نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسے مواد یا لٹریچر سے دور رہیں جو ان کی شہوت کو بڑھائے، روزہ رکھیں۔نظر نیچی رکھیں پردہ کریں۔نامحرم سے اختلاط سے پرہیز کریں تاکہ زنا کی طرف رغبت نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رکھیے جو خصوصیات آپ اپنے زوج میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ میں پیدا کر لیں تو آپ کو ویسا ہی جوڑ مل جائے گا
حمیراعلیم
آج کل یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ حضرت انسان ابلیس کی طرح ضد اور میں نہ مانوں کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔اپنے ہر گناہ اور غلطی کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ خود کو اور دوسروں کو تو دھوکا دے سکتے ہیں مگر اللہ تعالی کو نہیں۔اس تمہید کی وجہ ایسی تحریریں ہیں جو ان نوجوان لڑکے لڑکیوں نے لکھی ہیں جن کے مطابق ان کے والدین ان کا نکاح نہیں کرتے اور وہ مجبورا زنا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نکاح نہ ہو سکنے کی صورت میں کیا حکم دیتا ہے پھر دنیاوی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شادی کی طاقت نہ رکھے وہ روزے لازم کرلے،( روزے اس کی شہوت توڑ دیں گے)۔
قرآن پاک کا حکم بھی یہی ہے۔
"اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت اور پاکدامنی کے ساتھ رہیں، تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کردے ۔ "النور32-33
دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آزاد اور امیر شخص یا عورت نہ ملے تو مومن لونڈی یا غلام سے ( آج کے دور میں لونڈی غلام تو نہیں تو ہم غریب مزدور سمجھ سکتے ہیں ) نکاح کر لینا چاہیے۔لیکن چھپے دوست نہیں بنانے چاہیے کیونکہ مسلمان مردو خواتین محصن یعنی اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں زانی نہیں ۔اور افضل وہی ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرے اس میں مردوعورت کی تخصیص نہیں۔
ان احکام کی روشنی میں کسی بھی حال میں زنا تو کیا خفیہ دوستی کی بھی اجازت نہیں۔ہر والدین کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان کابیٹا بیٹی بہترین زوج سے بیاہا جائے اور اس کی شادی شدہ زندگی بے مثال اور خوش گوار ہو۔یہی وجہ ہے کہ وہ بہترین بر ڈھونڈتے ہیں۔لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ان کی کوشش کے باوجود شادی نہیں ہو سکتی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچے زنا کرنا شروع کر دیں اور الزام والدین کے سر دھر دیں۔کہ ہم کیا کریں اگر وہ ہماری شادی جلد کر دیتے تو ہم یہ گناہ نہ کرتے۔والدین کے ذہن میں جو نکات ہوتے ہیں اگر وہ اولاد کو معلوم ہو جائیں تو شاید وہ انہیں الزام نہ دے۔
یاد رکھیے اگر والدین سے اولاد کی تربیت ان کی شادی وغیرہ کا حساب ہو گا تو بچوں سے بھی ان کے والدین اللہ تعالٰی کی اطاعت اور اعمال کا حساب ہو گا۔ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے وقت سے پہلے کوئی کتنی بھی کوشش لے وہ کام نہیں ہو سکتا۔میرا مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ والدین سے زیادہ کسی کو بچوں کی شادی کی فکر نہیں ہوتی۔لیکن بچوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شادی صرف جسمانی تسکین کا نام نہیں۔
جسمانی تسکین صرف چند ماہ میں مانند پڑ جاتی ہے جب گھر کا کرایہ، مختلف بل، سودا سلف، بچوں کے اخراجات کے لیے پیسہ نہ ہو تو قربت کے نام سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے۔فرض کیجیے والدین پندرہ سال کے لڑکا لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں۔جو لوگ قرآن حدیث کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کو بلوغت کے فورا بعد بیاہ دینا چاہیے انہوں نے قرآن حدیث میں یہ بھی پڑھا ہو گا کہ بیوی بچوں کی کفالت گھر چلانا، مہر مرد کی ذمہ داری ہے سسرال کی نہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ سسرال والوں کے ساتھ میاں بیوی رہ رہے ہوں اور گھر کی ذمہ داری شوہر کے والد پر ہو۔اب جب ہنی مون پیریڈ اوور ہو جاتا ہے۔دونوں بچے جو میٹرک کے طالبعلم ہیں ان کی پڑھائی کے اخراجات اور بیوی کا نان نفقہ سسر کے ذمہ لگ جائے گا جو اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ بیٹے بہو اور اس کے بچوں کو بھی پالے گا حالانکہ یہ اس کا فرض نہیں۔کیونکہ ہر شخص تو امیر نہیں ہوتا کہ بیٹے کو گھر اور بزنس بطور شادی کا تحفہ دے دے۔اس لیے لازما گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں۔
ایک لڑکا اور لڑکی شادی کر لیتے ہیں جوکام کر رہے ہیں کہ ہم مل جل کر گھر چلا لیں گے۔جب بچے ہو جاتے ہیں تو خاتون کے لیے جاب کرنا ممکن نہیں ہوتا اس صورت میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یا ایک وقت آتا ہے جب عورت یہ سوچتی ہے کہ جب میں نے خود ہی کما کر اپنا اور بچوں کا خرچہ اٹھانا ہے تو اس بندے کے ساتھ رہنے کا فائدہ نتیجہ طلاق یا خلع ہو جاتی ہے۔
