ماں باپ بننے کا مقام حاصل کرنے والوں کے لیے ایک رہ نما تحریر
فیض عالم
بچے کی پیدائش کے بعد ہونے والا یہ ڈپریشن
جس کی علامات کچھ اس طرح ظاہر ہوتی ہیں۔

1۔ خاتون کا بار بار بلاوجہ رونا
2۔ ہر وقت جھنجھلاہٹ کا شکار رہنا
3۔ گھر کے دوسرے افراد یا اپنے بڑے بچوں پر چیخنا چلانا۔
4۔ بچے سے بے زاری کا اظہار کرنا۔
5۔ رات کو نیند نہ آنا
6۔ ہر وقت تھکا ہوا، ناامید اور اداس محسوس کرنا۔
خطرناک علامات :
1۔ تنہائی میں چیخنا یا خود کو نوچنا یا مارنا۔ بچے کو مارنے یا نقصان پہچانے کے خیالات کا آنا۔
2۔ بچے کو جان سے مار دینے کے خیالات آنا یا اپنی جان لینے کے خیالات آنا۔
اس ڈپریشن کی وجوہ میں پیدائش کے بعد ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں، فزیکل ہیلتھ ایشوز، نیند کا پورا نہ ہونا اور معاشرتی دباو کا بڑھ جانا شامل ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ آخر مسلمان خواتین کے ساتھ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کیوں کہ وہ بھی انسان ہیں اور اس دور کی انسان ہیں جہاں اپنی ذات کو خدا بنانا سکھایا جا رہا ہے۔ہمیں : "میں، میں اور بس میں " کا سبق اتنا زیادہ پڑھا دیا گیا یے کہ ایک ماں بچہ پیدا کرنے کے بعد postpartum depression کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسے وہ بچہ زحمت لگنے لگتا ہے۔ کچھ ماؤں کے ذہن میں بچے کو مار دینے کے خیالات جنم لینے لگتے ہیں کیوں کہ اس کی "میں" کے ارد گرد بنائی گئی دنیا کا اختتام ہونے جارہا ہوتا ہے اور بہت بڑی ذمے داری اس پر عائد ہونے کے لیے تیار کھڑی ہوتی ہے۔

ایک ماں کا یہ حال کیسے ہو گیا؟ مسلمان معاشرے کے لیے یہ کوئی معمولی واردات نہیں۔۔۔۔ آج سے بیس سال پہلے تک یہ نام بھی کسی نے نہیں سنا ہوگا۔ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں کہ شادی اور اولاد سے متعلق جو ذہنی مسائل سامنے آرہے ہیں، اس کہ ایک بہت بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ دین اسلام نے نکاح، نکاح کی ذمے داریاں اور پیدائش اولاد کے معاملات نیز پرورش و تربیت کے اصول و مقاصد جو بتائے تھے ہم ان تعلیمات کو بھول بیٹھی ہیں۔

شادی سے پہلے لڑکی یہ سن کر جوان ہوتی ہے کہ ابھی تو بچی ہے، ابھی پڑھ رہی ہے، میں اس سے کوئی کام نہیں کرواتی یا ہم نے کر لیے جو کام اور ہم نے کر لیے جس طرح بچے پیدا، اب ہماری بیٹیاں ایسا نہیں کریں گی۔ یہ سب باتیں اس لڑکی کو ذمہ داری اٹھانے سے روکتی ہیں۔ اس کے لیے سسرال تو دور کی بات ہے۔ اپنے شوہر یا بچے کو سنبھالنا ہی بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ پھر لڑکا بھی شادی سے پہلے بچے سنبھالنے کے معاملات میں بالکل لاعلم ہوتا ہے اور چوں کہ اسے سکھایا گیا ہوتا ہے کہ تمھارا اصل کام پیسا کمانا ہے لہذا وہ روتے بچے کو بیوی کی گود میں دے کر خود نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے بھئی اسے صبح کام پر جو جانا ہے۔ لڑکی کو پرائیویسی کے نام پر اور لڑکے کو پیسہ کمانے کے نام پر گھریلو ذمے داریوں سے کوسوں دور کر دیا گیا۔

