عذرا خالد
تاریخ اسلام میں ہمیں ایک شخصیت کے کارنامے نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں؛ وہ ہیں سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاریخ اسلام میں کثرت کے ساتھ قلم اور زبان پر آنے والی محترم شخصیات میں سے ایک آپ رضی اللہ عنہ ہیں۔
نام اور خاندان:
آپ کانام "عمر"، کنیت ابوحفصہ اور لقب "فاروق اعظم" ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام "خطاب" اور ماں کا نام "حلتمہ" ہے جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی اور ابو جہل کی بہن تھیں۔ آپ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے- آپ کی پیدائش واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد بیان کی جاتی ہے-
بچپن اور جوانی کے ادوار:
بچپن اور جوانی قریش کے عام لوگوں کی طرح گزرے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے پڑھنے اور لکھنے کے شوق کی بدولت اس دور کے تعلیم یافتہ لوگوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور نظر آتے تھے- اپ کی رنگت صاف تھی اور سرخی پوری آب وتاب کے ساتھ جھلکتی تھی۔ آپ کے چلنے کی رفتار تیز تھی اور جسمانی ورزشوں، گھڑ سواری اور پہلوانی میں مہارت حاصل تھی۔ شاعری کا شوق:
عکاظ اور دوسرے میلوں میں شعر و شاعری کی محفلیں بھی ہوا کرتی تھیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان محفلوں میں شرکت کرتے اور وہاں جو شعر سنتے ان کو اپنے حافظے میں محفوظ بھی کر لیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت بلیغ البیان تھے یہ صفت آپ کو اپنے والد سے ملی تھی قبول اسلام:
کفار مکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر پریشان تھے۔ وہ ایک جگہ جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ حضرت محمد ﷺ کو ( معاذ اللہ ) قتل کر دیا جائے۔ لیکن کون قتل کرے ؟ مجمع میں اعلان ہوا کہ کون محمد ﷺ کو قتل کرے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ میں ان کو قتل کروں گا- آپ رضی اللہ جوش کے ساتھ تلوار لے کر چل پڑے۔
راستے میں حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ملے ( بعض کتابوں میں دوسرا نام بیان کیا جاتا ہے) ۔ حصرت نعیم نے پوچھا کہ اے عمر! کہاں جارہے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت محمد ﷺ کو قتل کرنے جارہا ہوں۔ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس قتل کے بعد تم بنی ہاشم اور قبیلہ بنی زہرہ سے کس طرح بچو گے وہ تو تم کو جان سے مار دیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آکر کہا کہ لگتا ہے تم نے بھی اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر محمد ﷺ کے دین کو قبول کر لیا ہے تو میں پہلے تجھ کو ہی نپٹا دوں اور یہ کہہ کر آپ نے تلوار نکال لی۔حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں الحمدللہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور یہ کہہ کر انہوں نے بھی تلوار نکال لی۔ اس سے پہلے کہ دونوں کی تلواریں چلتیں حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا، 'اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی حضرت سعید بن زید دونوں مسلمان ہوچکے ہیں"۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فورا غصے میں اپنی بہن کے گھر کی طرف چل دیے۔ وہاں حضرت خباب رضی اللہ عنہ دروازہ بند کر کے آپ کے بہن اور بہنوئی کو اللہ کا کلام قران کریم پڑھا رہے تھے۔ حضرت عمر فاروق نے بہن سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا اتنی دیر میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ گھر میں ہی چھپ گئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا، "میں نے باہر کسی اور کی آواز سنی ہے اور تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے- مجھ کو اطلاع ملی ہے کہ تم دونوں نے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ کر محمد ﷺ کا مذہب قبول کر لیا ہے'! جب سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ کو سخت غصے میں دیکھا تو پوری طاقت اور اعتماد کے ساتھ بولے ہاں میں اور میری بیوی دونوں مسلمان ہوگئے ہیں اور ہمارے باپ دادا کا دین باطل تھا اب ہم نے ایک سچے دین کو اختیا ر کر لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بہنوئی کو ان کی ڈاڑھی اور بال پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور مار مار کر لہو لہان کر دیا-بہن بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو ان کے منہ پر بھی زور سے ایک گھونسہ مارا جس سے آپ کے منہ سے خون بہ نکلا۔
