عیسائی موم بتی جلا کر دعا کرتے ہیں اور پھر پھونک سے موم بتیاں بجھا کر دعا خدا کے حضور بھیجی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح کیک پر لگی موم بتیاں بجھانے سے پہلے کوئی دعا یا خواہش خدا کے حضور کرنے کا رواج عیسائیوں ہی کا ہے۔ یہ دعا یا خواہش خفیہ رکھی جاتی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ظاہر کر دینے سے وہ قبول نہیں ہوتی
وردہ جنجوعہ ڈسکہ
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ( happy birthday to you)"کے الفاظ یقیناً آپ سب نے اپنی زندگی میں سنے اور شاید ایک دوسرے کو کہے بھی ہوں گے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہر سال اپنے یوم پیدائش پر خوشی منانا کیا واقعی خوش ہونے اور سیلی بریٹ کرنے کا موقع ہے؟
اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ سال گرہ خاص طور پر مصر کے بادشاہوں کے یوم پیدائش کی خوشی منانے کو کہا جاتا تھا۔ فرعونِ وقت کو خدا مانا جاتا تھا۔ سال گرہ کے حوالے سے ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ان کے خدا کا یومِ پیدائش ہے۔ اسی بات کی خوشی منانے کے لیے دعوت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اسی طرح کیک پر موم بتی جلانے اور بجھانے کے حوالے سے بھی بہت سے نظریات ملتے ہیں، جن میں سے سب سے قدیم یونانی فلسفے کو مانا جاتا ہے۔ یونان کے لوگ اپنی دیوی آرٹیمس (Artemis) کی عبادت کے لیے موم بتیاں جلایا کرتے تھے۔
موجودہ نظریہ عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہما السلام کو خدا ماننے اور ان کی عبادت کے حوالے سے موسوم ہے۔ عیسائی موم بتی جلا کر دعا کرتے ہیں اور پھر پھونک سے موم بتیاں بجھا کر دعا خدا کے حضور بھیجی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح کیک پر لگی موم بتیاں بجھانے سے پہلے کوئی دعا یا خواہش خدا کے حضور کرنے کا رواج عیسائیوں ہی کا ہے۔ یہ دعا یا خواہش خفیہ رکھی جاتی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ظاہر کر دینے سے وہ قبول نہیں ہوتی۔
یہ دونوں حوالے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سال گرہ سراسر کفار کی ایجاد کردہ رسوم کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
اب بحیثیت مسلمان اور اسلام کے نظریات کی روشنی میں ہم اس کو دیکھنے اور ایک مثال سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون کتنے سال جیے گا؟ کس کی موت کا وقت کب ہے کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اگر آپ کو آج معلوم ہو جائے کہ اگلے دو یا تین سال بعد فلاں دن آپ کی زندگی کا آخری دن ہو گا تو کیا آپ اپنی زندگی کا بقیہ کوئی بھی دن خوشی منا سکیں گے؟ آپ یقیناً ہر روز گنتی کریں گے کہ اب کتنے دن باقی ہیں؟؟؟ چلیں دو تین سال نہیں آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ آج آپ کی سالگرہ ہے لیکن آپ کو آج ہی مرنا بھی ہو گا، کیا آپ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹ کر اپنے دنیا میں آنے کی خوشی منا سکیں گے؟
ہماری زندگی کتنی ہو گی یہ بات ازل سے طے کی جا چکی ہے۔ آپ کی پیدائش کے دن سے آپ کی موت کا ٹائمر شروع کر دیا جاتا ہے۔ ہر گزرتا دن آپ کو موت کے ایک قدم مزید قریب لے جاتا ہے۔ تاریخ پیدائش ہر سال آپ کو یہ یاد دلاتی ہے کہ آپ کی زندگی کی مہلت کا ایک اور سال کم ہو چکا ہے۔ موت آپ کے دروازے پر دستک دینے کے لیے وقت مقررہ کی منتظر ہے۔
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں منا کر آپ کچھ لمحے مسرت کے گزار لیں گے تو آپ کا انتخاب غلط ہے۔ آپ خوشی اللہ کو راضی کر کے، کسی کی مدد سے یا کوئی نیکی کا کام کر کے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ یہ سوچیں آپ کو دنیا و آخرت میں سے کس چیز کی طلب اور خواہش زیادہ ہے۔ اگر آپ کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو اپنی سالگرہ کے دن پورے سال کے گناہوں اور کوتاہیوں پر توبہ استغفار کریں۔ زندگی میں نیکیاں کرنے کے لیے مزید مہلت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ جو رقم پارٹی اور دکھاوے پر لگاتے ہیں اسے لوگوں کی مدد کرنے میں استعمال کریں۔ وقتی خوشیاں کسی کام نہیں آتی۔ کچھ ایسا کریں کہ اس بات کی مسرت اور لذت آپ زندگی بھر اور مرنے کے بعد روز محشر بھی محسوس کر سکیں۔