیٹھے تھے جو شاید دکان دار تھے۔ مسافر نے وہاں سے ایک بڑا اور بھاری تربوز خریدا اور ایک دوسرے درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گیا۔ وہاں بیٹھ کر اس نے تربوز کے دو ٹکڑے کیے، مزے سے اس کا گودا کھایا، اس کا شربت پیا، اس کے چھلکے اپنے گدھے کو بطور چارہ کھلائے اور تربوز کے بیج مرغ کو کھلا دیے۔ اس طرح تینوں کا پیٹ بھر گیا اور تھکے ہارے مسافر کے جسم میں تربوز کھا کے نئی توانائی دوڑ گئی۔
دیکھا جائے تو تربوز ایک ایسا مفید پھل ہے جس کی کوئی چیز بھی ضائع نہیں جاتی۔ شدید گرمی کا موسم ہو اور تربوز کھانے کو جی نہ چاہے، یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ گرمیوں میں ہر طرف تربوز کی بہار نظر آتی ہے۔ کہیں زمین پر ڈھیریوں کی صورت پڑے ہیں، کہیں دکانوں اور ٹھیلوں پر شان سے سجے ہیں تو کہیں تربوز کا شربت جلوے بکھیر رہا ہے اور لوگ بہت ذوق و شوق سے پیتے نظر آتے ہیں۔
”کہتے ہیں کہ تربوز افریقی پھل ہے لیکن سیاحوں کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔ یہ اپنی لذت ، ذائقے ، ٹھنڈک اور دیگر خصوصیات کی وجہ سے ہرخاص و عام میں مقبول ہے۔ اس کی بیل زمین پر بچھی ہوتی ہے۔ عموماً اس کا پھل ایک سے پندرہ کلو کے درمیان ہوتا ہے۔ تربوز کی شکل عام طور پر گول ہوتی ہے، جب کہ اس کی ایک قسم لمبوتری ہوتی ہے۔ اس کا چھلکا قدرے سخت ہوتا ہے اور اس کا گودا نہایت نرم، سرخ میٹھا، اور ذائقے دار ہوتا ہے۔“ دنیا میں کئی طرح کے تربوز پائے جاتے ہیں بعض کا گودا اندر سے مختلف رنگوں کا ہوتا ہے جن میں زرد رنگ کا گودا انتہائی میٹھا ہوتا ہے۔ تربوز کا شمار ان پھلوں میں کیا جاتا ہے جس سے انسان سینکڑوں سالوں سے بہت سے طبی فوائد حاصل کر رہا ہے۔ بعض لوگ اسے سبزی بھی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ کھیرے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھیرا خود ایک پھل ہے۔ کھیرا، تربوز اور خربوزہ... یہ سب ایک ہی خاندان سے ہیں ۔
”تربوز میں پائے جانے والے غذائی اجزاء صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔ ان غذائی اجزاء میں وٹامن اے، وٹامن بی1، وٹامن بی5، وٹامن بی6، وٹامن سی، پوٹاشیم، اور میگنیشیم شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سو گرام تربوز میں تیس کیلوریز، اکانوے فیصد پانی، آدھا گرام پروٹین، ساڑھے سات گرام کاربو ہائڈریٹس، چھ گرام شوگر، آدھا گرام فائبر اور تھوڑی سی مقدار میں فیٹ بھی پایا جاتا ہے ۔ تربوز میں تقریباً 90 فیصد پانی ہوتا ہے، جو گرمیوں میں ہائیڈریٹ رکھنے کے لیے مفید ہوتا ہے. یہ غذائی اجزاء سے بھی بھرا ہوتا ہے، بشمول اینٹی آکسیڈینٹ اور وٹامن اے اور سی۔“
تربوز نہایت خوش ذائقہ پھل ہے جس کی رنگت اور ذائقہ سب کو ہی بھاتا ہے اور ہر کوئی اسی کا دیوانہ نظر آتا ہے۔ اپنے لال گلابی وجود پر گہرا اور دبیز سبز پیرہن پہنے شائقین کے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ تربوز گرمی کا بہترین توڑ ہے۔ اسی لیے قدرت نے اسے گرم موسم میں پیدا کیا تاکہ گرم اور خشک موسم سے نڈھال تھکے ہارے لوگ اس کے میٹھے گودے اور رسیلے پانی سے اپنی پیاس بجھا سکیں۔ تربوز ایک ایسا پھل ہے جو امیر غریب سب کی پہنچ میں ہے۔ تربوز کی شان میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا.. :
ہیں لال بھی و تازہ بھی آ کر تو دیکھیے
تربوز لاجواب ہیں کھا کر تو دیکھیے
ہیں اس کے فائدے بھی بہت پیٹ کے لیے
اتنی بحث نہ کیجیے اب ریٹ کے لیے
دیتا ہے دل کو چین ، جگر کو سکون بھی
پیدا بدن میں کرتا ہے کافی یہ خون بھی
خشکی کرے گا دور یہ آنتوں کی ایک دم
گرمی جگر و معدے کی ہوتی ہے اس سے کم
تربوز کو گرمی کے موسم میں باقاعدگی سے استعمال کیا جائے تو اس کے بے شمار فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں ۔
یہ ہاضمہ کو بہتر بنانے میں مددگار ہے۔ معدہ، دل اور جگر تینوں کے افعال بہتر بنانے میں معاون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ پٹھوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ شدید گرمی، پسینے کی زیادتی اور ڈی ہائیڈریشن سے ہونے والی جسم میں نمکیات کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل پیٹ کی چربی کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ تربوز کے بیج بھی کھانے چاہییں کیوں کہ یہ پروٹین کا بہترین ذریعہ ہیں۔ تربوز، ہڈیوں کی مضبوطی میں اضافے کا سبب ہے ۔ تربوز میں وافر مقدار میں وٹامن اے موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ بینائی کے لیے بھی بے حد مفید ہے ۔ ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ میں مددگار ہے ۔
