انسان کا اختیار اس کو ان مشینوں اور اشیاء سے مختلف اور منفرد کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا انجام بھی ان اشیاء سے مختلف ہے یہ مادی اشیاء یا مشینیں تو شاید گلنے سڑنے اور بیکار ہونے کے بعد بھی ری سائیکل ہو کر کوئی نیا روپ دھار لیں مگر انسان کا اختیار اسکو موت کے بعد صرف دو آپشن ہی دیتا ہے۔۔۔ کامیابی یا ناکامی

ام عبد الرحمن جدہ سعودی عرب

آج کل سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنے والی نئی مشینری، جیسے روٹی میکر، بریڈمیکر، آٹا گوندھنے والی مشین، ڈش واشر، کافی روسٹر، کافی مشین وغیرہ، متوسط اور امیر طبقے کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہر کوئی مشورہ کرتا یا مشورہ دیتا نظر اتا ہے، ان میں سے کسی نہ کسی کو یا سب کو گھر کی زینت بنانے کا ۔۔۔ یقینا ہر چیز کے کچھ فائدے اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ آپ اس کے نقصانات بتائیں گے تو سامنے والا اس کے فائدے بتانا شروع کر دے گا یا اگر آپ اس کے فائدے بتائیں گے تو سامنے والا اس کے نقصانات بتانا شروع کر دے گا۔۔۔۔۔ یہ مشینیں اچھا یا برا جیسا بھی کام کرتی ہیں مگر ان میں سے اکثر کی صفائی کرنا جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔ اکثر مشینوں کی صفائی کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مشین کی صفائی نہیں سرجری کی جارہی ہو۔ کہیں کاٹن بڈ، تو کہیں ٹوتھ پک، اور تو اور کبھی چھوٹے موٹے موچنے یعنی tweezer پکڑ کے ان کے دانت منہ اور کان صاف کرنے پڑتے ہیں۔۔۔۔ اور اگر اس باریک بینی سے ان کی صفائی نہ کریں تو پھر چیونٹیوں کی جو بارات قطار در قطار آتی ہے، بس اللہ کی پناہ۔ ایسے لگتا ہے، جیسے دس بارہ شادیاں ایک ہی جگہ ہو رہی ہیں جو اتنی خلقت اکٹھی ہو گئی ہے اور اگر چیونٹیوں کی بارات نہ آئے تو پھپھوندی اور زنگ کا حملہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس باریک بینی کے ساتھ اپنی صفائی کی ہے، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے : ’’یقیناًفلاح پا گیا وہ، جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔(الشمس)

وہ کہتے ہیں نا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے، انسان ان مشینوں کے ساتھ رہ کر ایک مشین ہی بن گیا ہے۔ اخلاص، احساسات، اخلاقیات اور ایک دوسرے سے میل جول تو انسان کے اندر ہی کہیں دم توڑ گئے ہیں۔ ۔۔۔۔ یہ احساس کافی روسٹر کی حرکات و سکنات( فکشن اور ورکنگ) دیکھ کر ہوا۔ اس کافی روسٹر کو دیکھ کر بھٹی پر بیٹھی اماں بھٹیارن یاد آگئی۔۔۔۔۔

