برہان کی شہادت پر کوئی ماتم نہیں کرے گا۔ اس نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ اس پر ثابت قدم رہا۔ انجانے میں اگر اس نے کسی کو کوئی گزند پہنچائی ہو تو اللہ کے واسطے اسے اس غلطی کے لیے بخش دینا
ام محمد عبداللہ
ظریفہ بھی ماں تھی۔ اس دنیا کی ہر ماں جیسی ماں۔ اسے جب ماں بننے کی خوشخبری ملی تو وہ بھی خوشی سے نہال تھی۔ بالکل جیسے دنیا کی ہر عورت ماں بننے کی خبر سن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔
جب ننھا منا پیارا سا بچہ اس نے پہلی بار گود میں اٹھایا تو اس کا رواں رواں مسکرا رہا تھا۔ گھر آنگن کے ساتھ ساتھ من آنگن بھی مہک اٹھا تھا۔
وہ چونکہ اس دنیا کی ایک عام سی روایتی سی ماں تھی اس لیے اس نے بھی اپنے بیٹے برہان کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
ننھے منے ہاتھوں میں پنسل سے لے کر جوان ہوتے مضبوط ہاتھوں میں میڈیکل کی ڈگری تک کا سفر لمحہ لمحہ کر کے کتنی امنگوں، دعاؤں اور کاوشوں میں گزرا تھا۔ مگر اس روز اس کا دل لرزا تھا اور پھر وہ سب دنیا کی ماؤں جیسی روایتی سی ماں نہ رہی تھی۔
اس کا بیٹا لاپتا ہو گیا تھا۔
گمشدگی کے 11 ماہ،، ہاں ماں نے گمشدہ بیٹے سے جدائی کے گیارہ ماہ گزارے۔ اور 11 ماہ بعد بیٹے کی میت کا سامنا کیا۔ سودا سلف کے لیے دکان پر بھیج کر سو مرتبہ دروازے کی جانب دیکھنے والی روایتی ماں، بچے کو کانٹا چبھ جانے پر گھنٹوں تڑپنے والی روایتی ماں تو روایتی ماں اس دن سے ہی نہیں رہی تھی جس دن کے بارے میں وہ کہتی ہے۔
”میں اس روز سے جانتی تھی کہ ہمارے محلے میں شاید ہی کوئی فرد ہوگا جو بندوق نہیں اٹھائے گا کیونکہ ہم سب نے 2010 کی شورش کے دوران اپنی آنکھوں کے سامنے چار معصوم بچوں کو بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا تھا۔ ان میں سب سے چھوٹا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جو روٹی لینے گیا تھا اور گھر کی دہلیز پر فوج کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ برہان بار بار اس واقعے کو دہراتا تھا۔ پھر جب ہر مرتبہ چھاپے، گرفتاریاں، مار دھاڑ اور عورتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات برہان دیکھتا تھا تو وہ کمرے میں جا کر نماز اور قرآن گھنٹوں پڑھا کرتا تھا۔ وہ پریشان رہتا اور اس کی آنکھوں سے بے بسی ٹپکنے لگتی۔ شاید اسی لیے اس نے عسکری راستہ اختیار کرکے اپنی موت کو ترجیح دی جو اب ہمارے اکثر بچے کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج کی بےانتہا زیادتیوں کی وجہ سے ہی ہمارے بچے بندوق اٹھا رہے ہیں۔“
شہید کی ماں روایتی ماں نہیں تھی۔ وہ تو بیٹے کی میت دیکھ کر سوگواروں سے کہہ رہی تھی: ”برہان کی شہادت پر کوئی ماتم نہیں کرے گا۔ اس نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ اس پر ثابت قدم رہا۔ انجانے میں اگر اس نے کسی کو کوئی گزند پہنچائی ہو تو اللہ کے واسطے اسے اس غلطی کے لیے بخش دینا۔“ اس کشمیری ماں کی بات سن کر وہاں شور شروع ہو گیا اور وہ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ نہ کوئی سینہ کوبی، نہ کوئی اُف اور نہ کوئی گلہ... بس پتھر کا دل رکھنے والی کشمیری ماں آخری رسم میں شامل ہو گئی۔ آج کشمیر کی ہر ماں پتھر کا دل لیے اپنے بیٹوں کو قربان ہوتے دیکھ رہی ہے؟ کیا ان مظلوم کشمیری ماؤں کے دل واقعی پتھر کے ہو گئے ہیں؟ نہیں!
ان ماؤں کے دل تو ہر لمحہ موم بن کر پگھل رہے ہیں۔ ہر لمحہ ان سے خون ٹپک رہا ہے۔
ہاں مگر اس بےحس دنیا کے نام نہاد منصف ضرور پتھر کا دل رکھتے ہیں، جو انصاف دلانا تو دور کی بات،
کسی کشمیری ماں کا درد سمجھتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