اسے دو طرح کے شامی کباب بنانے تھے۔ایک گوشت کے دوسرے چکن کے ۔۔۔اس نے گوشت کے کبابوں کا مسالا رات کو تیار کرلیا اب صرف پیسنا باقی تھا۔جبکہ چکن کے کبابوں کا مسالا ابھی تیاری کے مراحل میں تھا۔شام تک وہ تھکن سے چور ہوچکی تھی پر کباب بناکر کافی حد تک اس کا ذہن ہلکا ہوچکا تھا
بنت مسعود احمد


"رمضان آنے میں اب بس ایک ماہ باقی ہے۔۔۔ہر دفعہ یہی سوچتی ہوں کہ خوب دل لگاکر عبادت کروں گی مگر سحری افطاری اور رات کے کھانے کی تیاری میں ہی تھک کر چور ہوجاتی ہوں۔۔۔پھر نفلی عبادات تو دور کی بات فرائض تک بامشکل پورے ہو پاتے ہیں۔"حنا نے اپنی پریشانی شفا کو بتائی۔

شفا کی فیملی پچھلے ماہ ہی حنا کے برابر والے فلیٹ میں شفٹ ہوئی تھی۔چند ہفتوں میں ہی وہ بڑی اچھی سہیلیاں بن چکیں تھیں .حنا کو اس فلیٹ میں رہتے چند ماہ ہوچکے تھے۔

شفا اپنی ساس سسر شوہر اور تین بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔جبکہ حنا کے چار بچے تھے۔ساس سسر کبھی کبھی رکنے آجاتے اور اس بار ساس سسر ان کے یہاں رمضان گزارنے آرہے تھے یہی سوچ کر حنا کو ہول اٹھ رہے تھے۔ دو بیٹوں کے بعد ایک بیٹی تھی جو پانچ سال کی تھی اور چھوٹا نبیل تین سال کا تھا۔وہ تو گھر اور بچوں کے کاموں میں ہی ہلکان ہوجاتی پھر دونوں بڑے بیٹے بھی روزہ رکھتے تھے تو ان کی افطاری کے لیے نت نئی فرمائشیں الگ ہوتیں تھیں۔اب اس بار تو اسے ساس سسر کے لیے پرہیزی کھانا بھی پکانا تھا۔

وہ سر پکڑے بیٹھی تھی طلحہ سے کچھ کہتی تو وہ الٹا اسی پر ناراض ہوتے کہ میرے والدین اس پر بھاری ہیں۔آج جب یوں ہی اس نے شفا کے سامنے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس نے اسی بہت سے مفید مشوروں سے نوازا اور ساتھ میں دعاؤں کے اہتمام پر بھی زور دیا۔حنا نے شفا کی بتائی ترکیبوں پر عمل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ۔ ★**★

پہلے ہفتے اس نے سلائی کا کام نمٹاکر بچوں کی الماری ترتیب دے کر رکھی۔طلحہ اور بچوں کے روز کے پہننے والے جوڑے ایک دن نکال کر استری کرکے رکھ دیے۔اگلے دن اس نے کچن کی خوب تفصیلی صفائی کرلی ایک ایک برنی اچھی طرح دھو کر خشک کرکے مسالا بھر کر جگہ پر رکھی۔۔دو ہفتے پر لگا کر گزر چکے تھے۔ایک دن گھر کی جھڑائی اور دوسرے دن کپڑوں کی دھلائی کے بعد اب اسے رمضان کے لیے کچھ چیزیں بناکر رکھنا تھیں.اگلے دن وہ بچوں کو اسکول بھیج کر سوئی نہیں بلکہ اپنی پلاننگ کے حساب سے کام نمٹانے میں جتی تھی۔اس کے ہاتھ تیزی سے کاموں میں مشغول تھے۔۔۔اگلے ہفتے سے رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے کو تھا اسی کی برکتیں بساط بھر سمیٹنے کو اسے وقت اور کاموں کی بچت کرنی تھی سو اسی کے لیے پہلے سے کمر بستہ ہوچکی تھی۔

آج اسے تین قسم کی چٹنیاں تیار کرنی تھی اور لہسن ادرک پیسنا تھا۔کل رات کو وہ لہسن چھیل کر رکھ چکی تھی۔ سب سے پہلے اس نے پودینے ہرا دھینا اور ہری مرچ املی ڈال کر چٹنی پیسی پھر لہسن ادرک پیس کر برف کی ٹرے میں ڈال کر فریز کردیے۔

