قابل عزت یا لائق شرمندگی
اہلیہ محمد عبید خان
اففف۔۔۔ پھر وہی طعنہ !!عائشہ نے کُڑھ کر سوچا۔آنکھوں میں ایک دم نمی سی آئی ،پھر سر جھٹکا،زیر لب استغفار کیا اور ہنڈیا بھوننے کی جانب متوجہ ہوگئی ۔
لیکن وقتاً فوقتاً پڑنے والی ضرب سے دماغ متاثر ہوچکا تھا۔
”وما علینا الاالبلاغ “۔ ایک نرم و شفیق سی اختتامی آواز سنائی دی۔
آپس کی چہ مگوئیوں ،جوتے پہننے ، دروازہ کھلنے اور بند ہونے جیسی کئی آوازیں آتی رہیں لیکن عائشہ اسی طرح سوچوں میں گم تھی۔
”عائشہ!!“ آخر خدیجہ باجی کو مخاطب کرنا پڑا۔
”جی باجی جان“ عائشہ چونک کر فوراً اُن کی جانب متوجہ ہوئی۔
”خیریت ہےبچے؟ کچھ دل گرفتہ سی محسوس ہورہی ہیں“ اِس بار خدیجہ باجی کی صرف نرم آواز ہی نہیں ،پُر شَفقت لَمَس کی گرماہٹ بھی عائشہ کو اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی ۔
”جی باجی، بس!“ عائشہ بات کرتے ہوئے ہچکچائی (اُن کی مصروفیت کا بھی خیال آیا کہ ابھی تو ڈیڑھ گھنٹے کا درسِ قرآن دیا ہے،اب تو اُن کے شوہر کے آنے کا بھی وقت تھا)
”بولو بچے!! ثمامہ کے بابا آج دیر سے آئیں گے“باجی نے اپنے چار سالہ بیٹے کا نام لیا، شاید اُس کی ہچکچاہٹ کی وجہ بھانپ لی تھی ۔
”باجی!یہ مرد ہمیں عقل کی کوجی،کم عقل،جاہل ہونے کا طعنہ کیوں دیتے ہیں؟ اور پھر اپنی بات کے ثبوت میں آپﷺ کی حدیث مبارک بھی پیش کرتے ہیں کہ آپﷺ نے عورتوں کو ”ناقصۃ العقل والدِّین“ کہا ہے“ گہری سانس لے کر عائشہ نے آخر کار اپنا مسئلہ ذکر کرہی دیا۔
”اور میں یہ بھی سوچ رہ تھی باجی! اگرہم کم عقل ہیں بھی، تو اللہ کو سب پتا ہے کہ کس طرح کے لوگ آئندہ آئیں گے وہ اس طرح کے الفاظ کے ذریعے اسلام پر طعن اور عورتوں کو ڈی گریڈ کریں گے تو اس کو بیان ہی نہ کیا جاتا ۔ اورباجی! میں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہ رہی بس یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ کم پڑھے لکھے اور دین سے بے زار افراد تو ایک جانب ،اکثر پڑھے لکھے ، دین سے واقفیت رکھنے والے لوگ بھی اس بات کے ذریعے عورت کو طعنہ دیتے ہیں “عائشہ کے لہجے میں کچھ خفگی پائی جا رہی تھی ۔
”دیکھو عائشہ! اصل حدیث مبارک اور اس کا عام فہم مطلب میں بعد میں بیان کروں گی پہلے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسلام عورت کو کیا مقام دیتا ہے ؟ اور جس عظیم ہستی آقاﷺ نے عورت کے متعلق ”ناقصۃ العقل“ کے الفاظ ارشاد فرمائے ، دیگر مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو کیا مقام دیاہے؟“ خدیجہ باجی نے تحمل سے اس کی بات سن کر جواب دینا شروع کیا۔
٭یہ عورت ہی ہے جس کو ماں کے مرتبے پر فائز کرکے اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھا ۔
٭اُس کو ”اُف“ تک کہنے سے بھی منع کیا۔
٭ اس کا حقِ خدمت باپ کے نسبت تین گناہ زیادہ مقرر کیا ۔
٭عورت کوبیٹی کا درجہ ملا،تو اس کو زندہ درگو ر ہونے سے بچایا ، نرینہ اولاد کو اُس پر فوقیت دینے سے منع فرمایا۔اس کی بہترین تربیت کرنے والے سے جنت کا وعدہ کیا گیا ،سعادت مند بیٹی کو باپ کے لیے جہنم سے آڑ بنایا ۔
کیا قرآن فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ؓ کی قربانی کا ذکر نہیں کرتا؟ کیا حضرت مریم ؑکی پاکدامنی کی تعریف نہیں کرتا؟
*عورت اگر بیوی کے روپ میں ہے تو مردکےسکون کا ذریعہ بتایا۔ نیک ،سعادت مند بیوی کو ،مرد کا بہترین نفع قرار دیا۔
آپ کا نام(باجی نے عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) آپ ﷺ کی سب سے محبوب بیوی کے نام پررکھا ہوا ہے،کیا سیرت عائشہؓ کا مطالعہ آپ نے نہیں کیا کہ کیسے آپﷺ نے اپنی بیوی کے لاڈ اٹھائے !ان سے مشورے لیے ،ان کا مان بڑھایا۔
