اس عورت پر کیا گزرتی ہوگی اور اس مرد کی غیرت کا جنازہ اٹھ جاتا ہے کہ اپنی پاکیزہ زوجہ ،شریک حیات اور اپنے بچوں کی ماں کو حلالے کے لیے کسی غیر مرد کے حوالے کر دیتا ہے ، وہ مرد سوچے کیا وہ اپنے بچوں کی ماں سے نظریں ملانے کے قابل رہتا ہے ؟ اس مرد کی بے غیرتی کی سزا عورت کی تذلیل کی شکل میں ملتا ہے یاد رہے کہ مروجہ حلالہ موجب لعنت اور ناجائز کام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
از۔۔۔ارم رحمٰن لاہور


طلاق کے بڑھتے اور دین کو سمجھنے کے گھٹتے رجحان کے پیش نظر ،حلالے جیسے حرام کام کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں ،

فی زمانہ مغرب کی نسبت مشرق ، ازدواجی تعلقات اور نکاح جیسے مقدس رشتے کو نبھانے میں انتہائی ہونق اور حواس باختہ نظر آتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں مغرب سے صرف ایک ہی چیز شد ومد سے مسلمانوں نے سیکھی ہے وہ ہے بے راہ روی اور شتر بے مہار زندگی گزارنے کی خواہش ، جبکہ ان کے نظام میں اور طرح کے حالات اور قوانین ہیں جو مسلمانوں پر کبھی بھی لاگو نہیں ہوسکتے کیوں کہ اسلام خود ایک مکمل ضابطہءحیات ہے، جب کوئی شخص خود کو امریکی ، برٹش یا کینڈین کہتا ہے تو اس پر اس ملک کے تمام قوانین کا اطلاق ہوجاتا ہے اور ان قوانین کی خلاف ورزی پر شدید سزا ملتی ہے جبکہ مسلمانوں نے اسلام کوکبھی سمجھا ہی نہیں ، اس لیے وہ مغرب کی جس آزادی کے پیرو کار ہیں وہ ہے جنسی بے راہ روی ۔

مردو زن کے اختلاط کسی وبا کی طرح زمانے میں پھیل رہے ہیں جیسے کرونا پھیلا تھا ، مسلمان سارے کام اپنی مرضی اور پسند ناپسند کے مطابق کرتا ہے لیکن تین اوقات میں اسے اسلام یاد آتا ہے ، بچہ پیدا ہوگیا ،کان میں اذان دینی ہے اور پھر عقیقہ کرنا ہے شادی کرتے وقت اسلام یاد آتا ہے

نکاح ہونا ہے حق مہر اور ولیمہ ۔۔حق مہر شرعی ہو یعنی دادا ابا کے زمانے کا بتیس روپے آٹھ آنے اور ولیمہ ، ولیمہ بھی شادی کے بعد دو دن تک روایت سے ثابت ہے تیسرے چوتھے دن سنت نہیں دعوت بن جاتی ہے تیسری مرتبہ میت کے کفن دفن غسل اور نماز جنازہ ۔۔۔

یہ تینوں کام ہر مومن عاقل بالغ شخص کو آنے چاہیے مگر ان تینوں اوقات میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کسی مولوی کو تلاش کرتی ہے۔

مرد و زن کے اصل پیچیدہ معاملات پیدا ہورہے ہیں، ان دونوں کی دوستی اور پسند کی شادی کرنے کے اصرار پر یا پھر والدین یا خاندان کی پسند کی شادی پر اعتراض کے باوجود جبری شادی پر ۔۔۔ لیکن ان بے چاروں کو یہ پتا ہی نہیں کہ پسند کا مطلب کیا ہے ؟
پسند کرنے کا معیار کیا ہے ؟
حالانکہ اسلام میں کسی خاتون یا مرد کو پسند کرنے کا معیار بھی بیان کیا گیا ہے ۔۔ لیکن یہ عوام اس سے بھی بے بہرہ ہیں

نام نہاد ""پسند کی شادی "" یہ واحد موضوع ہے جس پر سارا اسلام حفظ نظر آتا ہے ، فلموں ڈراموں میں نیم برہنہ خواتین ، اور شراب نوش مرد منہ پھاڑ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ پسند کی شادی کا حق تو اللہ نے دیا ہے

پھر سنت رسول اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نکاح کا حوالہ آتا ہے ٭٭٭

اس کے علاوہ ہم مسلمانوں کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ، کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں پھر جب یہ سب مراحل طے ہوگئے

