انیسہ عائش
وہ لوگ گھر لوٹے تو چہاراطرف اندھیرا پھیل گیا تھا۔اس نے شاپنگ بیگ صوفے پر پٹخے اور خود بھی وہیں ڈھے گئی۔ امی جان انھیں دیکھتے ہوئے کولڈ ڈرنک گلاسوں میں ڈال کر لے آئیں۔اس نے گلاس اٹھایا اور منہ سے لگا لیا۔
سیاہ مشروب کا ایک گھونٹ ہی بھرا تھاکہ کانوں سے اِک بازگشت ٹکرائی ۔اگلے ہی لمحے اس نے بے اختیار گلاس واپس رکھ دیا۔ ’’ ارے بھابھی! مجھے تو سادہ پانی ہی دے دیں،یہ بچی ہی سدا کی شوقین ہے کوک کی،میں بوتل نہیں پیوں گی۔‘‘چچی نےامی کو مخاطب کیا۔اسوہ مشروب پہ نظریں جمائےسوچوں کا سفر طے کرتے ہوئے بہت پیچھے چلی آئی تھی، جب وہ سات سال کی بچی تھی اور اس کی پھوپھو فخریہ انداز میں کہہ رہی تھیں، یہ اسوہ تو بالکل میری طرح کوک کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کی پھوپھوایک شوخ و شنگ لڑکی تھیں۔اسوہ ان کی پہلی بھتیجی اور اوپرسے گلابی گلابی نرم و نازک اتنی پیاری بچی،وہ ہر وقت اسے ساتھ ساتھ لیے پھرتیں۔ اس سنگت نے اسوہ میں ان کی تمام عادات سمودی تھیں۔اسوہ کی زندگی کا محور و مرکز برانڈڈ کپڑے جوتے ،جیولری بن گئے تھے۔اس کے علاوہ نت نئے فاسٹ فوڈز کھانا اور ہوٹلنگ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔کوک کی وہ اس حد تک رسیا تھی کہ اسے پانی کی طرح پیتی۔رات کو امی دودھ دیتیں تو اس میں بھی کوک ڈالے بنا نہیں پیتی تھی ۔
پھوپھو تو شادی کے بعدپیادیس سدھار گئیں، مگر اپنے پیچھے اسوہ کی صورت میں جانشین چھوڑ گئیں۔اسوہ گھر کی پہلی بچی ہونے کی وجہ سے نہ صرف اپنے امی بابا بلکہ چچا چچی کی بھی لاڈلی تھی۔سب اس پر جان چھڑکتے تھے۔ اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی تھی۔اس کے بعد نٹ کھٹ شریر احمد سُدیس کی پیدائش اور اس کے یکے بعد دیگرے چچا زاد بہن بھائیوں کی آمد بھی اس کی اہمیت کو کم نہ کر سکی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی، جب سے اسے علم ہوا تھا کہ بابا کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، اس نے پڑھائی کو اپنا جنون بنا لیا تھا۔اس نے میٹرک میں ٹاپ کیا تھا۔ پچھلے سال اس کی پوزیشن کچھ ڈاؤن گئی تھی، سو اس نے اس بار سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ابھی کل ہی وہ سیکنڈ ایئر کے امتحانات سےفارغ ہوئی تھی۔
’’ارے! کن سوچوں میں گم ہو؟بوتل کیوں نہیں پی رہی ہو؟گرم ہو جائے گی۔‘‘ چچی نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاتی اُٹھ کر کمرے کی طرف چل دی۔چچی کی انتہائی حیرت بھری نظروں نے اس کا دور تک پیچھا کیا۔اس کے کانوں میں ایک ہی بازگشت سنائی دے رہی تھی اور وہ چہرہ نہیں بھلا پارہی تھی۔’’آخر ایسا کیا ہورہا ہے وہاں؟وہ ایسا کیوں کہہ رہی کہہ تھی؟ اتنا شدیدردِّعمل آخر کیوں؟‘‘اس نے کچھ دیر سوچا۔اگلے لمحے وہ سُدیس کے کمرے سے لیپ ٹاپ اور ہیڈ فون اٹھارہی تھی۔ ساتھ ہی بلند آواز میں’’امی میں سونے جارہی ہوں‘‘ کی صدا لگاتے ہوئے امی کو مطلع کیا اور دروازےکو لاک کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔اب وہ گوگل کی سرچ بار میں Israeli bombarment in guza لکھ رہی تھی،جیسے جیسے وہ سرچ کرتی جارہی تھی، اس کی آنکھیں کھلتی جارہی تھیں۔اسکرین پر اسرائیل کی بمباری،فلسطینی مسلمانوں کی شہادت کے دل خراش مناظر صورت بدل بدل کر سامنے چل رہے تھے۔