حضرت فاطمہ بنت خطاب بھی آپ کی بہن تھیں بولیں کہ تم ہم کو مار مار کر خون کا ایک ایک قطرہ بھی نکال دو ،ہم جب بھی اس دین حق کو نہیں چھوڑیں گے- تم ہر گز ہمارے دل سے ایمان نہیں نکال سکتے ۔ بہن کی ایمانی قوت اور خون میں تر بتر دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ کہا تم کیا پڑھ رہے تھے مجھے بھی سنا ؤ۔ماحول تبدیل ہوتا دیکھ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ بھی سامنے آگئے۔ پھر سورہ طہ کی آیت پڑھتے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن سے کہا 'مجھے حضرت محمّد ﷺ کے پاس لے چلو"-
ان کی یہ گفتگو سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے خوشی سے بولے: 'اے عمر ! میں آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ کل ہی اللہ کے حبیب نے دعا کی تھی کہ یا اللہ !عمر اور ابو جہل میں جو تجھ کو محبوب اور پیارا ہو اس سے دین اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما۔ اے عمر نبی ﷺ کی دعا آپ کے لئے قبول ہوگئی"۔ وہ آپ کو ساتھ لے کر نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں گئے ۔اس وقت نبی ﷺ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں تھے۔ مکان کے باہر حضرت طلحہ، حضرت حمزہ اور دوسرے صحابہ کرام محمد ﷺ کی حفاظت اور نگرانی کے لیے موجود تھے۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دور سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر کہا کہ، "عمر آرہے ہیں اگر اللہ کو ان کی بھلائی منظور ہے تو یہ میرے ہاتھ سے بچ جائیں گے لیکن اگر یہ کسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو اس وقت ان کا کام تمام کرنا آسان ہے"۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ مکان سے باہر تشریف لائے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تلوار اور حضرت عمر فاروق کا دامن پکڑ لیا اور فرمایا "اے عمر! کیا تم زمین پر اس وقت تک فساد برپا کرتے رہو گے جب تک ذلیل وخوار نہ ہو جاؤ'۔
نبی ﷺ کی بات سنتے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا، 'اشھدان لا الہ الا اللہ وانک عبد اللہ و رسولہ
وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں جب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا تو اس وقت حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر موجود مسلمانوں نے بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی آواز مکہ کی وادی میں گونج اٹھی۔
اس موقعہ پر میں نے نبی ﷺ سے سوال کیا "ہم حق پر نہیں ہیں کیا"؟
نبی ﷺ نے فرمایا "بے شک ہم حق پر ہیں"۔
پھر عرض کیا "تو پھر یہ پردہ کیوں ہے"۔ "اس کے بعد ہم دو صفیں بنا کر کعبہ کی طرف چل پڑے۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں ،میں خود تھا'۔
قریش مکہ سے یہ منظر دیکھا نہ جارہا تھا وہ سخت رنج و ملال کی کیفیت میں تھے۔ اسی روز نبی ﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو "فاروق" کے لقب سے نوزا۔ اس لیے کہ اس روز اسلام ظاہر ہوگیا اور حق و باطل کے درمیان واضح فرق دنیا کے سامنے آگیا۔ خلافت کے لیے منتخب ہونا:
اسلام لانے کے بعد حضور ﷺ کی محبت اور صحبت میں پوری زندگی پیش رہے اور آپ ﷺ سے علمی فیض کا سلسلہ جاری رہا۔ نبی آخر الزمان بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مسرور اور راضی رہے ۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے بہت قریبی ساتھی اور انتہائی قابل اعتماد مشیر کی حیثیت رکھتے تھے۔
خلیفہ اول کو آپ کی فہم و فراست اور دور اندیشی پر مکمل بھروسا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی وفات سے پہلے صحابہ کرام سے مشورے اور غور وفکر کے بعد وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن خطاب مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کی حثیت سے خلافت کے امور انجام دیں گے۔ آپ کے مزاج میں سختی کا عنصر نمایاں نظر آتا تھا۔ بعض صحابہ کرام نے رائے کا اظہار کیا کہ ہمیں آپ کے مزاج کی سختی پر تردد ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "عمر کی سختی اس لیے ہے کہ میں نرم ہوں،جب ان پر خلافت کی ذمے داری ہوگی تو ان کے مزاج میں خود نرمی آجا ئے گی۔"