جن خواتین کو لائف میں کئریر بنانے کی لگن لگ جاتی ہے۔ وہ اور بھی زیادہ پریشان ہوجاتی ہیں کہ گھر سنبھالیں، بچہ سنبھالیں یا جاب کریں۔ اتنی اعلی تعلیم بھلا اس بچے پر ضائع کرنے کے لیے تھوڑی لی تھی۔

پھر جب لڑکی اپنے ارد گرد اسکرین پر ہر جگہ یہ دیکھ رہی ہے کہ شادی کوئی Fairytale ہے۔ شادی کے بعد میرا کمرہ ہوگا جس میں آسائش کا ہر سامان ہوگا۔ پیسے والا میاں ہوگا اور نوکر چاکر۔ تو میری لائف تو جھینگا لالا ہو جائے گی۔ کوئی اسے آنے والے وقت کے لیے تیار ہی نہیں کر رہا۔ شادی کے چند مہینے گھومنے پھرنے اور دعوتوں میں گزر جاتے ہیں۔ پھر بچے کی خوشخبری سنائی دیتی ہے اور جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور اپنی پوری قوت سے راتوں کو روتا ہے، وقت بے وقت بستر خراب کر دیتا ہے، دودھ پیتے ہی الٹی کر کے ماں کے کپڑے خراب کر دیتا یے اور یہ سب لمبے عرصے تک چلتا ہے تو اس وقت لڑکی کو ڈپریشن کا شدید دورہ پڑتا ہے کیوں کہ اس نے تو یہ سب سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسے یہ سب ایک بھیانک خواب کی طرح لگتا ہے۔ اس کے جسم میں بھی اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ ہر وقت ایکٹو رہ کر بچے کی نگہداشت کر سکے کیوں کہ فاسٹ فود کا دور ہے جو ماں فاسٹ فوڈ پر پل کر بچہ پیدا کرے گی اس میں کہاں سے جان آئے گی بچہ سنبھالنے کے لیے

اس میں کچھ ہاتھ ہماری زہریلی ہندوستانی سوچ رکھنے والی خواتین کا بھی ہے کہ آئے ہائے یہ کس پر چلا گیا؟ تم نے ناریل کا پانی نہیں پیا ہوگا تب ہی رنگ دب گیا بچے کا، تم نے اس کی آنکھوں میں سرمہ کیوں نہیں لگایا؟ پہلا بچہ ہے ہمارے خاندان کا جس کی آنکھیں چھوٹی اور ناک موٹی ہے، بچے کی ناک پلاس سے دبا کر پتلی کرو، اس کے منہ پر لوئی ملو تاکہ یہ فورا چٹا ہو جائے، اس کے ہاتھوں کو ایسے کھینچوں اور پیروں کو ایسے، اس کا سر بناو۔۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بچہ (معاذ اللہ) کسی لوکل کارخانے سے بن کر نکلا ہے اس لیے ڈینٹنگ پینٹگ کی ضرورت ہے۔ ماں کو بچے کی خد و خال کے لیے الزام دیا جاتا یے یا بار بار یہ احساس دلایا جاتا یے کہ جیسے یہ بچہ تو ہماری فیملی کا لگتا ہی نہیں ہے اور یہ سب باتیں ایک ماں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ ہاں بچے کی نگہداشت اور اس کی جسمانی ساخت کو بہتر بنانے کے لیے بزرگوں کے بتائے گئے ٹوٹکے ضرور کارگر ثابت ہوتے ہیں مگر جب یہ ٹوٹکے طنز اور طعنوں کی صورت میں بتائیں جائیں تو بہو چاہ کر بھی عمل نہیں کر پاتی۔ پھر کچھ بہوئیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ وہ خود کو ہر فن مولا سمجھتی ہیں، ان کو ساس یا ماں کی باتیں اولڈ فیشن لگتی ہیں اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور یہ رونا روتی ہیں کہ ہائے ہماری تو کوئی مدد کرنے والا ہی نہیں ہے ہم تو اکیلے ہی بچہ سنبھال رہی ہیں۔۔۔۔

