بنت مسعود احمد
"مرحوم کے چھوٹے داماد تو غیروں کی طرح چل دیے۔
کہتے تھے یہ کھانا تو گھر والوں کے لیے ہوتا ہے۔"
"ہم نے کہا بھی کہ چلو کھانا نہ کھاؤ پر کچھ کام ہی کرالو۔۔۔مگر نہ جی۔۔یہ کھانا ہی جائز نہیں تو کھلانا کیسے جائز ہوا؟؟"
"ارے کسی بزرگ سے تعلق ہے ان کا۔۔۔۔"
"کیسا تعلق؟؟؟دین دار لوگوں سے تو ہم بھی ملتے ہیں۔"
"اصلاح کا تعلق۔۔۔وہ کہتے ہیں تعزیت مسنون ہے۔سنت کے مطابق کام کرو۔"
"بھئی اتنے لوگ کھارہے ہیں پھر بھوک کا ٹائم۔۔۔مرنے والے کے ساتھ تو مرا نہیں جاتا۔"
"ہاں۔۔تب ہی تو میں نے خوب سیر ہوکر کھایا۔"
★**★
یہ محض ایک چھوٹی سی کہانی نہیں بلکہ اس میں ہم سب کے لیے ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے کیونکہ آج ہم اس ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ ہمارے دل سخت ہوچکے ہیں۔کوئی غلط کام سے روکتا بھی ہے تو ہم اسی کے دشمن بن جاتے ہیں حالاں کہ وہ تو ہماری ہی بھلائی کے لیے بات کہہ رہا ہوتا ہے مگر ہم اپنے نفس کی مخالفت میں کچھ بھی سننےکے روادار نہیں ہوتے۔ہم وہی کام کرنے میں جتے رہتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے ہم معاشرے اور اس میں بسنے والوں کی خوشی اور ناراضی کو مدنظر رکھتے ہیں ہم سنت کو چھوڑ کر بدعت پر چلتے ہیں کہ یہی ہمارے معاشرے کی روایت بن چکی ہے۔۔۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایسا کھانا برضا و رغبت کھاتے ہیں جو کہ جائز ہی نہیں۔حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ میت کے گھر والے اس دن غم اور مصیبت میں ہوتے ہیں،اس لیے جب کسی کے گھر میت ہوجائے تو اس کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو چاہیے کہ اہلِ میت کے لیے کھانا تیار کرکے ان کے گھر بھیجے ، یہ عمل مسنون ہے ۔
پیارے نبی کی مبارک زندگی سے ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے جنگ موتہ کے دن حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کى شہادت کی خبر ہمارے پیارے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا:
جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تيار کرو؛ کیوں کہ انہیں وہ چیز پہنچی ہے، جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔ (ابو داؤد)