مغلوں کے بعد کشمیر پر افغان حکومت قابض ہوئی لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی 1819 میں رنجیت سنگھ مہاراجہ پنجاب کے ایک لشکر نے مصرو دیوان چن کی قیادت میں راجوری کے راستے کشمیر پر حملہ کیا اور کشمیر کے حاکم جبار خان کو شکست دے کر وہاں سکھ اقتدار کو قائم کردیا بس یہیں سے کشمیری عوام کی بدنصیبی شروع ہوئی۔۔۔۔

عمارہ فہیم کراچی

"آپی ۔۔۔۔آپی ۔۔۔۔۔۔" ریان گھر میں تقریبا چیختے ہوئے داخل ہوا اور اسکول بیگ صوفے پر ایک طرف ڈال کر وہیں بیٹھ گیا۔ "کیا ہوگیا ہے؟ اس طرح کیوں آوازیں لگارہے ہو اور یہ کیا اسکول بیگ بھی یہاں رکھ دیا " سحرش نے نرمی سے پوچھا ۔

"وہ مجھے ایک بہت ضروری بات بتانی ۔۔۔ بلکہ چیز دکھانی ہے " ریان نے بولنے کے ساتھ بیگ سے ایک لفافہ نکالا ۔ "ریان یہ تو ۔۔۔۔۔۔"

لفافہ کھولتے ہی سحرش کی آواز خوشی سے حلق میں ہی رک گئی ۔ ٭٭٭٭

"ریان اٹھ جاؤ جلدی اسکول کے لیے دیر ہو جائے گی " سحرش نے ریان کو ہلاتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکلنے لگی کہ ریان کی آواز آئی ۔ "میں اٹھا ہوا ہوں اور آج ویسے بھی اسکول دیر سے لگے، پر آج میں نہیں جاؤں گا 5فروری ہے نا!! فضول میں بس بور ہوتے رہو نا کوئی پڑھائی ہوتی نا نا کوئی ایکٹیویٹی" ریان نے منہ بناکر کہا اور واپس لیٹ گیا ۔

"کیا مطلب ہے کہ 5 فروری ہے اسکول نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔؟؟" سحرش نے تعجب سے پوچھا ۔

"بھئی آپی فضول کے فنکشن لگا رکھے ہیں ،فلانا ڈے فلانا ڈے ،یہ کیا بات ہوئی کہ ایک دن مقرر کرکے سلیبریٹ کرلیا اور بس پورا سال بھول جاؤ مجھے عجیب لگتا ہے یہ سب " غصے میں اٹھ کر بس بولتا چلا گیا اور سحرش یک ٹک اسے دیکھتی رہی ۔

"تمھاری بات ٹھیک ہے کہ ہم کوئی تہوار یا کوئی موقع آئے تو ایک دن اپنا خوب جوش دکھا کر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کم از کم اس ایک دن کی وجہ سے کسی ایک کے دل تک تو بات پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔

خیر کیا تم جانتے ہو کہ 5فروری کو کیا ہوتا ہے یا کیوں ہوتا ہے ۔۔۔؟؟؟"
سحرش نے مختصر سے جملوں میں بات کرتے ہوئے اصل موقف کی طرف آنا ضروری سمجھا ۔
"اس دن کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی کی جاتی ہے "
"اچھا !یوم یکجہتی کیا مطلب ۔۔۔؟" سحرش نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ۔
"مطلب کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں "
ریان نے ذہن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا ۔
"ہممم ،ٹھیک کہا ۔۔۔

جانتے ہو کشمیر جس حال میں اب ہے، پہلے ایسا نہیں تھا کشمیر میں اسلام کی فضا اور صدائیں اس وقت پھیلیں جب وہاں کے ایک راجہ (رینچن،یا رام چندر )نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک عرب مسافر سید بلبل شاہ کی نماز و تبلیغ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام صدر الدین رکھا اور سری نگر میں مسجد تعمیر کی پندرہویں صدی عیسوی کے سلطان زین العابدین جسے اہل کشمیر بڈ شاہ یعنی بڑا بادشاہ کہا کرتے تھے ،اس کے عدل وانصاف،رحمدلی ،تدبر،مساوات ،رعایا پروری وغیرہ سے نا صرف دوست بلکہ دشمن بھی معترف تھے ۔

پھر 1885 میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے کشمیر پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا " ابھی سحرش رکی ہی تھی ریان ذہن میں کھلبلاتے سوال کو زبان پر لے آیا ۔

"آپی کیا جلال الدین اکبر مسلمان تھااگر وہ مسلمان تھا تو پھر اس نے ایسا کیوں کیا کتنی عجیب سی بات ہے نا ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر چڑھائی کرے "
ریان نے افسردہ لہجہ میں اپنے سوال کے ساتھ اپنی رائے بھی پیش کی ۔

"ہاں دونوں ریاستیں مسلمان تھیں دیکھو بعض اوقات حاسدین ایسا کرجاتے ہیں اس کے علاؤہ کبھی کبھی آپس کی رنجش بھی وجہ بن جاتی ہے اور کبھی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن کچھ غدار لوگوں کی باتوں میں آکر ہم سامنے والے فریق کو غلط سمجھ کر اس پر چڑھائی کردیتے ہیں اور کبھی عیش و عشرت اور اور سلطنت وحکمرانی کے نشے میں بھی غلط کرجاتے ہیں یہاں بھی اسی طرح کی صورتحال پیش آئی ۔

خیر جب مغلوں نے کشمیر فتح کرلیا تو اس طرح کشمیر شاہمیری خاندان کے ہاتھوں نکل کر مغل ہاتھوں میں آگیا ۔ مغل دور بھی بہت اچھا رہا لیکن سلطان محی الدین اور اورنگزیب عالمگیر کے وصال کے بعد سارا نقشہ بدل گیا مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور اس کی اصل وجہ وہی عیش پرستی اور آپس میں لڑائی جھگڑے رہی ۔

ایک بہت اہم بات بتاؤں خاندان ہوں یا ملک و قوم یہ جب تک متحد ہیں تو کوئی انھیں توڑ نہیں سکتا اور جہاں ہلکی سی دراڑ آئی، وہیں دشمن کو موقع مل جاتا ہے کیونکہ دشمن جانتا ہے جب تک دو چیزیں مسلمانوں میں ہوں کوئی انھیں مات نہیں دے سکتا ،ایک اسلام سے محبت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہونا وجذبہ جہاد اور دوسرا اتحاد ۔ اس لیے ہمیں یہ دو چیزیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، تبھی ہم فاتح ہوسکتے ہیں ۔

"بالکل ٹھیک کہا آپی ۔۔پھر پھر کیا ہوا ۔۔۔؟؟؟ریان نے سحرش کی باتوں میں کھوئے کھوئے جواب دیتے ہوئے آگے کی بات جاننے کے لیے بے تابی ظاہر کی ۔
"ہاہاہاہا ۔۔اچھا بابا !بتاتی ہوں ۔
تو میں کہاں تھی بھلا۔۔۔۔"
سحرش نے ریان کو جانچنے کے لیے پر سوچ لہجہ میں پوچھا ۔ "آپ بتارہی تھیں نا کہ مغلیہ سلطنت کیسے آئی اور پھر وہ کیسے زوال پذیر ہوئی آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ مغلوں کے بعد کشمیر پر کس نے حکمرانی کی؟؟؟؟" ریان نے جلدی جلدی جواب دیا ۔

"شاباش شہزادے!ہاں تو مغلوں کے بعد کشمیر پر افغان حکومت قابض ہوئی لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی 1819 میں رنجیت سنگھ مہاراجہ پنجاب کے ایک لشکر نے مصرو دیوان چن کی قیادت میں راجوری کے راستے کشمیر پر حملہ کیا اور کشمیر کے حاکم جبار خان کو شکست دے کر وہاں سکھ اقتدار کو قائم کردیا بس یہیں سے کشمیری عوام کی بدنصیبی شروع ہوئی رنجیت سنگھ کے ڈوگرہ خاندان کو اپنا آلہ کار بنایا گلاب سنگھ اور دھیان سنگھ یہ دونوں رنجیت سنگھ کے درباری ملازم تھے انھیں رنجیت سنگھ نے کشمیر پر مسلط کردیا ڈوگروں اور سکھوں نے مل کر کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑے،صنعت تباہ کردی،ٹیکس لگادیئے،سخت قحط پڑا، بالآخر مظالم و قحط سے بے حال ہوکر کشمیری ہجرت کرنے لگے ۔

1846میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا کشمیر کے معاملے پر گلاب سنگھ نے انگریزوں سے تعاون کرلیا اور سالانہ خراج کے بدلہ انگریزوں نے کشمیر گلاب سنگھ کو بیچ دیا اس طرح کشمیر پر ڈوگرہ ظالموں نے اپنے پنجے گاڑھ دیے۔ سحرش بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوئی تو ریان کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے ۔ "آپی یہاں تو کہیں یوم یکجہتی کا کوئی عکس نہیں نظر آیا۔۔۔۔" "ہاں !وہ بھی بتاتی ہوں کہ کیسے ہوا لیکن شہزادے اسے جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے نا کس کس نے کہاں کہاں اپنا بغض دکھایا"