کہ تمام خرافات کے بعد شرعی نکاح ہوہی گیا تو پھر اگلا مرحلہ جب اسلام یاد آتا ہے وہ ہے اچانک تین طلاقیں دینا ، پھر پچھتانااور پھر " حلالہ " اور آج کل حلالے کے نام پر جتنی عصمت دری ہو رہی ہے الامان الحفیظ ، کوئی بھی شخص سیکھنا سمجھنا نہیں چاہتا کہ اصل دین کیا ہے ،؟ اس کے کیا لوازمات ہیں ؟

اپنے جذبات اور احساسات کیسے قابو کرنے ہیں
ذمے داریاں اور ازدواجی تعلقات کیسے نبھانے ہیں ؟
اکثر لوگ طلاق کا ایک مضحکہ خیز جواز پیش کرتے ہیں کہ غصے میں تھے اس لیے تین طلاقیں ایک ساتھ دے دیں ، ان سے کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندے طلاق ہمیشہ غصے میں ہی دی جاتی ہے ،پیار محبت میں طلاق کون دیتا ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچانک منہ سے الفاظ نکل گئے

تو اچانک یہ الفاظ ماں باپ اور بہن بھائی کے لیے کیوں نہیں نکلتے ، لاکھ غصہ ہو ،حتی کہ نشہ کیا ہو تب بھی مرد طلاق ہمیشہ بیوی کو دیتا ہے

کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ مرد نشے میں تھا اور اس نے اپنی ماں، بہن سے کہا کہ امی / باجی میں نے آپ کو طلاق دی ، یہ جاہلانہ باتیں ہیں

شعور سے زیادہ لاشعور اور تحت الشعور میں یہ باتیں جذب ہوئی ہوتی ہیں کہ بیوی کو طلاق کی دھمکی دے کر ڈراؤ تاکہ وہ مرد کی کسی ناجائز اور غلط بات پر بھی نہ بولے اور اپنی مرضی کی بجائے شوہر کے حکم پر ایک کٹھ پتلی کی سی زندگی گزارے۔

چلیے ۔۔۔اب آتے ہیں کہ سب کچھ کرکے پھر بھی طلاق ہوگئ ، ایسے میں لوگ اکثر اپنے مسلک میں گنجائش دیکھتے ہیں اگر نہ ہو تو دوسرے مسلک کے مفتی حضرات سے رجوع کرتے ہیں ، اور اب جبکہ اہل سنت کے سارے آئمہ عظام اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقوں کا مطلب ،تین طلاقیں ہی ہیں اور بیوی شوہر پر ہمیشہ کے لیے مکمل حرام ہوگئی ۔اب وہ عدت گزارنے کے بعد جس مرد سے چاہے نکاح کر سکتی ہے اگر بیوی حاملہ تھی تب بھی تین طلاقیں تین ہی مانی جائیں گی اور جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ حاملہ عورت پر طلاق لاگو نہیں ہوتی یہ سراسر لغو گوئی ہے ۔

عورت حمل سے ہو یا نہ طلاق کے اصول یکساں لاگو ہوں گے لیکن عدت میں فرق ہوگا نکاح کے بعد میاں بیوی کو یکسوئی والی تنہائی میسر ہوئی ہو اور طلاق کے وقت حمل نہ ہو توعدت تین ماہ واریاں گزارنا ہے اور تیسرے حیض سے پاک ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ، جبکہ حاملہ عورت کی عدت کی مدت بچے کی ولادت پر منحصر ہوگی اگر تین طلاقیں ہوگئیں اور اس کے دو گھنٹے بعد ہی بچہ پیدا ہو جائے تو وہ عورت نفاس کے دن گزار کر نکاح کر سکتی ہے۔ پھر اسے تین ماہ نہیں رکنا پڑے گا

علاوہ ازیں طلاق کی عدت کے دوران اس خاتون سے اس سے شادی کی بات نہیں کی جاسکتی ، طلاق کی عدت گزارنے کے بعد مطلقہ خاتون سے اس کی مرضی جانے بغیر اس کا نکاح کسی اور سے نہیں پڑھوایا جاسکتا ، مطلقہ کا اپنے منہ سے اقرار کرنا ضروری ہے کیونکہ اسے کسی ولی کی ضرورت نہیں ،
اب آتے ہیں طلاق کی طرف
طلاق شرعی کا مکمل طریقہ یوں ہے ۔۔
ہر ماہ پاکی کی حالت میں ایک ایک طلاق دی جائے ۔۔یعنی ہر ماہ ایک طلاق۔۔۔تین ماہ یعنی تین طلاقوں کے بعد بیوی عدت گزارے گی اور اور نان ونفقہ شوہر کے ذمے میں واجب الادا ہی رہے گا، اور بیوی شوہر کے گھر میں عدت پوری کرے گی ، لیکن تیسری طلاق دیتے ہی شوہر بالکل حرام ہو جائے گا اب بیوی چاہے تو اسی گھر میں عدت پوری کرے یا اپنے کسی محرم کے گھر ۔۔۔تین ماہ تین طلاقیں ۔۔۔نکاح ختم اب بیوی تین ماہ کی عدت پوری کرے گی

