ٹیسٹ تو سارے کلئیر ہیں لیکن ۔ ۔۔۔وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگیں ،میں اب آپ کو کیسے بتاوں میری صحت ٹھیک ہے لیکن میں خود ٹھیک نہیں ،دن بدن یہ سوچ کر پریشان رہتی ہوں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں یاد ہی نہیں رہتا کیا کھانا تھا اور کیا نہیں کھانا تھا بس ایک ہی ٹینشن ہے ایک ہی پریشانی ہے۔۔۔۔۔۔۔
قانتہ رابعہ گوجرہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
نویدہ طارق ایک نام تھا ،پہچان تھی ،وقار تھا ،شستہ لب و لہجہ ،عمدہ گفتگو ،پروقار شخصیت ،اعلی تعلیم یافتہ اور جدید زمانے کے طور طریقوں کو سمجھنے والی ! ان سب چیزوں کو تو بہت سی شخصیات میں یکجا دیکھا جا سکتا ہے لیکن ان کا اپنی اور اپنے گھر والوں کے لیے حددرجہ فکر مند ہونا ماہر غذائیت سے ڈائیٹ پلان بنوانا اور ستر اسی فیصد نہیں سو فیصد اس پر عمل کرنا اور کروانا! اپنی اور گھر والوں کی صحت پر وہ کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں اگر ناشتے میں بڑے بیٹے کو جو کا دلیہ بتایا گیا ہےتو یہ ممکن ہی نہیں کہ جو کا دلیہ نہ بنے! اگر دوپہر کے کھانے میں چھوٹی بیٹی کو چپاتی کا نصف بتایا ہے تو نصف چپاتی ہی ملے گی اور خود وہ اتنی محتاط تھیں کہ جو بتایا ہے وہ لینا ہے اور بس وہی لینا ہے ! جتنی کیلوریز لینا ہیں اور جتنی کیلشیم کی ضرورت ہے اس سے ایک ذرہ کم نہ زیادہ ! ساری دنیا گواہ تھی کہ ان کے تو بچے بھی ہائی جینک خوراک کے معاملے میں اتنے پکے تھے کہ کبھی کسی مجبوری میں انہیں کولڈ ڈرنکس لینا پڑ جاتیں تو گھر واپس آتے ہی پہلا کام کیلشئم کی گولی کو پانی میں گھول کر پینا لازم ہوتا ایک کولڈ ڈرنک سے کتنی کیلشیم برن ہوتی ہے اور اسے فوری طور پر کیسے حاصل کر کے بیلینس کرنا ہے یہ گھر کے ملازمین تک جانتے تھے
ایک مرتبہ نویدہ طارق کے حلقہ احباب میں سے ایک قریبی دوست مسز چٹھہ نیشنل اسمبلی میں پہنچ گئیں حلف اٹھانے سے قبل ہی ساری بیگمات نے باری باری ڈنر ہا ئی ٹی کا شیڈول ترتیب دیا پہلاڈنر مس چغتائی کی جانب سے ایک فائیوا سٹار ہوٹل میں تھا، اتفاق کبھی اچھے ہوتے ہیں اور کبھی برے، اس دن برا یہ ہوا کہ ڈنر کے بعد انہوں نے جو میٹھا دینا تھا وہ میز تک پہنچنے میں دیر ہو گئی خیر اتنی دیر بھی نہیں ہوئی تھی یہی کوئی پندرہ ایک منٹ اور جب میٹھے میں وہ ڈیزرٹ ،آئسکریم آئی جو نویدہ طارق سمیت سبھی کو پسند تھی سب کھانے کے لیے ٹوٹ پڑیں سوائے نویدہ طارق کے!
