ہمارے سپوت ”محمد سلمان صاحب“ اس وقت شاید چار پانچ سال کے تھے اور گھر میں اپنی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں سے کھیلنے میں مگن تھے کہ اچانک ہمارے پاس آئے، ہماری قمیص کا دامن پکڑا اور بڑے ہی معصوم قسم کے مدبرانہ انداز میں پوچھا....”امی!! اس کا کپڑا بچا ہوا ہے کیا!!“ ہم نے سوچا شاید اپنے کھیل کود کے لیے چاہیے ہوگا ۔۔۔۔۔ لیکن !!!

ام محمد سلمان

ہمارے بچپن سے ہی امی ہمارے اوڑھنے پہننے کے معاملے میں بہت سختی کیا کرتی تھیں۔ ہمیشہ سادہ، ساتر لباس اور موٹا دوپٹا پہناتیں۔ شیفون یا جالی کے دوپٹے اوڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اور آدھی آستین پہننے کا تو ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن ہوا یوں کہ ایک دفعہ امی سے ضد کر کے کہنیوں سے ذرا اوپر تک کی آدھی آستین بنوا ہی لیں، عمر مبارک اس وقت مشکل سے تیرہ چودہ برس ہوگی۔ عید کے دن جوڑا پہنا توبھائی نے وہ شور مچایا کہ خدا کی پناہ!! ”بھلا ایسی آستینیں کیوں بنائیں؟ ابھی یہ کپڑے اتار کر دوسرے پہنو!!“ اور ہم نے بھیگی آنکھوں اور دکھے دل سے وہ کپڑے بدل لیے۔ اور پھر کبھی دل میں بھولا بھٹکا خیال بھی نہیں آیا کہ ایسی جسارت بھی کی جا سکتی ہے۔

اس واقعے کو کئی سال گزر گئے... پھر شادی ہو گئی۔ سسرال میں چونکہ مشترکہ خاندانی نظام تھا اس لیے وہاں بھی ہمیشہ لباس کے معاملے میں بہت خیال رکھا۔ اور وہ جو اماں جان کبھی کبھار کہہ دیا کرتی تھیں کہ سارے شوق اپنے سسرال جا کر پورے کرنا... وہ ان دیکھا سا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔ وہ جو جارجٹ کے باریک رنگین دوپٹے اوڑھنے کا شوق تھا اور جو خوب گوٹا کناری اور لیسیں لگوا کر اماں نے بنوائے تھے، بھلا دیور جیٹھوں کی موجودگی میں کیسے اوڑھے جا سکتے تھے! کبھی بند کمرے میں ہی اوڑھے تو اوڑھے... ورنہ ہمیشہ خاکی رنگ کی بڑی چادر میں خود کو چھپائے رکھا۔ شادی کو چند سال گزرے تو وہ کپڑوں کی میچنگ کے حسین رنگین دوپٹے بھی صدقہ کر دیے کہ ان کے ساتھ کے جوڑے پرانے ہو گئے اور دوپٹے ویسے ہی نئے رکھے تھے۔ سوچا... چلو کسی کے کام ہی آ جائیں گے۔

دن گزرتے رہے، وقت آگے بڑھتا رہا ۔ دیور اور نند کی شادی ہو گئی۔ ان کی شادی کے دو سال بعد ساس اماں کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب پہلے کی طرح کوئی دیور جیٹھ آزادانہ گھر میں نہیں آتے تھے، ظاہر سی بات ہے جس کے لیے آیا کرتے تھے وہی نہ رہیں...!!

ہمارے اپنے بچے بھی اسکول مدرسے جانے لگے۔ ایک دن کیا جی میں آیا کہ پرانی موہوم سی یاد نے سر اٹھایا.... اپنا جوڑا سلائی کرتے ہوئے اس کی آستینیں آدھی کر دیں۔ گلے اور آستینوں پر ربن سے بڑا خوب صورت ڈیزائن بنایا ۔ جب ایک دن وہ سوٹ پہنا تو بڑی اچھی لگ رہی تھی اسٹائلش سی قمیص!!