اب باری تھی میٹھی چٹنی کی اس نے املی کے گودے میں پسی لال مرچ نمک زیرہ تھوڑی سی سونٹھ شامل کرکے پکنے رکھی اور گڑ کوٹ کر اس میں ڈالا اور تیار ہونے پر اسے ٹھنڈا کرکے پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کر فریز کردیا۔ دوسرے دن پیاز باریک کاٹ کر براؤن کی پھر اسمیں حساب سے دہی ڈال کر پیسٹ بناکر چھوٹی تھیلییوں میں ایک مناسب مقدار میں بھر کر رکھ لیا۔ اگلے دن کا ٹارگٹ تھوڑا ٹف تھا پر اسے کرنا تھا۔

اسے دو طرح کے شامی کباب بنانے تھے۔ایک گوشت کے دوسرے چکن کے ۔۔۔اس نے گوشت کے کبابوں کا مسالا رات کو تیار کرلیا اب صرف پیسنا باقی تھا۔جبکہ چکن کے کبابوں کا مسالا ابھی تیاری کے مراحل میں تھا۔شام تک وہ تھکن سے چور ہوچکی تھی پر کباب بناکر کافی حد تک اس کا ذہن ہلکا ہوچکا تھا۔

ٹکیہ اس نے اگلے دن سکون سے بیٹھ کر بنائیں اور ٹرے میں رکھ کر فریز کرلیں۔جب اچھی طرح کباب فریز ہوگئے تو انہیں ائیر ٹائٹ ڈبوں میں سیٹ کرلیا۔

پھر اس نے گوشت گلاکر رکھنا تھا تو دوسری طرف مرغی دھو کر پیکٹ بناکر رکھنے تھے۔بون لیس چکن پر مسالا لگاکر ایک بڑے ڈبے میں فریز کردیا۔

اگلے دن کا کام صرف سموسے بنانا تھا قیمے کے سموسے کے لیے وہ قیمہ رات کو تیار کرکے رکھ چکی تھی اب صرف اسے فلنگ پٹیوں میں بھرنا تھی اور یہ کام بچوں کے اسکول سے آنے سے پہلے انجام دینا تھا۔اس نے بسم اللہ پڑھ کر اپنا کام شروع کیا اور ڈیڑھ گھنٹے میں وہ چھ درجن سموسے بناکر حیران تھی۔

اگلے دن اتوار تھا وہ سکون سے روٹین کے کھانا تیار کرتے ہوۓ دوسرے چولہے پر میکرونی ابال رہی تھی پھر اس کے بعد ایک بیکٹ اسپاگیٹی کا بھی ابال کر رکھنا تھا۔پھر انہیں صاف تھیلیوں میں اس حساب سے رکھنا تھا جو اسے ایک دن میں استعمال کرنی تھی۔ ★*★

الارم بجا تو سحری میں ابھی آدھا گھنٹا باقی تھا وہ اٹھ کر وضو کرنے چل دی۔اپنی ہمت کے بقدر چند نفل ادا کرکے اللہ سے راز و نیاز کرتی رہی۔۔۔پھر جاۓ نماز تہ کرکے کچن میں چلی آئی ساس سسر کے لیے دلیہ علی طلحہ اور اپنے لیے پراٹھے اور چاۓ تیار کرکے پہلے ساس سسر کے کمرے کا رخ کیا پھر طلحہ اور علی کو اٹھاکر فورا دسترخوان لگایا۔ سب سحری کھاکر فارغ ہوۓ تو اس نے جلدی جلدی کچن سمیٹا دو پیڑے پراٹھے بیلے اور ہلکا سا سینک کر انہیں بچوں کے ناشتے کے لیے رکھ دیے۔ ★**★

وضو کرکے قرآن پاک لے کر بیٹھ گئی کیونکہ ابھی اذان میں تھوڑا وقت باقی تھا۔ نماز کے بعد بھی تھوڑی تلاوت کی یوں پہلے روزے کو اس کا پہلا پارہ مکمل ہوگیا۔ ★**"”

صبح اٹھ کر پہلے بچوں کو ناشتا کروایا پھر گھر کی صفائی کرکے اس نے پکوڑوں کے لیے بیسن گھول کر رکھا۔ بچے آلو کے چپس شوق سے کھاتے تھے تو چپس کاٹ کر پانی میں بھگوکر رکھ دیے۔ فریز سے املی کے گودے کی بوتل اور ایک پیکٹ چنوں کا نکال کر رکھا۔ساس نے رات کے لیے سبزی بناکر دی تو اس نے وہ تیار کرکے ایک طرف رکھ دی۔ اب عشاء کی نماز اور تراویح سکون سے پڑھ کر اسے صرف روٹی بنانا تھی۔ پہلا روزہ بڑی آسانی سے گزر گیا کاموں کو اس نے ترتیب سے کیا تو تھکن بھی نہ ہوئی اور عبادت کا وقت بھی میسر آگیا۔

ذرا سی ہمت اور دعاؤں سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی ۔ وہ خوش تھی اور پرامید بھی کے یہ رمضان کے چند دن اسی طرح گزرجائیں گے۔