سب پوچھ رہی ہیں ،ارے بھابھی آپ لیں ناں بہت مزے کا ہے ڈیزرٹ ،بہترین بالکل فریش !" ،،نویدہ بے نیازی سے مسکراتے ہوئے بولیں
،میں کھانا مکمل کھا چکی ہوں اب اگرساتھ میں ہزار ڈالر بھی دے تو نہ کھاؤں،، اتنی احتیاط کے بعد ظاہر ہے ان کی دمکتی رنگت ،چمکتے چہرے پر کم ہی نظر ٹکتی!اوڑھنے پہننے کا ڈھنگ آتا تھا، کسی زمانے میں فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام بھی کر چکی تھیں، اس لیے ان کے سامنے کسی کا چراغ کم ہی جلتا تھا، بڑی بیٹی اور بیٹے کی شادی کے بعد بھی ان کی وہی روٹین برقرار رہی ،ہاں ایک مصروفیت کا اضافی کام ان کی سمدھن نے ان پر ڈال دیا
انہیں قرآن کلاسز اٹینڈ کرنے کا کچھ دنیا کی بے ثباتی ،زندگی کے مقصد کا ایسا نقشہ کھینچا کہ نویدہ طارق نے فزیکلی تو نہیں البتہ آن لائن ترجمہ تفسیر کی کلاسیں لینے کا فیصلہ کر لیا
بلاشبہ یہ ان کی باوقار شخصیت کو مزید تقویت کا باعث بن گیا ،باقی ان کی مصروفیات اور صحت کا خیال رکھنا پہلے کی طرح ہی تھا اتفاق سے کرونا کے متاثرین میں وہ بھی شامل تھیں لیکن ان کی بھرپور توانائی والی خوراک نے انہیں بس متاثر ہی کیا ہسپتالوں کی نوبت نہیں آئی ۔
کرونا کے بعد ان کا بیٹی کی زچگی کے سلسلے میں امریکا جانے کا پروگرام بن گیا، پورے چھ ماہ کے قیام کے بعد وہ پاکستان آئیں توان کی خوبصورت آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بنے ہوئے تھے
رنگت بھی قدرے سنولائی ہوئی تھی ،یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ ساری دوست احباب سے ان کی پاکستان آمد کے بعد ملاقات نہ ہو سکی مس چغتائی کی بیالیس سال کی عمر میں شادی ہوگئی ،مسز جہانزیب انگلینڈ کو اور مسز وقار توحید اللہ کو پیاری ہو گئیں سب کے ہی اپنے اپنے بچوں کی شادیوں کے بعد حالات کچھ نہ کچھ بدل گئے ایک دو مرتبہ مس چغتائی کی آمد پر سب نے مل بیٹھنے کا اہتمام کیا لیکن کبھی دھرنے اور کبھی سیاسی سرگرمیوں کے باعث عین وقت پر پروگرام منسوخ کرنا پڑا جونہی دو ہزار تئیس کا آغاز ہوا اور انہوں نے سوچا اس مرتبہ رمضان المبارک سے قبل ضرور سب مل کر بیٹھیں گے بھر پور کوشش کے باوجود پروگرام پر عمل درآمد ہوتے ہوتے نئے سال کے چار ماہ گزر گئے بہر حال اب ارادہ پکا تھا انہوں نے سہیلیوں کے ساتھ سمدھنوں کو بھی مدعو کیا
ہنستی مسکراتی ،نویدہ طارق کی جگہ پر سنجیدہ،بلکہ غمزدہ سی نویدہ استقبال کے لئے گیٹ وے پر ہی موجود تھیں ،سب سے پہلے مس چغتائی نے پوچھا
،،نویدہ بھابھی خیریت تو ہے ؟ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟؛؛
جواب دینے کی بجائے نویدہ طارق کی جھیل جیسی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
،نویدہ جی کیا ہوا ،بھائی ٹھیک ہیں ؟ آپ کی صحت ٹھیک ہے؟" قدسیہ شیرازی نے سوال کیا
،،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ،نویدہ نے قدرے نقاہت سے جواب دیا ہمیشہ سے مسکراتے چہرے پر غم کی بدلیاں دکھائی دے رہی تھی اور روشن آنکھوں کے دئے بجھ رہے تھے