وہ واقعہ تو بہت مشہورہے کہ آپﷺ نے فرمایا”تم مجھے مکھن ملی کھجور سے بھی زیادہ محبوب ہو“
امی عائشہ ؓ نے فرمایا:”اے اللہ کے نبی! آپ ﷺ مجھے مکھن اور شہد ملا کر کھانے سے زیادہ محبوب ہیں “
آپﷺ نے فرمایا”حمیرا !تمہارا جواب میرے جواب سے زیادہ بہتر ہے “
عائشہ! اگر عورت نامی مخلوق کو آپﷺ اتنا ہی کم عقل و کمتر مانتے تو امی عائشہ کے جواب کی تعریف کیوں فرماتے ؟
اور پہلی بیوی ،حضرت خدیجہ ؓ کا تذکرہ تو ہمیشہ ہی آپ کو غمگین و پرنم کردیا کرتا تھا ۔ان سے اپنے اہم امور میں مشورہ لیا کرتے تھے ، ان کے کارنامے،وفائیں تو آپ اپنی دیگر ازواج مطہرات کے سامنے بھی بطور تشکر بیان فرمایا کرتے تھے۔
*کیا حضورﷺ مَردوں کو عورتوں کے متعلق” خیر کی وصیت“ کرتے ہوئے نہیں پائے گئےاور اپنے گھر والوں کے لیے اپنا سب سے بہترین ہونا بیان کیا!!خیر کم ،خیرکم لاھلہ وانا خیر کم لاھلی۔ (تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہوں)۔
*حضرت ام سلمہ ؓکے شکوے پر کہ قرآن میں صرف مَردوں کو مخاطب کرکے احکام دیے گئے ہیں عورتوں کو مخاطب ہی نہیں کیا گیا اس پر قرآن میں سورت احزاب کی آیت 35کا نزول فرما کر عورتوں کا مان بڑھایا گیا ۔
*صلح حدیبیہ کے موقع پر جب احرام کھولنے کی ضرورت پیش آئی تو اپنی اہلیہ ام سلمہ ؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنا احرام پہلے کھولا ،کیا عورت کو کم عقل سمجھنے والا شخص ،ایسے نازک موقع پر عورت کے مشورے پر عمل کرسکتا تھا؟
*کیا یہ سب واقعات یہ ظاہر نہیں کررہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے حقیقی معنیٰ میں عورت کو عزت دی،مان دیا ، اس کا مقام و مرتبہ بڑھایا ؟“یہاں تک کہ کر خدیجہ باجی نے اپنے سامنے موجود بخاری شریف کی کتاب کھول کر مطلوبہ حدیث نکالی۔
”اب میں آپ کے سامنے پہلے مکمل حدیث مبارک نقل کردیتی ہوں ،یقیناًآپ نے حدیث مبارک کا مختصر جملہ ہی سنا ہے ، اس کے سیاق و سباق سے ناواقف ہوں گی۔“ باجی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا
آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا اے عورتوں کی جماعت تم صدقہ وخیرات کرو کیوں کہ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ہے (یہ سن کر) عورتوں نے کہا یا رسول اللہ اس کا سبب آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رہتی ہو اور میں نے عقل ودین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر
کسی کو نہیں دیکھا یہ سن کر عورتوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہماری عقل اور ہمارے دین میں کمی کیسے ہے آپ ﷺنے فرمایا کیاایک عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں یعنی کیا ایسا نہیں ہے کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے ان عورتوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے آپ ﷺنے فرمایا یہی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے پھر فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حیض کی حالت میں ہوتی ہے نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے ان عورتوں نے کہا ”جی ہاں! ایسا ہی ہے آپ ﷺنے فرمایا ”یہ ان کے دین میں ناقص ہونے کی دلیل ہے
دیکھو عائشہ ! سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اس حدیث مبارک میں کم از کم ہر مرد کو عقل کل،یا کامل ہونے کی سند نہیں دی گئی ۔بلکہ اس کے برعکس عورت کے ایک قوی پہلو کو ذکر کیا گیا کہ عقل میں کمزوری کے باوجود ہوشیار مرد کو ٹریپ کرلیتی ہے ۔ مفہوم ِحدیث کے اس انوکھے پہلو کو ذکر کرتے ہوئے بے ساختہ خدیجہ باجی اور عائشہ زیر لب مسکرائیں۔
