حافظ محمد عدیل عمران

کیا کسی نے خوب کہا ہے  کہ مکان تو ہاتھوں سے بن جایا کرتے ہیں مگر گھر ہمیشہ دلوں سے بنا کر تے ہیں ۔اینٹیں جڑتی ہیں تو مکان بن جاتے ہیں مگر جب دل جڑتے ہیں تو گھر آباد ہو جایا کرتے ہیں ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب میاں بیوی قریب ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے لڑائیاں ہوتی ہیں اگر اسی حالت میں خاوند فوت ہو جائے تو یہی بیوی ساری زندگی

خاوند کو یاد کر کے روتی رہے گی کہ جی اتنا اچھا تھا میرے لیے تو بہت ہی اچھا تھا ۔اگر بیوی فوت ہو جائے تو یہی خاوند ساری زندگی یاد کر کے روتا رہے گا کہ بیوی اتنی اچھی تھی میرا کتنا خیال رکھتی تھی۔بہتر یہ ہے کہ ہم  اس کی قدر اس کے قریب ہوتے ہوئے کر لیا کریں ۔ کئی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ میاں بیوی جھگڑے میں ایک دوسرے کو طلاق دے دیتے ہیں۔جب ہوش آتا ہے تو خاوند اپنی جگہ پاگل بنا پھرتا ہے اور بیوی اپنی جگہ پاگل بنی پھرتی ہے۔پھر مولوی و مفتی صاحبان کے پاس جاتے ہیں کہ مولوی صاحب کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی کہ ہم پھر سے میاں بیوی بن کر رہ سکیں ۔ایسی صورت حال ہرگز نہیں آنی دینی چاہیے ۔ عفوو درگزر اور افہام و تفہیم سے کام لینا چاہیے بلکہ ایک روٹھے تو دوسرے کو منا لینا چاہیے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

اتنے اچھے موسم میں روٹھنا نہیں اچھا

ہار جیت کی باتیں کل پہ ہم اٹھا رکھیں

آج دوستی کر لیں

شیطان خوش گوار ازدواجی زندگی کو قطعا ناپسند کرتا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ میاں بیوی میں رنجش پیدا ہو اور ازدواجی تعلقات میں خرابی پیدا ہو ۔وہ خاص طور پر خاوندوں کے دماغ میں فتور ڈالتا ہے۔لہذا خاوند باہر دوستوں کے اندر گلاب کا پھول بنا رہتا ہے اور گھر کے اندر کریلا نیم چڑھا بن جاتا ہے۔اکثر سننے میں آتا ہے کہ نوجوان آکر کہتے ہیں کہ ’’پتانہیں کیا وجہ ہے کہ گھر میں آتے ہی دماغ گرم ہوجاتا ہے۔‘‘وہ اصل میں شیطان گرم کر رہا ہوتا ہے۔وہ میاں بیوی کے درمیان الجھنیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔

شیطان پہلے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کروا کر خاوند کے منہ سے طلاق کے الفاظ کہلواتا ہے ۔جب اس کی عقل ٹھکانے آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے توغصے میں طلاق کے الفاظ کہہ دیے تھے ۔چنانچہ وہ بغیر کسی کو بتائے میاں بیوی کے طور پر آپس میں رہنا شروع کر دیں گے وہ جتنا عرصہ اسی حال میں ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے تب تک انہیں زنا کا گناہ ملتا رہے گا ۔اب دیکھیں کہ کتنا بڑا گناہ کروا دیا یہ ایسے کلیدی گناہ کرواتا ہے ۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے  طلاق تک نوبت پہنچنے والی چند ایک اہم باتوں کا تذکرہ کردیا جائے ۔

٭ رضا مندی کے بغیر شادی کرنا :  والدین کو چاہیے کہ لڑکا و لڑکی دونوں  کی رضا مندی کے ساتھ ان کی شادی کریں ۔ کیونکہ جب لڑکا و لڑکی کی رضا مندی شامل نہیں ہو گی تو اس ’’رشتے‘‘ کا نباہ  بہت مشکل ہے ۔ اس لیے پہلے رضا مندی ضروری ہے۔

٭پسند کی شادی : عام طور پر پسند کی شادی بھاگ کر کی جاتی ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔اس حوالہ سے بھی والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ جہاں بچے چاہیں وہاں ان کا رشتہ طے کر دیا جائے ، اگر بچوں کی بات نہ ماننے کی کوئی ٹھوس اور معقول وجہ تو بچوں کو نرمی سے دلیل کے ساتھ بات  کرکے سمجھانا چاہیے اور انہیں سوچنے کے لیے  وقت دینا چاہیے پھر بھی اگر وہ اپنی بات پر قائم ہوں تو دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ان کی مرضی کے مطابق رشتہ کردیاجائے سختی کرنا اور گھر سے نکال دینا تعلق ختم کرنا انہیں انتہائی اقدام پر مجبور کرتا ہے ۔