ذہنی و جسمانی وجوہات کے علاوہ ایسی کئی وجوہ ہیں اس مسئلے کی، جو ہم نے خود پیدا کی ہیں۔ میڈیا یا ولاگر کے ذریعے جس طرح کی تصوراتی شادیاں اور دکھاوے سے بھرپور زندگی ہمیں دکھائی جا رہی ہے تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ جب ہم پر یہ ذمہ داریاں آتی ہیں اور ہم ان کا تقابل ولاگرز کی لائف سے کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے کئی شکایات لاحق ہوجاتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ماں بننے کا پورا عمل اور اس کے بعد کی آزمائش میں پورا اترنا آسان نہیں ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالی نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ جنت رکھنے کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ وہ تکلیف اور پھر بچے کی پرورش میں اٹھائی جانے والی وہ آزمائشیں ہیں جن کو ایک ماں فیس کرتی ہے اور یہ سارا سفر صبر جمیل اور قربانی کے زریعے طے ہوتا ہے۔

اب ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں یہاں تو صبر یا قربانی کو ایک نفسیاتی مسئلہ بتایا جاتا ہے۔ چونکہ مغرب ہمارا باپ دادا بن چکا ہے۔ اس لیے ہم سارے تعلقات مدرسہ مغرب سے حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے رواج و اقدار، ہمارے رہن سہن سب کچھ مغربی طرز پر ڈھلتا جارہا ہے۔ خواتین 'ماں کے قدموں تلے جنت ہے' والا میڈل بھی لینا چاہتی ہیں اور اولاد کے لیے راتوں کو جاگنا بھی نہیں چاہتیں۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک طرف صبر و قربانی کو استحصال بتایا جائے، ذہنی مریضوں کو طریقہ بتائے جائے اور دین اسلام کہہ رہا ہو کہ صبر و قربانی تمھیں اللہ کے قریب کر دے گی۔ اب یہ دو تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، دو الگ نظریات آمنے سامنے ہیں اور جب دو الگ الگ مخالف نظریات کسی بھی معاشرے میں ایک ہی ساتھ ایک ہی شخص میں پنپ رہے ہوں تو ایسے ہی ذہنی امراض سامنے آتے ہیں جس پر انسان خود حیران ہوجائے۔ بچے کو اللہ کی رحمت و نعمت سمجھنے والی ماں، اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھنے والی ماں کیسے اپنے بچے سے بیزار ہوسکتی ہے؟

اسلام نے تو حضرت مریم علیہ السلام کا نمونہ پیش کیا۔۔۔۔ پہلا بچہ وہ بھی والد کے بغیر، اللہ کی طرف سے عطا کیا گیا معجزاتی طور پر اور پھر پیدائش کے بعد بی بی پاک کا پبلک میں جا کر اعلان کرنا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔۔۔ اللہ اکبر اتنا بڑا امتحان۔۔۔۔۔

پھر حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کہ چاند سا بیٹا پیدا ہوا مگر اتنا بھی وقت نہیں کہ اسے جی بھر کر دیکھ سکیں جلدی جلدی بچے کو صندوق میں رکھا اور کر دیا پانی کے حوالے۔۔۔ اللہ پر توکل کر کے۔۔۔۔۔۔ پھر حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے ننھے سے بچے کے ساتھ مکہ کے سیاہ پہاڑوں کے درمیان بلکل تنہا زندگی کی بنیاد رکھی۔۔۔۔۔

پھر دنیا میں سب سے پہلے پیریڈز کی تکلیف سے گزرنے والی خاتون جن کو سب سے پہلے ہارمونل تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا سیدہ حوا علیہ السلام۔ پھر بچوں کی پیدائش کا سلسلہ۔۔۔۔ مگر شکوہ کبھی نہ کیا۔

پھر ہمارے آقا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ کہ شوہر نامدار بھی وفات پا گئے اس کے باوجود صبر و تحمل کے ساتھ نو مہینے کا سفر طے کیا اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیدا ہونے کے بعد بھی اسی عزیمت کا مظاہرہ کیا۔

پھر سیدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا میری جان ان پر قربان۔ حضرات حسنین کریمین کے پیدا ہونے کے بعد انہیں علم ہوچکا تھا کہ یہ شہزادے کیسے شہید کیے جائیں گے اس کے باوجود صبر و قربانی کا پہاڑ بنی رہیں اور بچوں کی پرورش و تربیت میں بہترین کردار ادا کیا۔۔۔۔

ہاں مجھے علم ہے کہ ان خواتین کا ذکر سن کر کہا جائے گا کہ بی بی ہم ان خواتین کی طرح نہیں ہو سکتے۔ بالکل جناب کوئی نہیں ہوسکتا مگر ان خواتین کے ذریعے اللہ نے اپنی پسندیدہ خواتین کا سانچہ ہمیں دے دیا۔ اب ہم خود کو کتنا اس میں فٹ کر سکتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

حالات کا رونا گانا کرتے کرتے اس طرح کے ذہنی امراض کا شکار رہنا ہے یا اپنی ذہنی صحت کی ذمہ داری خود اٹھانی یے۔ یہ دیکھنا ہے کہ ولاگرز اور سوشل میڈیا کی زندگی تو بہت اچھی یے یا یہ دیکھنا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔ محترم خواتین اگر آپ بہت جلد والدہ کے عہدے پر فائض ہونے والی ہیں یا اس پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے خوف زدہ ہیں تو ان خواتین کی زندگیوں کا مطالعہ شروع کریں یقین کریں آپ کو ڈپریشن کے لیے وقت ہی نہیں ملے گا کیوں کہ ہر لمحہ آپ کی زبان سے شکر نکلے گا۔ دین اسلام میں اولاد پیدا کرنے کا جو مقصد پیش کیا گیا یے اسے مد نظر رکھیں گی تو بچے کا رونا برا نہیں لگے گا۔ جب آپ کے سامنے سیدہ فاطمہ کی مثال ہوگی تو بچے کے کام کرتے ہوئے آپ کا دل چیخنے کا نہیں چاہے گا۔ کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے آپ کے سامنے ایک بڑا مقصد ہوگا جو آپ کو بچے کی نگہداشت کے لیے آمادہ کیے رکھے گا۔ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کا اہتمام کریں تاکہ اس مشقت بھرے مگر عظیم سفر میں اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کو احساس ہو کہ آپ کوئی معمولی عورت نہیں مسلمان عورت ہیں اور آپ کی گود میں پلنے والا کوئی عام بچہ نہیں بلکہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک امتی یے۔ اپنی جسمانی، ذہنی و روحانی صحت کا خیال رکھیں تاکہ آپ ایک بہترین مسلمان اسلام کو دے سکیں۔

اب کچھ باتیں دیگر افراد سے۔خاص طور پر مرد حضرات سے۔ اس وقت آپ کی بیوی کو آپ کا تھوڑاااا سا پیار اور توجہ بھی بہت بڑا سہارا محسوس ہوگا۔ اسے سن لیں، اس کی پروا کریں، اس کے ساتھ وقت گزاریں۔ اسے بتائیں کہ وہ آپ کے لیے کتنی اہم ہے۔ اس کی مدد کر دیں جب رات کو بچہ روئے تو کہیں لاؤ میں سنبھال لوں کچھ دیر۔ اس وقت بچے اور اپنی وائف کی صحت کا خیال رکھنا آپ کے لیے بہترین اجر و ثواب کا راستہ کھول سکتا ہے، اس وقت محض ایک کمانے والا مرد نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بن کر سوچیں جسے اللہ نے باپ کے مرتبے پر فائض کیا ہے۔ آل پاکستان ساس نند آرگنائزیشن سے بس اتنا ہی کہوں گی کہ خدارا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہٹلر نہ بنیں۔ زچگی اور اس کے بعد کے معاملات ہر عورت کے لیے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اپنی بہو کو بھی بیٹی جیسی ہی محبت دیں۔ اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں۔ ایک اچھی مسلمان خاتون ہونے کا حق ادا کریں۔مجھے امید ہے۔ آپ یہی چاہیں گی کہ بروز محشر آپ کو ظالموں میں شمار نہ کیا جائے۔ وما علینا الاالبلاغ