شادی  صرف ایک فنکشن ،چند پروگراموں یا گناہ پر مبنی رسوم پر مشتمل عمل نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک کڑی ہے ،جو دو دلوں کو باہم ملاتی ہے ،  اس کڑی کو جتنا زیادہ مضبوط اور ترتیب سے بنایا جائے گا، اتنا ہی زیادہ اس سے متعلق رشتہ مضبوط  و خوبصورت بنے گا

اہلیہ محمد عبید خان

نکاح  زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے اور جو چیز جتنی زیادہ ضروری ہو ،اس تک access عام اور آسان بنایا جاتا ہے ،اسی وجہ سے شریعت نے شادی کو آسان سے آسان تر بنا کرپیش کیا ہے ۔

آپ دیکھ لیجیے !  کوئی  دن ،تاریخ،سال،مہینہ ،عمر ،تیاری، ڈگری، طبی معاینے کی مخصوص قید  شرعاًنہیں لگائی ،تاکہ زیادہ  سے زیادہ نکاح کو فروغ ملے اور ریپ(زنا) کے واقعات کم سے کم ہو کر  اسلامی معاشرے میں بالکل ختم ہوجائیں ۔لازمی بات ہے کہ   فطری شہوانی جذبات پر قابو پانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ، اس کے لیے سامنے دو آپشن ہیں،   شادی یا پھر زنا ۔

فطری تقاضوں  کی  بھرپور رعایت رکھنے  والا” مذہبِ اسلام “نکاح کو فروغ دیتا ہے ۔ جس سے نہ صرف جنسی جذبات کو مہذب انداز سے پورا کیا جاسکتا ہے بلکہ ، نسب  کا تحفظ ،  خاندان کی تکمیل، زوجین کا سکون اور دیگر فوائد بھی میسر آجاتے ہیں جو  ریپ کی صورت ممکن ہی نہیں ۔

خوشی کے فیز سے گزرنے کا طریقہ:

 ایک بات پر اپنا یقین بنائیے !  دو فیز انسانی زندگی کا خاصہ ہیں،  انسان یا تو خوشی ،مسرت ،انبساط کے احساسات  محسوس کررہا ہوتا ہے یا غم ،تکلیف، درد ، افسوس،ڈیپریشن کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے ،  اب جس ذات نے انسان کو بنایا اور اس کی بقا کے تمام سامان اسے فراہم کیے ،کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کو ان دو فیز سے گزرنے کے طریقے نہ سکھائے ؟؟

شادی کا وقت بھی انسانی زندگی کا ایک ایسا پُر مسرت موقع ہوتا ہے جس کو انسان کھل کر،دلی طور پر محسوس کرتا ہے خوشیاں مناتا ہے  ،    شریعت بھی  جائز خوشیاں منانے سے نہیں روکتی ۔ بلکہ دلوں کی خوشی ،فرحت  اور راحت  نہ صرف جائز سمجھتی بلکہ اس کا موقع دیتی ہے ۔

یہ خوبصورت حدیث اس بات کی عینی شاہد ہے :

فرمانِ رسولﷺ ہے : ‌رَوِّحُوا ‌الْقُلُوبَ سَاعَةً بِسَاعَةٍ( ضعيف الجامع الصغير:‌‌3140(

”دلوں کو لمحہ بہ لمحہ فرحت دیا کرو“

پھر یاد رکھیے!کسی بھی نیکی پر خوش ہونا ،عین ایمان کی علامت بتائی گئی ہے ۔

إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ (مسند احمد 2525)

”جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیرا گناہ تجھے برا لگے تو، تو مومن ہے“

نکاح  بھی تو ایک ا ہم دینی فریضہ ہے ،اس کے انعقاد پر خوش ہونا  ،خوشیاں منانا،شرعی طور پر منع کیونکر ہونے لگا؟؟

لیکن!حدود  سے تجاوز کبھی شریعت کا مزاج نہیں رہا ۔ اسلا م ایک moderate مذہب ہے ،نہ افراط نہ ہی تفریط۔

قرآن مجید کی واضح آیت موجود ہے  کلوا واشربوا ولا تسرفوا ”کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو“

گویا  ،تسکین و راحت کے تمام کام کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن حدِّ شریعت ملحوظ رہے ۔

اسی طرح حدیث مبارک میں ہے :ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: ‌الْعَدْلُ ‌فِي ‌الرِّضَا وَالْغَضَبِ۔(صحيح الجامع:3045)

تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں :(جن میں سے ایک)  خوشی اورغمی میں عدل کرنا۔

چنانچہ شادی  صرف ایک فنکشن ،چند پروگرام یا گناہ پر مبنی رسوم پر مشتمل عمل نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک کڑی ہے ،جو دو دلوں کو باہم ملاتی ہے ،  اس کڑی کو جتنا زیادہ مضبوط اور ترتیب سے بنایا جائے گا، اتنا ہی زیادہ اس سے متعلق رشتہ مضبوط  و خوبصورت بنے گا ۔

 اس تحریر کا مقصد ہی  یہی ہےکہ ا حادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کڑی(نکاح) کو اس انداز سے جوڑنا ، جو شریعت کے خلاف بھی نہ ہو اور دلوں کی راحت و خوشی کا سامان بھی میسر آجائے ۔

ذرا سوچیے!

ایک مؤمن ہونے کے ناطے کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم نکاح  جیسے اہم  دینی فریضے کی  ادائیگی کے وقت، اپنی خوشی منانے کے طریق کو شریعت کی ترازو میں تول لیں ، دل کی خوشی بھی ،اللہ کی رضا بھی ۔

ہینگ لگے نہ پھٹکڑی!!

بھئی دیکھیے !ہمیں شادی کے دوران خوشیاں بھی منانی ہیں ، اچھے کھانے اور لباس بھی چاہئیں ، کچھ موج مستی اور ہلا گلا بھی ہوwell dressedبھی ہوں ،دعوتیں اور میل ملاقاتیں بھی ہوں اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ،تاکہ برکتوں اور رحمتوں سے بھی مستفید ہوں  ۔گویا ہینگ لگے نہ  پھٹکڑی رنگ چوکھا !!

جی ہم آپ کو نکاح کے ان طریقوں کے متعلق ہی  آگاہی دینے جارہے ہیں،پھر آئیے نا ! ہمارے ساتھ سفر سیرت پر نکلیے !!

بابرکت نکاح:

No Doubt!ہر جوڑا اپنے رشتے میں برکت ،رحمت، آسانیاں چاہتا ہے ، بس نفسانی خواہش کے غلبے کی وجہ سے اس برکت و رحمت کے حصول کے بہترین اسباب  صحیح اختیار نہیں کرتے ۔یہ مختصر اور جامع حدیث پڑھیے نا!!

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً۔(مسند أحمد:24529)

رسول کریم ﷺکا فرمان ہے:”بلاشبہ بہت زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں مشقت کم ہو/بلا تکلف ہو“

یہ ایک criteria بتا یا گیا ۔  فرمان ِ نبی ﷺ کے مطابق بابرکت نکاح ، کم مشقت، فریقین پر آسانی ،تکلف و تصنع سے دور  ہونے کی صورت ہی ممکن ہے ۔ گویا ”کم خرچ بالا نشین“

اس حدیث کو ہی اگر ہم اصول بنا کر شادی و دیگر خوشی کے مواقع کی ہر تقریب میں بنیاد بنا لیں تو ساری خرافات،رسم و رواج ،فوری دم توڑ دیتی ہیں ۔ مگرافسوس!!  اپنانا ہی مشکل!!

زیب و زینت اختیار کرنا(well Dressed ہونا):

شریعت خوشی و شادمانی کے موقع پر مؤمن کے لیے  well dressed ہونے  کو  ناپسند نہیں کرتی ۔عمدہ لباس،خوش پوشاکی  شرعی طور پر پسندیدہ ہے۔

آپﷺ سے پوچھا گیاکہ

 إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً.

’’آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا عمدہ ہو۔‘‘

آپﷺنے فرمایا :إِنَّ اﷲَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ. (صحيح مسلم:رقم:91)

”بلاشبہ اللہ جمیل ہیں اور جمال(آرائستگی) کو پسند فرماتے ہیں،تکبرتو حق بات  کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھناہے“

2)غیر ملکی وفود سے ملاقات کے وقت آپﷺ خاص طور پر عمدہ جوڑا زیب تن فرماتے تھے ،اسی طرح صحابہ کرام ؓ کے متعلق بھی آتا ہے کہ 100 سے 1000 درہم تک کے لباس اور چادریں خرید کر پہنی ہیں(جو اس دور میں ایک بھاری رقم شمار ہوتی تھی) (حیاۃ الصحابہ)

چنانچہ یہ تمام روایات چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ خوبصورت معیار سمجھا تی ہیں کہ محض عمدہ ڈریسنگ ، برانڈڈ گیٹ اَپ  ہی تکبر کی علامت نہیں بن جاتا  بلکہ یہ  بھی  خوش ذوقی و شائستگی کی علامت  بن سکتی ہے  تاہم چند شرائط کے ساتھ :

نیت اچھی ہو۔تکبر و خود پسندی ،نمود و نمائش،ریاکاری نہ ہو،چادر کے مطابق پاؤں پھیلایا جائے۔

لباس میں تمام شرعی حدود کا لحاظ رکھا گیا ہو۔فساق و فجار کی مشابہت نہ ہو۔

اچھے سے اچھے لباس کا مسابقہ و مقابلہ نہ ہو، اللہ کے شکر،اور نعمت کے اظہار کے طور پر ہو۔

شادی میں میوزک کا جواز؟

شرعی احکام کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ” فطری تقاضے کبھی منع نہیں کیے اور فطرت اور عادت کو بگڑنے نہیں دیا“شادی میں بالکل ہاتھ پاؤں باندھ کر نہیں بٹھایا،بلکہ فطری امنگوں کے مطابق ،دلوں کی خوشی کے اہتمام کی اجازت دی!!

