فاطمہ حنیف
خزاں اور بہار کی دوڑ دھوپ میں، سرد وگرم کی ڈھلتی شاموں میں عمر رواں کے 22 سال ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ان مہکتی بہاروں میں بیتے شب وروز بچپن کی معصوم چاہتوں،کھلونوں کی رنگینیوں اور لڑکپن کی شوخیوں ،کامیابیوں کے سہرے اور عروج وزوال کا سفر قضاء قدر کے فیصلوں سے مکمل ہوچکا تھا ۔کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں ،کہیں بھیگی پلکوں میں خوشی غمی کے ملے جلے جذبات،کہیں زرد پتوں میں اداس شامیں،کہیں غموں کے نوحے اور کہیں خوشی کی محفلیں ۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے :
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
حسن بصری فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔ نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے: ”اللّٰھُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔
ماضی کا احتساب
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
آگے کا لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورہٴ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱) ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
نیز امتِ مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ قمری سال اور ہجری سال کی تاریخوں کو یاد رکھے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: چونکہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے؛ اس لیے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے؛ لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بہ وجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بُد افضل و احسن ہے۔ (ماخوذ از بیان القرآن ص: ۵۸ ، ادارئہ تالیفات اشرفیہ پاکستان) اس لیے ہمیں اپنی اس تاریخ قمری کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