"کیا ابھی اور بھی کوئی باقی ہے؟؟؟؟
ریان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔
"ہاں شہزادے ابھی تو آستین کے سانپ باقی ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ ملک و ملت کے دشمن ہونے ساتھ ساتھ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکا زنی کی کوشش کرنے والے بھی ہیں " سحرش کی آواز میں اب غصہ تھا جو ریان نے محسوس کرلیا تھا ۔

"آپی کیا کشمیر کے معاملے میں بھی یہ لوگ کود پڑے تھے " "ہاں !نا صرف کودے بلکہ سمجھو کشمیر کو تباہی کے دہانے پر پہنچا گئے ۔ ڈوگرہ ظلم وستم کے باعث جب شہادتیں ہوئیں تو احتجاج شروع ہوا اب یہاں انگریزوں کو ڈر ہوا کہ کشمیر کی سرحد روس سے ملتی ہے کہیں ایسا نہ ہو،روس کشمیر کے راستے انڈیا تک رسائی کرلے ،اس لیے انگریزوں نے سوچا کہ ایک ایسی جماعت کو یہاں تقویت دی جائے جو انھیں اندرونی و بیرونی سر گرمیوں سے انھیں باخبر رکھ سکے ۔ مرزا غلام قادیانی کا جانشین حکیم نور الدین پہلے بھی جموں وکشمیر کے درباروں میں طبیب کے طور پر انگریزوں کے لیے جاسوسی کر چکا تھا اس کے بعد اپنے کام کے لیے انگریزوں نے مرزا بشیر الدین کو مہرہ بنایا اس نے دھوکےسے پنجاب کے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد شملہ میں رکھ دی جس کا صدر خود مرزا بشیر بنا ،صدر دفتر قادیان میں رکھا اس کمیٹی میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ علامہ اقبال رح بھی شامل ہوئے لیکن انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ اور کئی علماء کرام کی محنت سے علامہ اقبال رح پر قادیانیوں کی سازش کا پردہ شاق ہوا اس طرح دوسرے مسلمان شرکاء پر بھی ان کی ناپاک سازش آشکار ہوئی اور انھوں نے مرزا بشیر کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کردیا ہار کر مرزا بشیر نے کمیٹی سے استعفی دے دیا کمیٹی نے علامہ اقبال کو سربراہ بنایا لیکن انھوں نے کچھ وقت بعد کمیٹی توڑ کر کشمیر کو قادیانی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی سازش ناکام بنادی ۔

"ارے واہ آپی !مطلب علامہ اقبال صرف سوچتے اور شاعری ہی نہیں بلکہ گہرے کام بھی کرجاتے تھے" ریان نے اقبال سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے انداز میں تعریف کرنا چاہی لیکن اس کے انداز بیان پر سحرش کو ہنسی آگئی تو ریان نے ناک پھلا کر سحرش کی طرف دیکھا کہ شاید اس کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔

"ارے بابا !غصہ کیوں ہورہے ہو وہ تو بس آپ کے انداز پر ہنسی آئی نا ۔۔۔۔ خیر حقیقیت جاننی ہے یا نہیں اور پھر اسکول بھی تو جانا ہے نا کہیں باتوں میں دیر نہ ہوجائے " "نہیں ہوگی دیر۔۔ ابھی تو 8بجے ہیں اور مجھے 10 تک پہنچنا ہے پڑھائی تو ہوگی نہیں بس مختلف پروگرام ہوں گے۔ اس لیے آپ اسے کشمیر کہانی مکمل بتائیں تاکہ میں اپنے دوستوں کو بھی بتاسکوں " "ہمممم !تو سنو ؛!اس کے بعد کشمیریوں نے مجلس احرار اسلام کے ساتھ مل کر کشمیر کو مضبوط کرنا چاہا لیکن یہ بات انگریزوں اور سکھوں کو ہضم نہ ہوئی، اس سب میں تیس ہزار مسلمانوں نے گرفتاری دے کر ڈوگروں اور انگریزوں کو ناک و چنے چبوائے اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو آزادی و مزاحمت کی راہ دکھائی اب انگریزوں اور ڈوگروں نے تھک کر مصالحت کی استدعا کی مفتی کفایت اللہ صاحب اور احمد سعید دہلوی رح نے اپنی مساعی کا آغاز کیا لیکن ۔۔۔" لیکن پر سحرش نے سرد آہ بھری اور خاموشی سے ایک ٹک دیکھنے لگی ۔

"کیا ہوا آپی ۔۔۔۔؟؟؟آپ ایکدم سے خاموش کیوں ہوگئیں؟؟ "
"کچھ نہیں شہزادے !بس یہاں ایک بار پھر کمزوری اور مفاد پرستی اور شیطانی چالیں کام کرگئیں اور کچھ سرکار کے چیلوں کو اپنا مستقبل خطرے میں لگا تو انھوں نے اس سعی کو ناکام بنانے کی ٹھان لی اور انگریزوں نے اپنے وفاداروں کی لاج رکھتے ہوئے اس کا کوئی مثبت نتیجہ نا نکلنے دیا لیکن اس تحریک سے کشمیریوں کو جراءت اور آزادی کی راہ ملی اور 1931 سے آج تک یہ تحریک چل رہی ہے ۔"

"اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ پاکستان کی آزادی سے بھی پہلے سے ہی ہمارے کشمیری بھائی بہنوں پر ظلم ہورہے ہیں " ریان کو اپنی ہی آواز گہرے کوئیں سے آتی محسوس ہوئی ۔

"ہاں میرے بھائی !یہ ظلم کے پہاڑ تب سے توڑے جارہے ہیں لیکن 1947میں پاکستان و ہندوستان کی علیحدگی کے وقت ریاستوں کو یہ آزادی تھی کہ دونوں میں جس سے بھی ملحق ہونا چاہیں ہوسکتی ہیں اب کشمیر مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے پاکستان سے مل جاتا پر یہاں بھی قادیانی نوازوں نے سازش رچائی اور سرحدات کے تعین کے لئے ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے مسلم لیگ کے قادیانی نمائندے ظفر اللہ خان نے ضلع گوادر اسپور کے بارے مسلمانوں کے مقدس کو نقصان پہنچا کر خود کو الگ ظاہر کیا اور قادیان کو کھلا شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا اب قادیان تو کھلا شہر نہ بن سکا لیکن ضلع گوادراسپور کو غیر مسلم اکثریت کا علاؤہ قرار دے کر انڈیا کو یہاں سے کشمیر تک جانے کا راستہ مل گیا جب سے ہی کشمیر پر بھارت کا تسلط ہوگیا ۔

یہ تھی کشمیر پر ظلم و جبر کی اب تک کی داستان اور رہی بات یوم یکجہتی کی تو وہ 1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین کی کوششوں کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے چھٹی کا اعلان کردیا تھا تو 5فروری کو پہلی بار کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن شروع ہوا اور تب سے اب تک بس یہ ایک دن بن کر رہ گیا " سحرش نے آنسو صاف کرتے ہوئے گلو گیر لہجہ میں کہا ۔

"آپی مجھے سب سے زیادہ اس بات کا دکھ ہے کہ اندر کے غداروں کی وجہ سے آج تک ہمارے مسلمان بھائی بہن ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں میں اللہ سے دعا کرنے کے ساتھ یہ عزم کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔"

"آپی اسکول میں آج ایک سرپرائز تقریری مقابلہ تھا جس میں کشمیر پر ہونے والے مظالم کو بیان کرنا تھا اور جیتنے والے کو ایسی سند ملنے جارہی تھی جس میں لکھا تھا "مظلوموں کی آواز،خوددار،مضبوط مسلمان نوجوان"بس میں نے حصہ لیا اور جیت گیا اور تقریر کے آخر میں جو نے آپ سے کہا تھا نا وہی کہا جس پر تمام ٹیچرز نے بھی میرے ساتھ عزم کیا " ریان نے جوش و خروش میں اسکول میں ہونے والی روداد جلدی جلدی سنائی ۔

"اچھا کیا کہا تھا تم نے میں بھول گئی "
سحرش نے دماغ پر زور دیتے ہوئے ریان سے اس کی تقریر کے آخری الفاظ اور اس کا عزم پوچھا ۔ "اوہو آپی ایک تو بہت بھلکڑ ہوگئی ہیں بھئی میں نے یہ کہا اور یہ عزم کیا تھا کہ میں مظلوموں کی آواز بنوں گا اور اس کے سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو آپس میں اپنا اتحاد مظبوط کرنے کی ضرورت ہے اس لیے میری اب سے اولین کوشش ملنے والوں کو آپس میں اتحاد کی برکت سے متعارف کرواتے ہوئے متحد رہنے کی دعوت دینا ہے کیونکہ ہم متحد ہوں گے تو ہی بڑے سے بڑے طوفان کو مات دے سکیں گے "

ریان نے کھڑے ہوکر ایک لیڈر ایک نڈر مجاہد کے انداز سے اپنا موقف بیان کیا تو سحرش نے فورا سے اپنے بارہ سالہ ننھے مجاہد کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور دل سے اس کی استقامت کی دعا کی ۔