1)ربیع بنت معوذؓ بیان کرتی ہیں :

’’حضور نبی اکرمﷺ میری شادی کے موقع پر تشریف لائے اور دوسرے اَعزاء و اَقارب کی طرح میرے بستر پر تشریف فرما ہو گئے۔ اتنے میں چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر)دُف پر کوئی گیت گانے لگیں، وہ شہدائے بدر کی تعریف میں نغمہ سرا تھیں۔ جب ان میں سے ایک بچی  کی نظر حضور نبی اکرم ﷺپر پڑی تو وہ آپ کے لیے مدح سرا ہوگئی۔ اس پر آپ ﷺنے اسے روکا اور فرمایا کہ وہ وہی گیت جاری رکھیں جو وہ گارہی تھیں۔‘‘(صحيح بخاری:رقم : 3779)

2) حضرت عائشہؓ نے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے شوہر (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللّٰہﷺ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: ”مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ؟فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ“

یعنی”  تمہارے پاس 'لہو' نہیں ہے؟انصار کو لہو پسند ہے“

ایک اور روایت میں ہےفَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی۔

''کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یاباندی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔''

3)اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ(سنن نسائی:3372)

’’حلال اور حرام نکاح کے درمیان فرق آواز کا ہے یعنی (حلال نکاح کا اِعلان) دُف بجا کر کیا جاتا ہے (جب کہ حرام چوری چھپے اور خاموشی سے کیا جاتا ہے)‘‘

4)عامر بن سعد﷫بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول حضرت قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری ؓ بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟

 اُنہوں نے فرمایا:''شادی کے موقعے پر ہمیں لَهْو(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے'' (سنن نسائی:3385)

یہ تمام احادیث چند اہم نکات واضح کرتی ہیں:

1) )نکاح کو خوب مشہور کیا جائے ،خفیہ شادی پسندیدہ نہیں ۔کیونکہ مؤمن کو تہمت کے مواقع سے بچنا چاہیے۔

2)شادی بیاہ،اور دیگر خوشی کے موقع پر دف  کا استعمال کیا جاسکتا ہے (یااس سے ملتے جلتے آلات، جن میں گھھنگھرو اورفساق و فجار کی مشابہت نہ ہو۔مثلاً:  پرانے زمانے میں پرات ،گھڑے   وغیرہ)ڈھول،بانسری،گٹار اور آج کل کے میوزک کے جتنے جدید آلات ہیں ان کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ دیگر احادیث دلیل ہیں۔

3) اچھا کلام یا نشید جوفحش،نازیبا کلمات اوربے حیائی پر مشتمل نہ ہو،کو مترنم  آوازمیں پڑھ کر خوشی کا اظہار کیا جاسکتا ہے ۔

4)چھوٹی بچیاں یا قریب البلوغ لڑکیاں یہ گیت گا سکتی ہیں  لیکن گھر کے اندر خواتین کے مجمع میں اور آواز نا محرم تک ہرگز نہ پہنچے۔

 

انگلی پکڑائی ہے ہاتھ مت پکڑیے!!

واضح رہے !! ان تمام احادیث سے نوجوان بچے،بچیوں کا خود ناچنا،گانا،بے حیائی کا ارتکاب کرنایا باقاعدہ میوزیکل بینڈ باجے والے پیشہ ور لوگوں کو بلانا،ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ یہ سب حرام اور ناجائز ہے۔ شریعت کی حدود کو سمجھ کر،ان کے اندر رہنا سیکھیے ، وگرنہ وہ مباح و جائز کام، جو حرام تک لے جانے کا سبب وذریعہ  بنے ، حرام ہوجاتا ہے!!

ان لوگوں میں ہرگز شامل نہیں ہونا ،جو ذکر کردہ احادیث سے اپنی من،مرضی کے مطالب نکال کر ، موسیقی ،گانوں کو حلال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اللہ کے قہر و غضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔ حد شریعت ملحوظ رہے!!

شادی کا خرچ:

باقی رہی شادی میں خرچ؟کتنا خرچ کریں کہ  اسراف  بھی نہ ہو،کنجوسی بھی نہ کہلائے ،اعزاء و اقارب بھی مطمئن و خوش رہیں اور ریاکاری بھی نہ ہو ، غرض لذت بھی اور برکت بھی ۔اس موضوع کو اس آرٹیکل میں سمونا ممکن نہیں ،اس کے لیے ہماری اگلی تحریر کا انتظار کیجیے ۔

تب تک دعا کا تحفہ وصول کرتے جائیے:

اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا[سنن ابن ماجہ:3820]

اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو  استغفار کرتے ہیں۔