اگر والدین کسی بھی رشتے کے لیے مان کر صرف یہ سوچیں کہ بچے گناہ میں نہ پڑیں لہذا جیسا بھی لڑکا لڑکی ہو بس بیاہ دیں تو پیسے کی کمی، کردار، سسرال کی مداخلت اور دیگر مسائل کی بنا پر طلاق اور خلع ہو جاتی ہے۔جب کہ کوئی لڑکا لڑکی کسی دین دار قبول صورت غریب اور زیادہ عمر کی لڑکی یا لڑکے سے شادی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ہر ایک کو خوبصورت، پڑھا لکھا، امیر اور ہم عمر زوج چاہیے ہوتا ہے۔یہاں سنت بھول جاتی ہے۔
چنانچہ اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ نفس کی وقتی تسکین کا نام ہی شادی نہیں۔شادی ذمہ داری کا نام ہے۔شوہر پر بیوی بچوں کی کفالت کی اور بیوی پر شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری۔جب دونوں اپنے حقوق تولینا چاہتے ہیں مگر فرائض پورے نہیں کرتے تو گھر ٹوٹ جاتا ہے۔
اب بتائیے جو کنوارے لڑکا لڑکی اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پاتے تو شادی ہونے کے بعد کیسے برداشت کریں گے؟ کیا کسی طلاق یافتہ مرد یا عورت کے لیے دوسری شادی آسان ہو گی؟؟؟ اگر دوسری شادی نہ ہو سکی تو وہ کس کو مورد الزام ٹھہرا کر زنا کریں گے؟؟؟ کیونکہ بیوہ طلاق یافتہ مردوعورت اپنے افعال کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔
والدین اگر بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں اور پھر شادی کرنا چاہتے ہیں تو اس میں انہی کی بہتری ہوتی ہے۔لڑکا خاندان کی کفالت کے قابل ہو جاتا ہے اور اگر لڑکی پر برا وقت آ جائے تو وہ خود کچھ کرنے کے قابل ہو اور خاندان کی مدد کر سکے۔اور اگر وہ ان کی شادی مڈل اسٹینڈرڈ کے بعد کر دیں تو روز خرچے پر جھگڑے ہوں گے۔لڑکا کمائے گا یا پڑھے گا۔لڑکی کو جب ہر چیز نہیں ملے گی تو محبت اور نفسانی خواہش سب ختم ہو جائے گا اور ضرورت یاد رہ جائے گی۔پھر یہی شادی کے شدید خواہش مند بچے ہر چیز کے لیے والدین کو تنگ کریں گے۔جب والدین ان کے اخراجات پورے نہیں کر سکیں گے تو گھر ٹوٹ جائے گا۔تو کیا یہ بہتر نہیں کہ پہلے آپ دونوں خود کو شادی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بنائیں پھر شادی کریں۔
جن لوگوں نے کم عمری میں شادی کی ان کی زندگی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے ان کے تجربے سے سیکھیے۔اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ گناہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے تو براہ راست والدین سے کھل کر بات کیجئے کہ آپ کو کسی بھی کردار، شکل اسٹیٹس کے بندے سے بیاہ دیں آپ نباہ کر لیں گے بس گناہ سے بچا لیں۔کیونکہ کسی مفتی، رشتے دار یا دوست سے یہ مسئلہ ڈسکس کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔صرف والدین ہی ہیں جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔شاید یہ بھی ممکن نہ ہو کہ آپ والدین کو اپنا مسئلہ بتائیں لیکن کوئی ایسا شخص ہی نہ ہو جو آپ سے شادی کا خواہش مند ہو تو والدین کے لیے یہ بھی ناممکن ہو گا کہ وہ راہ چلتے کسی بھی لڑکے یا لڑکی سے آپ کا فورا نکاح کر دیں چنانچہ نکاح ہونے تک آپ کو صبر ہی کرنا پڑے گا۔
ہم اکثر خبروں میں دیکھتے ہیں کہ لڑکا لڑکی والدین کے انکار ہر گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ ایسے 95% نکاح جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں، وجہ شوہر اور سسرال کا تشدد اور بیوی کو طعنے اس پر شک ہوتا ہے یا بیوی کو اخراجات نہ ملنے پر جھگڑا۔ذرا سوچیے ایسی لڑکی کی زندگی طلاق یا خلع کے بعد کیسی ہوتی ہو گی۔پہلے تو وہ والدین کے گھر جا نہیں سکتی اور اگر والدین اس کو معاف کر کے لے بھی جائیں تو معاشرہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔
اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسے مواد یا لٹریچر سے دور رہیں جو ان کہ شہوت کو بڑھائے روزہ رکھیں۔نظر نیچی رکھیں پردہ کریں۔نامحرم سے اختلاط سے پرہیز کریں تاکہ زنا کی طرف رغبت نہ ہو۔اور شادی خواہ کسی بھی عمر میں کریں شادی سے پہلے سورہ البقرہ، التحریم ، النور اور الطلاق کا ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مطالعہ ضرور کر لیں۔کیونکہ صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہی آپ کے کنوار پن کی اور شادی شدہ زندگی کے خوش گوار ہونے کی ضمانت ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے جو خصوصیات آپ اپنے زوج میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ میں پیدا کر لیں تو آپ کو ویسا ہی جوڑ مل جائے گا۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ ہر حرام کام کریں اور زوج آپ کو باعمل مسلمان ملے۔