اماں بھٹیارن چولہے پر بڑا سا کڑاہی نما برتن چڑھا کر اور اُس میں موٹی دریائی ریت ڈال کر گندم ،مکئی، چاول اور چنوں کو بھونا کرتی تھی۔ لوگ اکثر گھر سے گڑ کوٹ کر لاتے گرم گرم بھنے ہوئے دانے بھٹیارن گڑ میں ڈال کر جب مروڑتی تو گڑ اور دانے مکس ہوجاتے اور مرنڈا بن جاتا تھا۔ اس کے اس کام کے دوران اس کے اردگرد بیٹھے لوگوں کی اس کے ساتھ یا آپس میں جو بات چیت ہوتی، اس میں لوگ اپنے دکھ سکھ پھولتے، خوش گپیاں مارتے اور اس طرح محلے کے ہر بندے کے حال احوال کی بھی خبر ہو جاتی۔ کون بیمار ہے، کس کے گھر شادی ہو رہی ہے اور کون رشتے تلاش کر رہا ہے۔ اس دوران شکوے شکایات بھی ہوتیں، خاص طور پر جب بھٹیارن کو بھٹی کے کنارے ٹوٹے ہوئے ملتے تو پھر وہ بچوں کو خوب بُرا بھلا کہتی۔ اگر پتا چل جاتا کہ فلاں بچے نے یہ کام کیا ہے تو وہ اس بچے کے اماں ابا تک اپنا احتجاج اور شکایت ریکارڈ کرواتی۔ پھر نہ صرف گھر والوں کے ہاتھوں اس بچے کی خوب درگت بنتی بلکہ اماں بھٹیارن کو بھی اس کی درگت بنانے کی چھوٹ دے دی جاتی۔ ان سب باتوں میں سب سے اچھی اور منفرد بات یہ تھی کہ اگر کوئی گاہک کچھ عرصہ نظر نہ آتا یا اماں بھٹیارن اپنی بھٹی پر نہ آتی تو ہر دوسرے یا تیسرے بندے کو اماں بھٹیارن کی فکر یا اماں بھٹیارن کو اس گاہک کی فکر ہوتی اور لبوں پر اس کے لیے دعائے خیر ہوتی ۔۔۔۔۔ بعض اوقات تو لوگ اسی فکر میں ایک دوسرے سے پوچھتے اس غیر حاضر بندے یا اماں بھٹیارن کے گھر پہنچ جاتے کہ کہیں کوئی کسی تکلیف اور مصیبت میں ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔ مگر آج کل کے اس مشینی دور میں اگر ساتھ والے گھر کوئی بندہ بیمار ہو تو ہم جیسے نالائق ہمسایوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ اگر ادھر ادھر سے خبر ہو بھی جائے تو اپنے فون سے میسج کے ذریعے تیمارداری کر کے احسان جتلاتے ہیں۔۔۔۔۔

آج کل انسانوں کے اس رویے اور مشینی دور سے تو کبھی کبھی ایسا ڈر اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے، کہ بچپن میں اردو کی کلاس کے دوران کسی بلب، میز، کرسی اور ٹی وی وغیرہ پر لکھی آپ بیتی یاد آجاتی ہے۔ کیسے شروع میں یہ مادی اشیاء اپنی بناوٹ، سجاوٹ، انسانی شور وغل اور روشنیوں کی دنیا کا ایک تکبر بھرا سفر کرتی ہوئیں آخر میں ایک بے کار شے کی حیثیت سے کسی اسٹور، کباڑ خانے یا پھر کوڑے کرکٹ کا حصہ بن جاتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔ اور پھر ایک سوچ بتاتی ہے کہ کیا جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا اختتام بھی تو ان مادی اشیاء جیسا ہی تو نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ مادی اشیاء کی یہ آپ بیتی کے مراحل انسان کی دنیاوی زندگی کے مراحل سے کچھ مختلف بھی نہیں۔ قران میں سورہ الحدید آیت 20 میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے " جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے،۔۔۔۔۔۔ اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، ۔۔۔ اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔

یقینا انسان کا اختیار اس کو ان مشینوں اور اشیاء سے مختلف اور منفرد کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا انجام بھی ان اشیاء سے مختلف ہے یہ مادی اشیاء یا مشینیں تو شاید گلنے سڑنے اور بیکار ہونے کے بعد بھی ری سائیکل ہو کر کوئی نیا روپ دھار لیں مگر انسان کا اختیار اسکو موت کے بعد صرف دو آپشن ہی دیتا ہے۔۔۔ کامیابی یا ناکامی ۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قران کے اکثر مقامات پر ہمیں اپنے اردگرد اور فطرت پر غور وفکر کرنے کو کہا گیا تاکہ دنیا کی اور دنیا کی اشیاء کی قدر و قیمت اور اس کی حقیقت کے بارے میں انسانی شعور کو درست کیا جائے۔انسان کو اس کی اپنی حیثیت، مرتبے، مقصد اور انجام سے آگاہ کیا جائے سکے ۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے وہ اپنی زندگی کی سعی میں کس انجام کو منتخب کرتا ہے۔ کیا اس کا انتخاب بربادی اور ناکامی یعنی جہنم کی آگ میں گلنے سڑنے والی اور بدبودار زندگی ہے یا پھراس کی ترجیح جنت کی خوشبودار ہمشہ قائم دائم رہنے والی کامیاب زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