نکاح کب فرض کب واجب ہوتا ہے اور کب حرام و مکروہ ؟

ام معاذ

دینِ اسلام کی خاصیت یہ ہیکہ یہ ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ و ڈھنگ سیکھاتا ہے، ہمیں ہماری صورت حال کے پیشِ نظر پیش آمدہ مسائل کا حل دیتا ہے ، انسان کی چونکہ مختلف حالات و کیفیات ہوتی ہیں تو شریعتِ اسلامیہ ہمیں ہماری حالت کے پیش نظر راہنمائی کرتی ہے ، اگر ہم نکاح کو دیکھیں تو شریعت نے بعض حالتوں میں نکاح کو فرض قرار دیا ہے، بعض میں واجب اور بعض اوقات نکاح سنت ہے۔ جیساکہ فقہاء کرام کا فرمانا ہے کہ اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا"سنت" ہےکیوں کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے "النکاح من سنتی" اسی لیے فقہا کرام نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے اورنہ کرنے کے احکام بیان فرمائے ہیں جو درج ذیل ہیں:

٭ فرض٭ واجب٭ سنت مؤکدہ٭ مکروہِ تحریمی٭ حرام

اب ہر ایک کی مختصراً تفصیل ملاحظہ کیجیے۔

فرض: اگر شہوت بہت زیادہ ہوحتی کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کایقین ہو،مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہو،نیز بیوی پر ظلم و زیادتی کرنے کااندیشہ نہ ہو،توایسی صورت میں نکاح کرلینا "فرض" ہے۔

واجب:

نکاح کرنے کا تقاضا ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہو، مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہونیز بیوی پر ظلم وزیادتی کرنے کا اندیشہ بھی نہ ہو، توایسی صورت میں نکاح کرلینا "واجب" ہے۔

سنت موٴکدہ:

عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو،بیوی کے حقوق کوادا کرنے پر قادر ہو،بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو تو نکاح کرنا "سنتِ موٴکدہ" ہے۔

مکروہ تحریمی :

اگر نکاح کرنے کے بعدبیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کا خوف ہو تو ایسی صورت میں  نکاح کرنا"مکروہ تحریمی" ہے۔

حرام:

اگر نکاح کرنے کے بعدبیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کا، یا بیوی پر ظلم و ستم کرنے کایقین ہو یانکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرناہو تو پھر نکاح کرنا "حرام" ہے۔

 (البحرالرائق 3/84 الدرالمختارعلی ردالمحتار:3)

اہم وضاحت :  "نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں ۔

لڑکے پر کیا کیا ذمے داری

نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر، ولیمہ مسنونہ اورمستقل طوپر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے اس لیے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے، کاروبار الگ نہیں ہے یا کوئی اچھی جاب نہیں لگی ہے یا الگ گھر نہیں بنالیا یاولیمے میں خوب رقم خرچ کرنے کی استطاعت نہیں ہے،  یا بہت عمدہ درجے کی بری نہیں بناسکتے اور دیگر رسوم پر خرچ کے لیے اس کے پاس ایک خطیر رقم نہیں ہے تو ان وجوہ کی بنا پر نکاح نہ کرنایانکاح کو موٴخرکرنادرست نہیں ۔

 بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہوتوایسی صورت میں نکاح کو مؤخر کرنا جبکہ انسان کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی ہو تو  سخت گناہ ہوگا ، اپنے ذہن اور جسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہوگی۔

یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ آج کے اس دور میں جب کہ ہر شخص ظاہر شان و شوکت اور نام و نمود کی دوڑ میں ہے تو بسا اوقات لڑکے تو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ انکا نکاح کردیا جائے مگر لڑکے کے والدین مروجہ رسوم کی بنا پر تاخیر کرتے ہیں یا لڑکے کی والدہ اور بہنوں کو وہ گوہرِ نایاب نہیں مل رہا ہوتا جو ان کے گھر کو بھر دے، جو انہیں اور ان کے بیٹے کو خوب صورت تحفے تحائف دیں، جو انہیں ایک بہترین پروٹوکول دیں تو وہ اس بات کو مدِ نظر رکھیں کہ اگر اس دوران ان کا بیٹا کسی گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو  بیٹے کے گناہ میں مبتلا ہونے کا گناہ والد پر بھی آئے گا۔

