لمبا قد ،کشادہ سینہ ،بڑی بڑی آنکھیں ،گھنی ڈاڑھی ،بارعب چہرہ ،گرج دار لہجہ مگر خدا خوفی رکھنے والا نرم دل ،بحیثیت خلیفہء وقت کسی نے ان کے بارے میں کہا کہ خلیفہ کا رعب اس قدر زیادہ ہے کہ نظر ملاتے ہوئے دل لرز جاتا ہے ۔جب انھوں نے اپنے بارے میں یہ سنا تو فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصمت اسامہ
تاریخ کے دھندلکوں سے گذرتے ہوئے ایک کردار بہت متاثر کرتا ہے ،وہ کردار بہت مضبوط بھی ہے ،عدل کے میزان کو تھامے ہوئے ،کلمہء حق کا ببانگ دہل اظہار کرنے والا ،جری و بہادر کردار ،وہ جس کے اندازحکمرانی نے مغرب کو بھی متاثر کیا اور اس کے بنائے ہوئے قوانین(عمر لاز) کو اپنے معاشرے میں نافذ کرنا اعزاز سمجھا ۔موجودہ دور میں ان کی ویڈیو یا عکس بندی موجود نہیں لیکن ہم اس زبردست کردار کو چلتے پھرتے دیکھ سکتے ہیں ،تصور کی آنکھ سے زوم کرکے !
لمبا قد ،کشادہ سینہ ،بڑی بڑی آنکھیں ،گھنی ڈاڑھی ،بارعب چہرہ ،گرج دار لہجہ مگر خدا خوفی رکھنے والا نرم دل ،بحیثیت خلیفہء وقت کسی نے ان کے بارے میں کہا کہ خلیفہ کا رعب اس قدر زیادہ ہے کہ نظر ملاتے ہوئے دل لرز جاتا ہے ۔جب انھوں نے اپنے بارے میں یہ سنا تو فرمایا :
"اللہ جانتا ہے کہ جس قدر لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں ،ان سے زیادہ میں خود ان(کے بارے میں اللہ) سے ڈرتا ہوں !". یہ ہیں خلیفہء ثانی حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ! ان کی طاقت کا راز ،دراصل "خوف _خدا " تھا ! ایک دفعہ آپ کے حکم پر غریبوں کو کھانا کھلایا جارہا تھا ،آپ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے ۔آپ نے اس سے کہا "دائیں ہاتھ سے کھاؤ"،اس نے بتایا کہ " جنگ_مؤتہ میں میرا دایاں بازو کٹ گیا تھا !" اس کی یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رقت طاری ہو گئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے لگے ،پھر اس مجاہد کی خدمت کے لئے ایک نوکر مقرر کردیا۔
بحیثیت حکمران ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،کمال کے عادل تھے۔ایک بار آپ کی اہلیہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ نے قیصرروم کی ملکہ کو عطر کی چند شیشیاں بطور تحفہ بھیجیں ۔ قیصر کی ملکہ نے ان شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس کیا ۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے وہ تحائف ،سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا اور فرمایا : "قاصد ،مسلمانوں کا تھا اور اس کے اخراجات ،بیت المال سے دیے گئے تھے"-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورحکومت میں بہت سے ممالک کے ساتھ جنگیں لڑی گئیں ۔ ایران کے ساتھ تاریخی معرکے لڑے گئے ۔محرم 14 ہجری کو عربی اور ایرانی فوجوں کی مڈبھیڑ ہوئی ۔ایرانی فوج کے پاس بکثرت ہاتھی تھے جنھیں دیکھ کر عربی گھوڑے بدک کر بھاگ جاتے تھے ۔گھمسان کی جنگ میں مسلمانوں کی فوج نے پیدل ہی ہاتھیوں والی فوج سے مقابلہ کیا۔ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تازہ دم فوج بھیجی ،اس دن عربوں نے عجیب حکمت عملی اپنائی ،انھوں نے اونٹوں پر جھول اور سیاہ کپڑے ڈال کے انھیں خوف ناک بنادیا ۔ یہ ڈراؤنے اونٹ جس طرف جاتے ،ایرانیوں کے ہاتھی بدک جاتے ۔مسلمان فوج نے کافروں کی چال ان پر ہی الٹادی۔ایک وقت آیا، ایرانی سالار ہرمز ،مسلمان فوج سے بچنے کے لئے قلعہ بند ہوگیا،مسلمان فوج نے اس کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا ،یہ محاصرہ کئ مہینے جاری رہا ،آخر مسلم سپاہی ایک نہر کے راستے شہر میں داخل ہوگئے اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا ۔ ہرمز نے دور سے آواز لگائی کہ اگر تم مجھے اپنے خلیفہ کے پاس لے جاؤ تو میں اپنے آپ کو مسلمان فوج کے حوالے کردوں گا "-جب ایرانی سالار کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ،مدینہ منورہ بھیجا گیا تو وہ آپ کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ خلیفہء وقت کے پاس نہ کوئی دربان ہے ،نہ ہٹو بچو کی صدائیں بلکہ وہ اکیلے مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے سیدھا سوال کیا :"تم معاہدے کر کے توڑ کیوں دیا کرتے تھے ؟"۔ہرمز نے پانی کا پیالہ طلب کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رعب سے کانپنے لگ گیا اور کہا " مجھے ڈر ہے کہ پانی پیتے ہوئے میں قتل نہ کردیا جاؤں ".حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "جب تک اس پانی کو پی نہ لوگے تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا " یہ سنتے ہی ہرمز نے پینترا بدلا اور سارا پانی زمین پر گرا دیا اور کہا کہ " میں تو امان لینا چاہتا تھا" (پانی گر چکا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پانی کو پینے کے بعد قتل کرنا تھا). صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ اب تو آپ اسے امان دے چکے ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جان کی امان دے دی۔ وہ اتنا متاثر ہوا کہ مسلمان ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو ہزار دینار سالانہ اس کا وظیفہ بھی مقرر کردیا، سبحان اللہ!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مسلم سلطنت کو استحکام بھی حاصل ہوا اور وہ وسیع بھی ہوئی۔ شام ،فلسطین ،مصر،خوزستان ،عراق، عجم ،آذر بائی جان ،کرمان ،سیستان ،مکران ،خراسان اور کئ ممالک زیرنگیں ہوگئے۔ آپ کے انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عیسائی بادشاہ جبلہ بن ابہم ،مسلمان ہوکر ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ مکہ داخل ہوا۔ طوافِ کعبہ کے دوران اس کے دھکے سے ایک غریب مسلمان کا گھٹنا متاثر ہوگیا۔ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے عیسائی بادشاہ سے فرمایا :"یا تو معافی مانگو یا اپنا گھٹنا تڑواؤ !" یہ سزا سن کر وہ بادشاہ بہت حیران ہوا کہ یہاں انصاف شاہ و گدا کے لئے یکساں ہے اور راتوں رات ،اپنی فوج کے ساتھ فرار ہوگیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے متعدد کارناموں میں محکمہء عدالت ،پولیس ، انٹیلیجنس ،مردم شماری کا محکمہ ،جیل خانے،محکمہ تعمیرات ،مسافر خانے ،بزرگ افراد ، شیر خوار بچوں اور بیواؤں کے وظائف مقرر کرنا ہیں۔سن ِہجری کی ابتدا بھی آپ کی رائے سے ہوئی اور اسلامی سکہ بھی آپ نے ایجاد کیا۔ سرکاری طور پر حفاظ کرام اور قراء حضرات کا تقرر کر کے دینی علوم کی حفاظت اور ابلاغ کا انتظام کیا گیا۔
آپ اپنی رعایا کا حال معلوم کرنے اور ان کی مدد کے لئے راتوں کو گشت کیا کرتے اور فرماتے کہ "اگر فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو عمر اس کا جواب دہ ہوگا "
اسلام کے اس بطل ِجلیل کو ایک ایرانی غلام ابو لؤلؤفیروز نے ،نماز باجماعت کے دوران خنجر کے وار کر کے شدید زخمی کردیا ،یکم محرم کے دن آپ رضی اللہ عنہ کی انہی زخموں سے شہادت ہوئی ! محمد ﷺ کے صحابی کا وہ شانہ یاد آتا ہے
بدل کے بھیس، گلیوں میں وہ جانا یاد آتا ہے
اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہیں
عمرؓ تیری خلافت کا زمانہ یاد آتا ہے