تربوز میں موجود وٹامن سی ہمارے جسم کو کولیجن پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے جو مدافعتی نظام، خلیوں کی صحت اور زخموں سے شفا پانے کے لیے ہماری مدد کرتا ہے۔
جِلد کو ہموار رکھنے کے لیے وٹامن اے، بی 6 اور سی اہم ہوتے ہیں اور تربوز میں یہ سب موجود ہوتے ہیں۔ تربوز سے چہرے کے ورم اتر جاتے ہیں اور رنگت صاف ہوتی ہے۔ اگر کسی کو تربوز کھانے سے جسم میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہو(جسم میں قوت مدافعت کی کمی کے باعث) تو وہ اسے ادرک کے ساتھ کھائے تربوز کھانے سے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کو اس کا استعمال اپنے معالج کے مشورے سے کرنا چاہیے۔
جن خواتین کو حمل کے دوران سینے میں جلن رہتی ہے، ان کے لیے تربوز انتہائی مفید ہے۔ سینے کی جلن میں افاقہ ہوتا ہے اور اس میں ایسے نمکیات پائے جاتے ہیں جو حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران پٹھوں کی تکلیف سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ لہٰذا حاملہ خواتین کو تربوز ضرور استعمال کرنا چاہیے ۔
ایک جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق تربوز میں ایک امینو ایسڈ citrulline کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو جسم میں خون کی گردش کو بہتر بنا کر بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لائیکوپین سے بھی دل کی صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ لائیکوپین کے استعمال سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
کسی نے کہا تھا... تربوز میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں! اور ہمیں اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے بس اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ تربوز ”قدرتی“ میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں۔
کیوں کہ آج کل تربوز کو میٹھا کرنے اور خوش رنگ دکھانے کے لیے اس میں سرخ رنگ کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اور کینسر کے امراض کا سبب ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے تربوز کو کاٹتے وقت اس کے سرخ گودے پر سفید ٹشو پیپر یا سفید کپڑا لگا کر دیکھیں اگر وہ سرخ ہو جائے تو سمجھیں اس میں وہ زہریلا انجیکشن لگ چکا ہے، اب اسے نہیں کھانا چاہیے۔ قدرتی سرخ تربوز کو چیک کرتے وقت کپڑے یا ٹشو پر سرخ نشان نہیں لگتا۔ یہی اصل پکے ہوئے تربوز کی پہچان ہے ۔
تربوز کا چھلکا اتار کر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں، ٹھنڈا کریں اور سادہ نمک، کالا نمک ، زیرہ، کالی مرچ کا سفوف چھڑک کر کھائیں ۔ صرف نمک چھڑک کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔ نمک سے ذائقہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ صبح ناشتے میں کھایا جائے تو اس کے فوائد دو چند ہو جاتے ہیں۔ تربوز کھانے کے فوراً بعد کبھی بھی پانی نہیں پینا چاہیے۔ تربوز کھانے سے پہلے کھایا جائے تو زیادہ فائدہ مند ہے۔
تربوز کا اصل وطن افریقہ ہے. یہ گرم علاقوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یہ آج کے زمانے کا پھل نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے اس کی کاشت ہو رہی ہے. یہاں تک کہ وادی نیل میں تقریباً چار ہزار سال پہلے تعمیر کیے گئے مقبروں میں بھی تربوز کی تصاویر ملی ہیں۔
طب نبوی میں بھی تربوز کا ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تربوز کو تر کھجور کے ساتھ تناول کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کھجور کی گرمی تربوز کی ٹھنڈک کو اور تربوز کی ٹھنڈک کھجور کی گرمی کو ختم کر دیتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا تربوز کھانا بھی ہے اور مشروب بھی۔ محدثین کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو تربوز بہت مرغوب تھا اور شوق سے کھایا کرتے تھے۔ شدت کی گرمی میں ٹھنڈا میٹھا تربوز کھانے کو مل جائے تو انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہے..... فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!!!