٭ ساس بہو کے جھگڑے: آج ہمارے سماج کے بیشتر گھرانوں میں ساس اور بہو کے مابین خلیج بہت زیادہ ہے ۔ان مسائل کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے بھاگنے کی بجائے ان کا سامنا کیا جائے ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خاص طور پر مرد کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ان حالات میں ماں ، بیوی دونوں کا موقف سننے کی ضرورت ہے ۔کسی ایک کی بات سن کر دوسرے سے فوری ناراضی یا برہمی کا اظہار غیر دانش مندانہ رویہ ہے ۔اس سے نہ تو انصاف ہو گا اور نہ ہی معاملات حل ہوں گے ۔لیکن یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مردوں کا رویہ یک طرفہ ہو جاتا ہے ۔ماں اور بیوی کو سمجھانے کی بجائے وہ سارا غصہ یا تو بیوی پر نکالتے ہیں یا بیوی کی ناراضی کے خوف سے یا  اس  سے محبت کی  وجہ ماں باپ سے الجھتے اور انہیں ڈانٹنا ان سے بدتمیزی کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ دونوں رویے خطر ناک اور غلط ہیں۔

٭غصے میں  بے قابو ہونا : اپنے غصے کو قابو میں رکھنا چاہیے ، زیادہ تر اختلافات غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر شوہر غصہ میں ہو تو خاموش رہیں ۔کچھ وقت گزر جانے کے بعد انہیں اپنی بات نہایت ہی شیریں لہجے میں سمجھائیں  تاکہ وہ اپنے موقف کو اچھی طرح سمجھ سکے اس طرح بات کبھی نہیں بڑھے گی ۔اور ایسے بے لگام غصے سے حفاظت کے لیے تعوذ کی کثرت کرنی چاہیے ۔ تنہائی میں اللہ تعالی سے مدد کی دعائیں کرنا چاہیے۔

عام طور پر غصہ میں قابو نہیں رہتا اور بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ اس حوالہ سے صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ۔ کچھ دن پہلے ایک فون آیا کہ حافظ صاحب ! ایک مسئلہ ہو گیا ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ ’’ والدین آپس میں جھگڑا کر رہے تھے ان کو خاموش کرانے کی خاطر میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ حالانکہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی ؟؟تو کیا طلاق واقع ہو گئی۔؟؟‘‘اس طرح کی باتیں بھی اکثر سننے میں ملتی ہیں اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ غصہ میں اپنے اوپر قابو رکھیں ۔

طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے ۔  اس سے حفاظت اور بچاؤ کے لیے معاشرے کے اہم طبقوں اور شخصیات کو اپنا کردار  ادا کرنا چاہیے

مطلقہ کا عقد ثانی :ہمارے سماج میں عام طور پر مطلقہ کی شادی کو ’’معیوب‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔طلاق کے بعد اس کے سابقہ سسرال والے لڑکی کو بدچلن ، بدکردار،کام چور وغیرہم ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور معاشرہ بھی لڑکی کو ہی برا سمجھتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ایک مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد یا علیحدگی کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ اس کے فیصلے کو سراہتے ہیں ۔اس کی دیکھ بھال کے لیے اور بچوں کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہے ۔اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ یا مطلقہ عورت دوسری شادی کر لیتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کر دیے جاتے ہیں ۔اور اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ کے گھر یا اپنے بھائی کے گھررہنا چاہتی ہے تو رشتے دار ، پڑوسی، اور دیگر افراد اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ہمارے دہرے رویے والے معاشرے نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے ! طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرنا ایک پاکیزہ فعل ہے نکاح کے ذریعے نسب بھی پاکیزہ اور محفوظ رہتے ہیں اس لیے اسلام نے اسے نیکی کا درجہ دیا ہے ۔اسلام میں مطلقہ ہونا کوئی عیب نہیں ہے ۔اورنہ ہی مطلقہ سے نکاح کرنا کوئی معیوب کی بات ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح فرمایا اور اللہ تعالی نے اس نکاح کو اپنی طرف منسوب فرمایا ۔واضح رہے کہ طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون کو معیوب سمجھنا ہندوانہ رسم ہے لہذا اسلام میں کسی عورت کا دوسری شادی کرنا کوئی معیوب کی بات نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کر کے اس نظریے کو جڑ سے ختم کر دیا ہے کہ عورت کے لیے مطلقہ ہونا عیب کی بات ہے ۔دوسری شادی کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے ۔شریعت کی تعلیم بھی یہی ہے کہ  خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے بیوہ ، طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون سے شادی کرنا زیادہ افضل ہے کیونکہ یہ عورت کا تحفظ ہے اور ایسی خواتین کو معیوب سمجھنا ہمارے معاشرے کی نحوست ہے ۔

 اللہ تعالی ہمیں شرعی احکام سیکھنے اور اس کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین