بنت محسن

نوجوان ايک اچھے اور طاقتور معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ بڑے سے بڑے انقلاب میں ان کا اہم ترین کردار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن پوچھے جانے والے 5سوالات میں سے دو سوال صرف یہ ہیں کہ زندگی کہاں َصرف کی اور پھر الگ سے جوانی کا سوال ہوگاکہ وہ کہاں کھپائی ، کیوں کہ یہی وہ عمر ہے جس میں انسان کی طاقت اور صلاحیتں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔


قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردار اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں، وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی (سورہ کہف)

وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا۔

ان دنوں جب اتنی کثیر تعداد میں مسلمانانِ فلسطین کی شہادتیں اور ظلم و ستم کی خبریں سامنے آرہی ہیں تو مُسلم امہ کے دل رنج و الم میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ غم و غصّہ سے جذبات بھڑکتے نظر آئے تو دُکھ و تکلیف سے اشک بہتے چلے جاتے ہیں ۔ بیشتر لوگ بطور مسلم امہ اپنے کٹتے جسم کے حصّہ کی وجہ سے دن رات تڑپتے رہے اور روز بروز تڑپتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔

مگر اس دوران ایک عجیب معاملے کا انکشاف ہوا کہ ہماری نوجوان نسل کا کچھ حصّہ ایسا ہے جو اس طرح نہیں تڑپ رہا جس طرح کسی جسم کے عضو کی تکلیف پر ایک شخص کو تڑپنا چاہیے بلکہ وہ تو سرے سے لاتعلق نظر آتا ہے ۔ اس کو کسی نے کرکٹ کی طرف بلایا تو ادھر چل دیا ۔ کسی نے کسی اور طرف بلایا تو اُدھر رخ کر لیا۔ اُس کو اِس امت کے جسم سے کب کس طرح سُن کر کے الگ کرنے کی تدابیر کی جا رہی ہیں، شاید ہم یہ محسوس ہی نہ کر سکے اور نہ اب تک کر رہے ہیں ۔

جب کبھی کوئی پودا سُوکھتا یا مُرجھا جاتا ہے تو وہ چند سیکنڈ کی روشنی یا پانی کی کمی سے نہیں ہوتا بلکہ مسلسل کچھ وقت کی محرومی سے اس کی زندگی کی رمق ختم ہو جاتی ہے ۔

آج ہماری نسل کے ایمانوں کی رمق کا بھی یہی حال ہے، ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے شاید ان کے ایمان کی وہ آبیاری ہی نہ ہو سکی، جو اہلِ ایمان کو اصل میں کرنی چاہیے تھی ۔

جبکہ باطل بہت شاطر نکلا، اس کو خوب معلوم تھا کہ کسی بھی قوم میں نوجوان نسل کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور اس نے جس عقل مندی سے ہمیں غفلت کی نیند سُلا کر اس نسل کو اپنا غلام بنایا اور بنا رہا ہے ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ ایک طرف سائنس و ٹیکنالوجی کی آڑ میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ کس طرح بربادی مچائی گئی۔ یہ بات خوش آئند ہے ہمیں اس سے تھوڑی بہت آگاہی ہوئی اور اس کو بہتر کرنے کے اقدامات بھی سوچے سمجھے جانے لگے ہیں الحمدللّٰه ۔

لیکن کیا کیجیے تعلیمی ادارے اور ہمارا تعلیمی نظام نئی نسل کی تربیت کی بجائے اس جکے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں اور ہم لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔

جب مسلمان ہونے کے باوجود ہمیں ہی اس بات پر فخر ہو کہ میرا بچہ مخلوط تعلیمی نظام میں، کانفیڈنس کے ساتھ، کفار کے پیش کردہ تعلیمی نصاب کو بہترین انداز میں کفار ہی کی زبان میں عُبور حاصل کر کے پڑھے سمجھے اور بَرتے تو پھر بھلا اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ وہی نا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں لیکن افسوس اصلاح احوالکی کوشش یا ہو تو کی نہیں جا رہی یا ناکافی کوشش ہے ۔