دوسرا طریقہ :
شوہر نے بہت سوچ سمجھ کر طلاق کا فیصلہ کیا اور بیوی کو پاک حالت میں ایک طلاق دے دی۔۔۔تین ماہ گزر گئے مگر رجوع نہ کیا ، پھر وہ طلاق رجعی سے طلاق بائن بن جائے گی ، شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق رکھنے کے لیے پھر سے نکاح کے لوازت مکمل ادا کرنے ہوں گے۔۔۔ ایجاب و قبول ۔گواہان ،حق مہر ۔۔۔ اور پھر اس عورت کا دوسرا شوہر خدانخواستہ حادثاتی طور پر۔۔۔فوت ہو جائے یا بیوی کو طلاق دے دے۔۔۔بنا کسی پیشگی پلاننگ کے۔۔۔

اور یہ خاتون اپنے سابقہ شوہر سے شادی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔۔۔ ۔۔۔اس حادثاتی موت یا طلاق۔۔۔ کے بعد سابقہ شوہرکی نئی بیوی بننے کا عمل عرف میں حلالہ کہلاتا ہے کیونکہ اب وہ کسی اور کی بیوہ یا مطلقہ ہے

اور یہ سابقہ شوہر ایک طرح نیا مرد ہی ہوا ۔۔۔۔اب وہی نکاح اور اس کے لوازمات۔۔۔سب پورے نئے سرے سے ادا کرنے ہوں گے۔۔۔

لیکن جاہل قوم شارٹ کٹ ڈھونڈتی ہے کہ کسی طرح یہ طلاق ختم ہو جائے ، اس میں سے نناوے فی صد لوگ طلاق ختم کرنے کی کوشش خاندانی دباؤ، ضد ، انا یا سماج میں سبکی کے خوف کے تحت کرتے ہیں یا پھر اولاد کا خیال شاذونادر آجاتا ہے

لیکن خواتین کے والدین اور بھائی وغیرہ اس خاتون کو ذمے داری نہیں بلکہ بوجھ سمجھتے ہیں کہ رخصت کرکے جان چھوٹی تھی اب پھر گلے پڑے گی اور اس چکر میں وہ اس خاتون کو دوبارہ تختہ ءمشق بناتے ہوئے اسی مرد کے ساتھ باندھے رکھنا چاہتے ہیں جس نے ان کی بیٹی بہن کی عزت نفس کی تذلیل کی اور اپنی زبان پر قابو نہیں رکھا اپنی بدمزاجی میں یا غصے میں آکر جائز مگر ناپسندیدہ ترین کام سر انجام دے ڈالا اور اکثر طلاق دیتا ہی وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کی عزت نہیں کرتا۔۔

کیونکہ محبت ہونا نہ ہونا دل کا معاملہ ہے لیکن عزت احترام اور نان ونفقہ یہ شادی کے لوازمات ہیں شوہر اور بیوی میں محبت نہ ہو لیکن انسانیت اور احترام کا رشتہ لازمی ہونا چاہیے ، جن لوگوں میں نہیں ہوتا اکثر وہی طلاق دیتے ہیں اور پھر ۔" حلالہ کے نام پر مزید اذیت اور شرمناک کام کرتے ہیں ، کسی مرد کو پیسے دے کر اپنی عزت اس کے حوالے کر دیتے ہیں یا پھر دوست جاننے والے یا کچھ نام نہاد مولوی حضرات خود کو اس کام کے لیے پیش کردیتے ہیں ۔

ایک لمحے سوچیں اس عورت پر کیا بیتتی ہوگی اور اس مرد کی غیرت کا جنازہ اٹھ جاتا ہے کہ اپنی پاکیزہ زوجہ ،شریک حیات اور اپنے بچوں کی ماں کوکسی غیر مرد کے حوالے کر دیتا ہے ، اور حلالہ کے نام پر یہ قبیح فعل انجام دیا جاتا، وہ مرد سوچے کیا وہ اپنے بچوں کی ماں سے نظریں ملانے کے قابل رہتا ہے ؟ مرد کی بے غیرتی کی سزا عورت کو اپنی تذلیل کروانے سے ملے ، نقصان تو عورت کو ہی ہوا بہرحال یہ بات امر مسلمہ ہے کہ

یہ جو مروجہ حلالہ ہے یہ موجب لعنت اور ناجائز کام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