مزید فرمایا کہ
"اللہ کو بتادوں گا کہ میں ایسے شخص کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا کر آیا ہوں جو تیرے بندوں میں سب سے محترم ہے۔" آپ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی مسلمانوں سےخطاب کیا :
"اے لوگوں تمہارے سارے معاملات کی ذمہ داری میرے شانوں پر ہے۔اس لیے میری تمام سختی اب نرمی میں تبدیل ہو گئی ہے۔آپ میں سے جو امن وسلامتی کے ساتھ رہنا چاہے گا میں اس کے ساتھ نرم رویہ رکھوں گا۔لیکن جو دوسروں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا رویہ کریں گے میں ان کے ساتھ سختی کا رویہ رکھنے پر مجبور ہوں۔میں اس کے ساتھ سختی کا رویہ اس وقت تک رکھوں گا جب تک مظلوم کا حق ظالم سے وصول نہ کر لوں۔ اللہ کے بندوں !حق کا ساتھ دو اور صرف اللہ سے ڈرو برائی کا راستہ ختم کرنے میں میری مدد کرو نیکی کو پھیلانے میں میری مدد کرو"۔
سادہ زندگی:
سادگی اور تقوی کا یہ عالم تھا کہ زمین کے اوپر بغیر کسی بستر کے آرام کرنے اور سونے کے لیے لیٹ جاتے تھے سر کو اونچا کرنے کے لیے سر کے نیچے اینٹ یا پھتر رکھ لیتے تھے۔ لباس میں پیوند لگے ہوتے تھے ۔ کھانا روٹی اور زیتون کا تیل ہوتا۔
کوئی بھی بڑے سے بڑا حکمران آپ کے جلال کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ آپ پر خشیت الہی کی کیفیت ہر وقت طاری رہتی ہمیشہ حق ہی بولتے- ان کی زبان اور قلب پر باطل کبھی نہیں ہوتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : "میں بلا شبہ نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان بھی اور انسان کے شیطان بھی دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔"
رعایا کا خیال:
شان وشوکت کو کبھی پسند نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں خلیفہ ایک باپ کی طرح اپنی رعایا کا خیال رکھتا ہے۔ آپ کو ہر لمحہ رعایا کے بارے میں جواب دہی کا احساس رہتا اور اس رعایا پروری کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ محتاجوں ،غریبوں اور کمزوروں کی مشکلات اور پریشانیوں کے لیےاپنی زندگی کو ہمیشہ ان کی سطح کے برابر رکھا۔ راتوں کو خود گشت کرتے اور لوگوں کی مشکلات کا اندازہ لگاتے۔ رعایا کی تکالیف کو خود محسوس کرتے اور دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔
آپ دنیا کےواحد حکمران گزرے ہیں جو اکثر فرمایا کرتے تھے "میرے دور خلافت میں اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی باز پرس عمر سے ہوگی " شاندار فتوحات
آپ کا زمانہ اسلامی فتوحات کا دور شمار کیا جاتا ہے- اس دور میں اسلامی حکومت 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی ،دو طاقت ور حکومتوں ایران اور روم کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، یروشلم فتح ہوا اور عراق، لیبیا، شام، مصر، ایران، جنوبی آرمینیا، خراسان اسلامی حکومت میں شامل ہوئے۔ ساسانی حکومت کو دو سال سے بھی کم عرصے میں زیر کر لیا- اپنی سلطنت کے وسیع دائرے میں رعایا کی ضروریات اور دیگر امور سلطنت کو بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ شہادت :
آپ اللہ کے حضور دعا مانگا کرتے، "اے اللہ تیرے راستے میں مجھ کو موت نصیب ہو اور تیرے حبیب ﷺ کا شہر مجھ کو نصیب ہو"۔
اللہ تعالیٰ نے اپ کی دعا قبول فرمائی شہر مدینہ بھی نصیب ہوا اور اللہ کے راستے کی شہادت بھی۔ ٢27 ذی الحجہ کو مسجد نبوی میں نماز فجر کے وقت امامت کے دوران ابو لولو فیروز مجوسی نے آپ پر خنجر کے تین سے چار وار کیےاور آپ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرائی۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے دونوں پیارے رفیقوں کے پہلو میں جگہ ملے۔!حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ جگہ اپنے لیے رکھی تھی لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس خواہش کو پورا کرنے کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے اجازتِ دے دی۔ مستشرقین مانتے ہیں کہ اگر اسلام میں ایک اور عمر پیدا ہوجاتا تو اج دنیا میں صرف دین اسلام ہی واحد دین ہوتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا تھا "میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب ہوتے۔" الله اکبر