یہ کتنا عجیب ہے کہ مسلمان والدین بچوں کو نمازِ فجر نہیں جگاتے یہ ان کے حق میں ظلم لگتا اور وقت کا ضیاع لگتا ہے لیکن اسکول کی تعلیم اور دوسری سرگرمیوں کے لیے صبح سویرے جگانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ کب اُمّت کی مسلمات کو اپنی حیا کے دُوپٹے اُتار کر بے حیائی پر خوشی ہونے لگی، کب نامحرم سے دوستی کو معیوب سمجھا جانا ختم ہی ہوگیا، کب تعلیمی نصاب سے آہستہ آہستہ ایمان کو ختم کر دینے کے لیے اقدامات ہوتے رہے ہم شاید سوتے ہی رہ گئے ۔ کب اِقبال کو ہٹا کر اُن کے دِلوں میں شیکسپیئر اور چَرچِل کی محبت ڈال دی گئی، کب اُردو کو مشکل بنا کر انگریزی کا بُھوت سوار کر دیا گیا، کب فکرِ آخرت سے ہٹا کر مادّیت پرستی کا سبق سکھلا دیا گیا، کب قرآنی تعلیمات کی جگہ میوزک اور پیانو کلاسیں شروع کرا دی گئیں، کب ارکانِ اسلام کی تفصیلات سے زیادہ انکو کریسمِسز اور ہیلووین کا بتا دیا گیا، کب وجودِ کائنات کے بارے میں Big Bang theory کو رَٹوا دیا گیا، کب امت کو ٹکڑوں میں توڑ تفریق کا سبق سِکھلا دیا گیا، کب دِین کو دُنیا سے الگ کر کے دین کو انسان کا انفرادی عمل بتلا دیا گیا، کب نمازوں کو پسِ پُشت ڈال کر کھیل میں لگا دیا گیا، کب سیرت النبی کی اہمیت کو مڑوڑ تڑور کر کم سے کمتر کر دیا گیا، کب سیرت صحابہ، قصصُ الانبیاء سے کوسوں دُور کر دیا گیا ، کب بامقصد زندگیوں کو بے مقصد زندگی گزارنے میں تبدیل کر دیا گیا حتی کہ کب خدائے واحد کی وحدانیت کے خلاف اُن سے تقاریر تک لکھاوا لی گئیں نعوذ بالله ۔۔۔ ہم سمجھ ہی نہ سکے ۔۔۔۔ بالکل اسی طرح کب باطل قوتیں فلسطین کو ہٹا کر اسرائیل کو بساتی چلی گئیں ہم اتنی کثیر تعداد میں موجود مسلم امہ اپنی اس غفلت کی نیند میں سوتے رہ گئے ۔۔۔

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
قدم قدم پر عبرت کا سامان موجود ہے گویا آواز آرہی ہے کہ اے نادان سنبھل جاو اور سنبھال لو، خود کو اور نسلوں کو ۔ جتنی مضبوط امہ ہو گی اتنی ہی دُشمن سے مقابلہ کرنے کی قوت ہو گی اور اپنے جسم کے حصوں کو بچانے کی طاقت ۔ سمندر کی جھاگ کی کیفیت سے نکلنے اور وہن کی بیماری سے بچنے کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں خود جاگنا جگانا اور پھر تگ و دو کرنی ہے ۔ جتنا غفلت کی نیند میں سو کر وقت اور صلاحیتیں ضائع کی ہیں، اس سے کئی زیادہ اب محنت کرنی ہے ۔

عقل ہے تیری سِپَر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں‌گیر تری
ماسِوَی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اللّٰه تعالیٰ ہم سب کو اور تمام مسلم امہ کو فتنوں سے بچائے، ہمارے مظلوم مسلمان بھائیوں پر رحم فرمائے اور ہمیں امت کا بہترین مضبوط حصہ بنا دے جو باطل کو منہ توڑ جواب دے کر حق کو غالب کرنے میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکے آمین ثم آمین۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے ، ( نیک ) اعمال کرنے میں جلدی کرو ۔ ( ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر ، اپنا دین ( ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتا ہو گا ۔‘‘ (صحیح مسلم 118)