،خیریت کیا ہوا؟ ٹیسٹ کروائے ہیں آپ نے آغا خاں سے ،فروہ شہزاد نے پوچھا ،،ٹیسٹ تو سارے کلئیر ہیں لیکن ۔ ۔۔۔وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگیں ،میں اب آپ کو کیسے بتاوں میری صحت ٹھیک ہے لیکن میں خود ٹھیک نہیں ،دن بدن یہ سوچ کر پریشان رہتی ہوں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں یاد ہی نہیں رہتا کیا کھانا تھا اور کیا نہیں کھانا تھا بس ایک ہی ٹینشن ہے ایک ہی پریشانی ہے جب سے امریکا اور انگلینڈ سے واپس آئی ہوں ہر وقت یہی سوچتی رہتی ہوں کہ جو وفاداری اور محبت ہمیں اسلام کے نام پر حاصل کیے اپنے ملک کے لیے ہونی چاہئیے تھی وہ کافروں کو اپنے ملک سے ہے، ہم تو بس اسے نوچ کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں پاکستان مجھ سے سترہ سال بڑا ہے اور میں اب بڑھاپے میں قدم رکھ چکی ہوں، مجھے واضح طور پر اپنی جمع شدہ طاقت اور توانائی میں کمی محسوس ہوتی ہے تو یہی میرے خیال میں ملک کا بھی معاملہ ہوگا، میں امریکا اور انگلینڈ کے قیام میں ایک طرح سے بالکل فارغ تھی اس عرصے میں میں نے اپنے ماضی اور ملک کی تاریخ میں جھانک کر دیکھا میرے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو بیک وقت خؤش قسمتی میں بھی سب سے آگے ہیں اور بد قسمتی میں بھی ،خوش قسمتی اس بات کی کہ دنیا کی کون سی نعمت اور کون سا حسن ہے جو اللہ نے میرے پاکستان کو نہیں دیا سمندر پہاڑ،دریا جنگلات صحرا سونا اگلتی زمین، معدنیات اور ہم سے بڑا بدنصیب بھی کوئی نہیں جو دونوں ہاتھوں سے نوچ نوچ کر اسے برباد کر رہے ہیں ادھا ملک گنوا کر بھی نہیں سمجھے،عوام ساری کی ساری غلطیاں حکمرانوں کے سر پر ڈال کر بری الزمہ ہوجاتے ہیں اور حکمران فوج کے سر پر ڈال کر ،
نویدہ کا بول بول کر سانس پھول چکا تھا پانی کا گھونٹ پیتے ہی وہ پھر نوحے کے انداز میں بولیں ،آپ جانتی ہیں میں نے وہاں پر کیا پڑھا اپنے ملک کی تاریخ میں کہ ساری کی ساری دولت ،اقتدار پاکستان بننے کے بعد جن وڈیروں کے پاس ہے اب دس بارہ گھرانوں کے اضافے کے بعد انہی کے اس ہے آپ حیران ہوں گی جب سے مشرقی پاکستان الگ ہوا ہے اقتدار میں چند مخصوص گھرانے ہیں اور ان کے آدھے لوگ اقدار میں ہوتے ہیں آدھے اپوزیشن میں ،یہ باری باری کا کھیل کھیلتے آرہے ہیں اگلی مرتبہ اپوزیشن والے اقتدار میں اور اقتدار والے اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں جن کو ہر حال میں کرسی چاہیے وزارت چاہیے وہ پارٹی بدل کر اقتدار میں چلے جاتے ہیں کوئی نہیں کہتا کہ تم نے وعدہ خلافی کی تم لوٹے ہو بلکہ اسے پھولوں کے ہار پہنا کر وزارت تھالی میں رکھ کر دے دی جاتی ہے ان کی اولادیں بیرونی ممالک میں ان کی جائیدادیں دوبئی، یوکے اور امریکا میں، ان کے بنک اکاؤنٹ سوئس بینک میں ان کی چھٹیاں یورپ میں گزرتی ہیں، یہ تو باری باری کا کھیل کھیل کر دنیا کے مال متاع پر ریجھ ہی گئے ہیں خدا کی ذات کو بھول چکے ہیں تو کیا عوام بھی ان کے ساتھ مجرم نہیں نوکر کام چور اور نکما نکلے تو منٹ نہیں لگاتے فارغ کرنے میں،رشتے ڈھونڈنے ہوں تو ستر ستر لوگوں سے تحقیق کرتے ہیں ایک یہ بدنصیب ملک ہی ہے جس کے نمائندے چنتے ہوئے انہیں کچھ یاد نہیں رہتا تب شرابی زانی حریص بد دیانت لٹیروں کو سب سے بڑی امانت دے دیتے ہیں،اس لیے ہم ساری دنیا میں سب سے ہلکی قوم ہیں بنگلا دیش تک ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہم بس کرشن اور بے حیائ میں آگے ہیں کیا منہ دکھائیں گے روز حشر خدا کو کیا جواب دیں گے کلمہ کے نام پر لینے والے ملک کی بابت؟؟
بتائیں ناآاپ ،کیا آپ کا دل نہیں پھٹتا یہ سوچ سوچ کر ؟ میں تو بہت سوچتی ہو بہت روتی ہوں راتوں کو اٹھ اٹھ کے دعائیں کرتی ہوں،میرا دل غم سے بھر جاتا ہے کیا اپ کے دل کو یہ سوچیں غمزدہ نہیں کرتیں؟,, نویدہ طارق تھک گئی تھیں، آنسوؤں سے منہ گیلا ہو چکا تھا اور کھانے کی میز پر دھرا کھانا گھنٹے بھر سے ٹھنڈا اور بے جان ہوا پڑا تھا ۔