’’اوہ میرے خدایا! یہ سب پچھلے 6ماہ سے جاری ہےاور میں کتنی بے خبرکیسے!‘‘اسے یاد آیا کہ نومبر سے کالج میں ٹیسٹ سیشن اسٹارٹ ہو گیا تھااور اگلے ماہ ہی اکیڈمی میں بھی اور ان دنوں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبرپڑھائی میں جت گئی تھی اور تو اور اس نے سوشل میڈیا سے بھی بائیکاٹ کیےرکھا تھا۔خدا خدا کرکے اس نے فائنل امتحان دیے تھےاوروہ ابھی کل ہی تو فارغ ہوئی تھی۔آج شاپنگ کے لیے گئی تو یہ سب کچھ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں آج کا واقعہ لہرا گیا، جب وہ اور ماہا(چچا زاد) فوڈ کارنر میں بیٹھی پیپسی سے لطف اندوز ہور ہیں تھیں، جب اسکارف میں ملبوس گول مٹول سی بچی ان کے پاس آکر رُکی۔’’ اسرائیل غزہ میں فلسطینی بہن بھائیوں کو قتل کر رہا ہےاورہم یہاں بیٹھے ان کی مدد کررہے ہیں۔آپ کیوں ان کی چیزیں نہیں چھوڑرہیں؟ کیاآپ کودُکھ نہیں ہوتا ۔۔۔‘‘ وہ دُکھ و غصے میں لال بھبھوکا چہرا لیے پُرجوش انداز میں بولتی جا رہی تھی،اسوہ دم بخود رہ گئی۔وہ ساکت بیٹھی یک ٹک اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ماہا اسوہ کا ہاتھ کھینچتی اسے اٹھاکر لے گئی۔’’ لوگ ایسے ہی ایموشنل ہو جاتے ہیں۔اب ہم کیا کریں کس کس چیز کو چھوڑیں ہم!ہر چیز تو ان کی ہے۔‘‘ماہا بے زاری سے گویا ہوئی،مگر اس کے بعد اسوہ کا دل کسی بھی چیز میں نہ لگا۔ماہا نے اس کی بددلی دیکھ کرگھر کی راہ لی۔ اس نے واپس توجہ لیپ ٹاپ کی جانب کی جہاں شہ سرخی جگمگا رہی تھی۔’’ اسماعیل ہنیہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد تازہ کردی۔‘‘وہ چونک گئی اورتفصیلات پڑھنے لگی، جہاں بتایا گیا تھا کہ عید الفطر کے روز اسرائیلی بمباری سے اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اور چار پوتےپوتی شہید۔۔۔!! باہر رات بھیگتی جارہی تھی اور اندر اس کا من بھیگتا جارہا تھا۔اس نے ہیڈفون اتار پھینکے، آنکھوں سےاُبلتے آنسو گالوں پہ پھسلتے جارہے تھے۔کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔دفعتًا اللہ اکبر،اللہ اکبر کی صدا سنائی دیں۔’’ کیا صبح ہو گئی؟؟‘‘وہ خود کو گھسیٹتے وضو کرنے چل دی۔ نماز ِفجر ادا کرتے ہی وہ بستر پر گرگئی۔ نیند میں بھی وہی مناظر وہی دل سوز آواز یں، اسے بے چین کرتی رہیں۔ناشتے کے دوران اس کی سرخ متورم آنکھیں اورتکان زدہ وجود کو دیکھ کر سب کو تشویش ہوئی۔دوپہر تک اسوہ کو بخار نے آگھیرا۔وہ بیمار کیا ہوئی ہر کوئی اس کی خبر گیری میں لگ گیا ،امی اور چچی جان بار باراس کے لیے کچھ نہ کچھ بنا کر لا رہی تھیں تو بابا اور چچا الگ متفکّر!سدیس اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اسے لطیفے سناتا۔اپنوں کی اس محبت پر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں ،ساتھ ہی دل سے اک ہوک سی اٹھی، آہ ! اسماعیل ہنیہ استقامت کا پہاڑ! جن کے خاندان کے 60 افراد شہید ہو چکے۔اگلی صبح تک اس کا بخار اتر چکا تو اس نےاپنے ضمیر کی آواز کی طرف توجہ کی۔بس اسوہ بہت ہوچکا اپنی بے خبری پہ ماتم !اب عمل کا وقت آپہنچا۔
اسرائیلی مصنوعات سے بائیکاٹ کے لیےاٹھائی گئی اسوہ کی آواز پر کسی نے کان نہ دھرے، مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی جو کرنے کا ٹھان لیتی پورا کرکےہی دم لیتی۔اس نے سب سے پہلے خود سے آغاز کیا۔اس کے کپڑے جوتوں اور زیرِ استعمال اکثر چیزوں کے برینڈ اسرائیل کے تھے اور کھانے پینے کی تمام کی تمام اشیا بھی،اسے ڈھیروں شرمندگی نے آگھیرا۔ اس نے تمام چیزوں کا ڈھیر لگا کر آگ لگادی اور کوک کے رکھے کارٹن چھری سے کاٹ کر بہادیے۔ اس کا شدید ردِّعمل دیکھ کر سب دم بخود رہ گئے۔احمد سدیس اس کا سب سے پہلے ہم نوا بنا،پھر اس کی آل کزن پارٹی نے اس کا ساتھ دیا۔ رحم دل اور شفیق سی امی اور چچی جان کا دل فلسطینیوں کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کرہی پگھل گیا۔