دوسرا عورت کی عقل میں کمی کی وجہ سے اس کی گواہی کو اکیلے قبول کرنے کی بجائے مزید ایک عورت کے ساتھ قبول کیا گیا اس پر ہی غور کیا جائے تو یہاں بھی عورت پر شفقت کا پہلو غالب ہے یہ تو عورت پر ظلم تھا کہ گھریلو ذمہ داریوں اور بچوں کی تربیت کے ساتھ خارجی امور کا بوجھ بھی اس تنہااٹھانے کے لیے دیا جاتا ۔پھر عدالتی کاروائیوں سے کون ناواقف ہے گھر کی ذمے داریاں زیادہ نازک ہوتی ہیں کئی لوگوں کے مزاج کا خیال کرنا پڑتا ہے لہذا بھولنے کا خطرہ بھی رہتا ہے ایسے میں شریعت اسے مددگار فراہم کرتی ہے یعنی نہ ہی بالکل گواہی کے لیے نااہل قرار دیا نہ ہی گھر سے باہر کے معاملات کا تنہا بوجھ ڈالا ، معاونہ کا میسر آجانا تو احسان و عطیہ شمار کیا جاتا ہے بھلا عطیہ کی ہوئی چیز بھی طعنہ بن سکتی ہے ؟
مزید آپﷺ کا یہ انداز تو عورتوں کے حق میں سفارشی سا محسوس ہوتا ہے کہ تم(مرد) قوّام ہو ،عورت کے اوپر نگران ہو ،کبھی عورت شدت جذبات سے مغلوب ہو کر کوتاہ فہمی کی بنیاد پر تم سے زیادتی کرجائے تو وہ کوئی تمہارے برابر کی نہیں ،جس سے تم لڑو گے، نہ تم پر قوّام ہے کہ اس کے آگے جھکنا ،نفس کو گوارا نہ ہو ، بلکہ وہ تو تم
سے کمزور ہے،کم عقل ہے، درگزر کرجاؤ، اپنے سے کمزور کو دبا لینا تو پہلوانی نہیں ،بالکل ایسے جیسے ایک نادان بچے کی سفارش کرتے ہوئے کہا جائے کہ” کم عقل،نادان ہے معاف کردیں“اس سے بچے کی حقارت بیان کرنا نہیں بلکہ سفارش کرنا مقصود ہوتا ہے “ خدیجہ باجی کے عام فہم اندازِ بیاں اور مثالی انداز سے عائشہ نے اپنی ذہن کی گِرہوں کو سلجھتا ہوا پایا۔
”باقی آپ کا یہ کہنا !کہ اللہ نے عورت کی یہ کمزوری ،بزبان رسولﷺ بیان ہی کیوں کیا ؟ جبکہ لوگوں کی کج فہمی بھی اللہ کو خوب معلوم ہے۔ تو دیکھیں! اللہ کے ہر کام میں حکمت و مصلحت ہے ،ایسی آیات و احادیث کے ذریعے سے بھی لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے ،جب کفار مکہ ، قرآن میں مکھی،مچھر ،مکڑی وغیرہ کی مثالیں سنتے تھے تو ایسے ہی مذاق اڑاتے تھے کہ اتنے اعلیٰ کلام میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر کرنے کا کیا مقصد؟جبکہ ایمان والے ان مثالوں کے مقصد کو سمجھ کر اپنے یقین میں اور اضافہ کرتے ہیں“
یا د رکھو بچے! جس کے اندر تعصب ہوگا اس کاسوچ و بچار سے کوئی کام نہیں، آپ اس کے سامنے دنیا جہاں کی مثالیں اور وضاحتیں بھی رکھ دیں گے وہ نہیں مانے گا ،الا ماشاء اللہ ۔ کیونکہ کچھ لوگوں کا مقصد زندگی ہی شاید یہ ہے قرآن و حدیث میں بیان کردہ احکام پر اعتراضات گھڑے جائیں مگر یاد رکھنا چاہیے :
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
رہ گئے وہ مرد ،جو اس کے ذریعے سے خود کو عقلِ کل اور عورت کو کم عقل سمجھتے ہیں ، انہیں یاد رکھنا چاہیے
سورت حجرات کی یہ آیت اسلامی اقدار کے مطابق بہترین تربیت کرتی معلوم ہوتی ہے:
”اے ایمان والوں! تم میں سے کوئی قوم کسی قوم کامذاق نہ اڑائے شاید کہ وہ ان سے بہتر ہوں، نہ کوئی عورت کسی عورت کا، شاید کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، نہ آپس میں کسی کو طعنہ دو ،نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو “( حجرات :11)
عورت و مرد دونوں اللہ کی خوبصورت تخلیق ہیں ،معاشرے کی مضبوط اکائی ان کے دَم سے ہی قائم ہے۔کسی کو بھی دوسرے کے لیے تحقیر بھرے انداز سے مخاطب کرنا، یا کسی آیت و حدیث کا کوئی مفہوم اخذ کرکے طعنہ زنی کرنا ہرگز جائز نہیں “ خدیجہ باجی نے اپنی بات مکمل کرکے عائشہ کی جانب دیکھا ،جس کے چہرے پر تشکر بھرے تاثرات تھے ۔عائشہ نے اطمینان و سکون کی لہر اپنے وجود میں سرایت ہوتے محسوس کی۔
”جزاک اللہ خیراً کثیراً باجی جان !“عائشہ نے ان کا گرمجوشی سے شکریہ ادا کرتے ہوئے الوداعی سلام کیا اور گھر کی جانب چل دی۔ ابھی اسے یہ پیغام آگے بھی تو پہنچانا تھا۔