حافظ محمد عدیل عمران
اللہ تبارک و تعالی نے ہر انسان کو سلیم الفطرت بنایا ہے۔ لیکن ماحول انسان کو خراب کر دیتا ہے اور سلامت روی سے محروم کر دیتا ہے ۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے بروں کی صحبت سے بچنا چاہیے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔خصوصا بچوں کو بری صحبت سے بچانا بہت ضروری ہے ورنہ لا ابالی پن کی وجہ سے وہ اپنی عاقبت خراب کر بیٹھیں گے ۔اور معاشرہ کے لیے مصیبت بن جائیں گے ۔
آج پوری دنیا مغربی تہذیب پر فریفتہ ہے ۔ہر شخص مغربی لباس ، مغربی وضع قطع اور مغربی طور و طریق کو اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔اور اسلامی تہذیب و احکام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس دورِ جدید میں انٹرنیٹ، موبائل ، کیبل وسوشل میڈیا نے نوجوانوں کی زندگی کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ان چیزوں کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہاں پر بہت سے نقصانات بھی ہیں جن میں خاص کر نوجوانوں کو زنا ، بدکاری اور بے راہ روی کی طرف لے جانے والا وہ طوفان ہے جس کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے ۔ اور اس بے راہ روی طوفان کے آگے بند تبھی بن سکتا جب نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کی شادی جلد از جلد کر دی جائے ۔ عموما شادی اس لیے جلدی نہیں ہو پاتی کہ وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ آج کل کے زمانے کے حساب سے شادی کر سکیں ۔ شادی کی بے جا رسوم بچوں و بچیوں کی شادی میں تاخیر میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس کے حل کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ’’شادی کو سادی بنایا جائے ‘‘ اور بے جا رسوم سے اپنی جان چھڑائی جا سکے اور اگر بچے و بچی کا مناسب رشتہ مل جائے تو شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔
بچے و بچی کی شادی میں تاخیر بالعموم اس لیے ہوتی ہے کہ مناسب رشتہ نہیں مل پاتا ۔ والدین کی یہ خواہش اور کوشش بالکل بجا ہے کہ آپ کے بچے و بچی کے لیے مناسب رشتہ ملے یہ فکر و جستجو آپ کا فرض ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ مناسب رشتہ کے لیے پوری جدوجہد کریں ۔
اسلام کا مطالبہ آپ سے یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو جو بھلا برا رشتہ مل جائے آنکھ بند کر کے بس اسے قبول کر لیں ۔اور اس معاملے میں غور و خوض نہ کریں ۔ شادی نہایت اہم معاملہ ہے پوری زندگی کا مسئلہ ہے ۔ نہ صرف دنیا کے بننے بگڑنے تک اس کے اثرات محدود ہیں بلکہ آخرت کی زندگی پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ یہ معاملہ نہایت سنجیدہ ہے ۔ شریک حیات کے انتخاب میں سوچ بچار لازمی ہے ۔ سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ آپ کی سوچ بچار اسلام کی روشنی میں ہو ۔انتخاب کا معیار جو اسلام نے بتایا ہے وہی آپ کے پیش نظر ہو اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
اپنی اولاد کے لیے شریک حیات کے انتخاب میں انہی بنیادوں کو سامنے رکھیے جن کو پیش نظر رکھنے کی اسلام نے ہدایت دی ہے ۔ بے لاگ جائزہ لیجیے کہ بچے کی شادی میں کہیں اس لیے تو تاخیر نہیں ہو رہی کہ آپ نے یا اولاد نے انتخاب میں کچھ ایسی باتوں کو اہمیت دے رکھی ہے ۔جن کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ آپ اور باتوں کو اس لیے اہمیت دے رہے ہیں کہ سماج میں عام طور پر انہی باتوں کو اہمیت دی جا رہی ہے ۔یا آپ کو اس لیے ان پر اصرار ہے کہ آپ نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات و ہدایات کیا ہیں ۔ رشتے کے انتخاب کا معیار : عام طور پر بچوں و بچیوں کے رشتے کے لیے پانچ چیزیں پیش نظر رہتی ہیں ۔
1مال و دولت 2حسب و نسب 3حسن و جمال 4دین و اخلاق 5تعلیم
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پانچوں باتیں اپنی جگہ بہت اہم ہیں ۔ مال و دولت کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے بالخصوص اس دور میں ۔ خاندان اور حسب و نسب بھی بعض پہلووں سے نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہیں ۔ بعض خاندان یا برادریاں جو عرصہ دراز سے پس ماندہ ہیں ان میں بعض معاشرتی ، ذہنی و اخلاقی پہلووں کے لحاظ سے کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور خود معاشرے، انداز فکر اور سلوک و برتاو کا فرق بعض اوقات اس درجہ اثر انداز ہوتا ہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی ۔
انتخاب میں حسن و جمال کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اور لڑکی کے انتخاب میں تو خاص طور پر یہی چیز فیصلہ کن ہوتی ہے ۔اس سے انکار کی گنجائش ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ذوق و جمال دیا ہے اور ’’احسن‘‘ بنایا ہے اور خوب صورتی پسند کرنے ہی کی چیز ہے ۔ مگر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ’’صرف اور صرف خوب صورتی کو اہمیت دی جائے ‘‘اور باقی باتوں کو چھوڑ دیا جائے ۔
تعلیم کی اہمیت و ضرورت بھی مسلم ہے اور دور حاضر میں تو تعلیم اور ڈگری کا رشتے کے معاملے میں خصوصی خیال رکھا جانے لگا ہے۔اوریہ بھی ہے کہ اونچی تعلیم حوصلوں کو بلند کرتی ہے ۔ تہذیب سے آراستہ کرتی ہے۔عزت و احترام کا ذریعہ بنتی ہے ۔ خوش حال زندگی اور سماج میں وقعت و عظمت کا سبب بنتی ہے ۔
رہا دین و اخلاق کا معاملہ تو ظاہر ہے مسلمان کے نزدیک اس کی اہمیت اور قدر تو ہوناہی چاہیے۔مسلمان والدین یہ کیسے گوارہ کر سکتے ہیں کہ وہ زیر تجویز فرد میں سب تو دیکھیں لیکن اس اہم پہلو کو نظر انداز کر دیں یا اسے کوئی اہمیت نہ دیں ۔
اگر آپ کو ایسا جوڑ مل جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں تو یقین کیجیے کہ یہ خدا کی خصوصی نوازش ہے مگر عام حالات میں یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہر رشتے کے لیے آپ کو یہ ساری خوبیاں یکجا مل جائیں ۔ کسی میں کچھ خوبیاں ملیں گی تو کچھ خرابیاں بھی ہوں گی ۔اور اصل امتحان یہی ہے کہ آپ ان خرابیوں کو خوبیوں میں کیسے تبدیل کرتے ہیں ۔کیونکہ شادی گھر بسانے کے لیے کی جاتی ہے۔اگر میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے اور ضد پر اڑ جانے کی بجائے درگزر اور ایثار کا رویہ اپنائیں تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اس بے راہ روی طوفان سے سب کو بالخصوص نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کو بچائے ۔آمین ثم آمین۔اور والدین سے بھی مودبانہ گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں و بچیوں کی شادی میں تاخیر کرنے کی بجائے ان کی شادیوں میں جلدی کریں تاکہ اس بے حیائی و بے ہودگی کے طوفان سے ان کے بچوں و بچیوں کی عزت و عصمت محفوظ رہے ۔ آمین ثم آمین