اس ماہ گروسری کی لسٹ اسوہ نے خود سر پہ کھڑے ہو کر بنوائی،یہاں تک کہ جو بھی کوئی باہر سے چیزلاتایالےجاتا اسے اسوہ کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ اسماعیل ہنیہ سے بے حد متاثر تھی۔احمدسُدیس نے اس کا نام ہی ’’اسماعیل ہنیہ کی جانشین‘‘ رکھ دیا۔ عیدِ قرباں کی آمد میں دو ہفتے باقی رہ گئے تھے۔اسوہ اور آل پارٹی نے نئی تجویز پیش کر دی کہ اس عید پر نئے جوتے اور کپڑے نہیں بنوائے جائیں گےاور یوں اس بار ایک خطیررقم غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے بھیج دی گئی۔ سب سے چھوٹے چچا گاؤں میں رہتے تھے کہ دادی اماں بارہا کوششوں کے باوجود اپنی زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھیں۔ یوں ہر بارعیدِقرباں پر قربانی گاؤں میں ہی کی جاتی اور ان تک گوشت پہنچ جاتا، مگر اس باراحمد سُدیس کے ساتھ ساتھ اس کے چچا زادوں نے باقاعدہ احتجاج شروع کر رکھا تھا کہ وہ بھی اپنے دوستوں کی طرح بکروں کی خاطر مدارت کریں اور گلی محلے میں گھما ئیں، پھرائیں ،سجا ئیں گے۔آخرکار ان کی مان لی گئی اور عید سے ایک ہفتہ قبل اباجان گاؤں روانہ ہوئے تو امی نے اسوہ کو بھی ساتھ بھیج دیا کہ دادی جان بہت دنوں سے اسے یاد کررہی تھیں۔ گاؤں پہنچ کر ان کا استقبال بہت اچھے طریقے سے کیا گیا۔اسوہ کو کھیتوں اور باغات کی سیر کروائی گئی۔وہاں کے تازہ پھل کھلائے،پھر اس کے ننّھے منّے چچازادوں نے اپنے بکروں سے ملوایا اور ساتھ ساتھ ان کی شان میں قصیدہ گوئی بھی جاری تھی۔ اسوہ کو ہنسی آگئی۔ننّھی سی اریبہ نے اسے توتلی آواز میں پوچھا کہ ’’آپی! کیا آپ کو قربانی والا قصہ پتا ہے؟‘‘ پھر اسے خاموش پاکر خود ہی بتانے لگی کہ اسے پتاہے دادی نے ان کو سنایا تھا۔شام میں اسوہ نے دادی کی گود میں سر رکھ کر لاڈ سے فرمائش کی کہ وہ اسے بھی قربانی والا قصہ سنائیں۔دادی جان کے دل نشین انداز میں کھوئی ہوئی اسوہ تصوّر کی آنکھ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے عزیز از جان بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرتا دیکھ رہی تھی۔’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ آسمان سے دنبہ نازل کردیا، مگر اللہ تعالیٰ کو یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اسے سنتِ ابراہیمی قرار دے دیا۔اس لیے مسلمان ہر سال اللہ تعالیٰ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں۔‘‘دادی جان کی آواز اسے تصور سے باہر لے آئی اور اسماعیل ہنیہ نے اس سال عید پر اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور واقعی اسماعیل ہنیہ آپ عظیم ہیں۔اس کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوگئیں۔ ا ن کی دو دن بعدبکروں سمیت واپسی ہوئی۔ گھر پہنچتے ہی بچہ پارٹی نے بکروں کو گھیرے میں لے لیا اور وہ احمد سُدیس کو چھیڑنے لگی۔’’اور سناؤ بھئ! میرے پیچھے تم نے تو اسرائیلی مصنوعات کے خوب مزے اڑئے ہوں گے۔‘‘
’’توبہ استغفرُاللہ!ہم ایسا کیسے کرسکتے تھے۔مجھے تو ہر دم یوں لگتاہے کہ ابھی اسماعیل ہنیہ کی جانشین آکر میری گردن پکڑ لے گی،نہ بھئ نہ میری توبہ!‘‘وہ مصنوعی خوف طاری کرکےجھرجھری لیتا بولا تو اس کے جواب پر سب مسکرا دیے۔ وہ سبھی تصوّر میں اپنے بکروں کو قربان ہوتا دیکھ رہے تھے، جن سے سب کو عجیب سی مانوسیت سی ہوگئی تھی۔ اسوہ نے نظریں اٹھاکر آسمان کی جانب دیکھا اور کہا:’’ ان شاءاللہ !تمام قربانیاں رنگ لائیں گی۔‘‘ کیوں کہ زندگی میں پہلی بار وہ سب عیدِ قربان کو قربانی کے حقیقی مفہوم کے ساتھ گزارنے چلے تھے۔