ہمارے سپوت ”محمد سلمان صاحب“ اس وقت شاید چار پانچ سال کے تھے اور گھر میں اپنی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں سے کھیلنے میں مگن تھے کہ اچانک ہمارے پاس آئے، ہماری قمیص کا دامن پکڑا اور بڑے ہی معصوم قسم کے مدبرانہ انداز میں پوچھا....”امی!! اس کا کپڑا بچا ہوا ہے کیا!!“

ہم نے سوچا شاید اپنے کھیل کود کے لیے چاہیے ہوگا، ہو سکتا ہے اپنی گاڑیوں کے اوپر کوئی تمبو وغیرہ لگانا ہو۔ سو بڑے پیار سے جواب دیا...”ہاں بیٹے! اس کا تو بہت سارا کپڑا بچا ہوا ہے، تمہیں چاہیے کیا؟ میں نکال کر دوں؟“ “نہیں امی! مجھے نہیں چاہیے۔ بس آپ وہ کپڑا آستینوں کے ساتھ جوڑ لیں. یہ مجھے اچھی نہیں لگ رہیں۔“ وہ امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا...

آپ کا کیا خیال ہے اس کے منہ سے ایسی بات سن کر مجھے بہت صدمہ پہنچا ہوگا کہ اتنی طویل مدت بعد کوئی دیرینہ خواہش پوری کرنے کا وقت آیا بھی تو اولاد ہی راستے کی دیوار بن گئی....!! ارے نہیں بھئی نہیں!! بالکل بھی نہیں!! بلکہ مجھے اتنی خوشی ہوئی یہ بات سن کر کہ بے اختیار سجدہ شکر بجا لانے کو جی چاہا۔ شکر ہے کہ میری تربیت کا اثر ہو رہا تھا بچوں پر...! اس معاملے میں بیٹا اور بیٹی دونوں کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کبھی شریعت کے خلاف لباس نہ پہنیں۔ تو بھلا وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ ہماری اماں جان ہی کچھ الٹا سیدھا پہن کر بیٹھ جائیں!!

اور میرا تو یہ خیال تھا وہ اپنے کھیل میں مگن ہے... مگر کھیل میں مگن ہو کر بھی وہ مجھ سے لا پروا، بے خبر نہیں تھا...!! کھیل چھوڑ کر آ گیا مجھے تجویز دینے کہ اماں جان! اگر کپڑا بچا ہے تو آستینیں لمبی کر لیں۔ خیر میں نے اسی وقت کپڑے بدل لیے۔ پھر اس کے بعد کبھی آدھی آستینیں پہننے کا خیال بھی نہیں آیا۔ دل سے خواہش ہی مٹ گئی لیکن اب اس خواہش کے مٹنے میں کوئی حسرت نہیں تھی، بلکہ ایک انمول سی خوشی تھی، جوش تھا۔

والدین اپنے بچوں کی جیسی تربیت کرتے ہیں اس کا اثر زندگی بھر ساتھ رہتا ہے۔ ہمارے والدین نے ہماری جیسی تربیت کی وہ ہمارے رگ و پے میں سما گئی۔ لباس کے بارے میں زندگی بھر خیال رکھا اور اپنے بچوں کو بھی وہی کچھ سکھایا۔ میں نے کبھی بچپن میں بھی اپنی بیٹی کو بغیر آستینوں کی قمیص اور جینز وغیرہ نہیں پہنائی ۔ ہمیشہ اچھا اور ساتر لباس پہنایا۔ اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس میں شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو۔

لیکن آج کل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لباس کے بارے میں نہ خود اپنا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اپنے بچوں کا ۔ بس فیشن کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگے چلے جاتے ہیں سب۔ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو مائیں ایسا بے ہودہ لباس پہنا دیتی ہیں کہ دیکھ کر بھی شرم آتی ہے۔ جانے ان ماؤں کو شرم کیوں نہیں آتی.......!!!!