اسی طرح بسا اوقات بچیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں ،کسی اچھے اور بہترین رشتے کی آس میں اگر وہ اپنے منہ سے یا اشاروں کنایوں سے کہہ دیں تو والدین کو غور کرنا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ"چوں کہ شریعت مطہرہ نے انسانیت کو جنسی بے راہ روی سے بچانے اور  پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کے لیے  نکاح کا حلال راستہ متعین فرماتے ہوئے  ایک طرف ایسے افراد کو نکاح کا حکم دیا ہے، جو اپنی بیوی کے  نان و نفقہ ، رہائش  او ر لباس کی ذمے داری  اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں، تو دوسری طرف بلوغت کے بعد نکاح کرانے میں تاخیر کرنے  سے والدین کو  منع فرمایا گیا ہے،  تاخیر کے نتیجے میں جنسی تسکین کے حصول کی خاطر  اگر اولاد کسی گناہ میں  مبتلا ہوگی تو اس کا گناہ والد کے سر قرار دیا گیا ہے"

نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:”اے علی ! تین کام ہیں جن میں جلدی کرنا چاہئے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے، دوسرے جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے، تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی, حاکم)

اسی طرح  مشکوۃ شریف میں حضرت ابو سعيد اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا"

ان روایات سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ سرپرست کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد نکاح کے قابل ہوجائیں اور ایک اچھا اور مناسب رشتہ بھی موجود ہو تو محض بے بنیاد باتوں کی وجہ سے یا بہتر سے بہترین کی تلاش میں بچوں کا نکاح نہ کرنا ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے جبکہ آج کا میڈیا کا دور جس میں جنسی بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے بد نظری اور گناہ کے مواقع عام ہیں تو اس دور میں اگر مناسب رشتہ مل جائے تو بچوں کا نکاح کردینا بہتر ہے۔

رشتوں کا معیار

شریعت چوں کہ ہمیں ہر چیز سیکھاتی ہے تو ہمیں نکاح کے لیے رشتے کا معیار بھی بتایا گیا ہے۔

نبی کریم صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا”عورتوں سے چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاسکتا ہے اس کے مال کے پیش نظر، اس کے حسب (خاندان) کے باعث، اس کے حسن کی خاطر اور دینداری کے باعث، تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں (یہ جملہ کبھی تعجب اور کبھی تنبیہ وغیرہ کے لیے بولا جاتا ہے) تجھے تو دین دار عورت حاصل کرنا چاہئے“(بخاری)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا!

تم ان سے دین کی بنیادپر شادی کرو کیونکہ ایک کالی کلوٹی کم عقل والی لونڈی بھی اگر دین دار ہو تو وہ دوسری عورتوں سے افضل ہے۔ (حدیث)

مزید ایک جگہ فرمایا:

*”دنیا کی حیثیت ایک متاع ہے اور متاع دنیا میں بہترین چیز نیک عورت ہے“(بہ روایت عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنہ، مسلم)

اب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغامِ نکاح دینے کے وقت یا قبول کرنے میں دین داری کو ترجیح دی جائے کیونکہ دین کا علم اور اس پر عمل بہت بڑی دولت ہے زندگی کو پرلطف و پرسکون بنانے اور اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے لئے دین داری ہی بہتر اور ضروری ہے۔

لہذا جب کسی لڑکے کے لیے لڑکی کی تلاش کی جائے تو اس میں دین داری کو دیکھا جائے محض خوبصورتی، مال و دولت کی بنا پر انتخاب نہ کیا جائے کیونکہ جب عورت نیک دین دار ہوگی تو دین نسلوں میں جائے گا۔۔۔۔۔

اسی طرح فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ لڑکا پانچ چیزوں میں لڑکی کے خاندان کے برابر ہو۔۔

1))نسب میں، نسب میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کا خاندان لڑکی کے خاندان کے برابر ہو( اس میں مزید کچھ تفصیلات بھی ہیں جو ضرورت کے وقت مفتیان کرام سے پوچھی جاسکتی ہیں )

 (2)مسلمان ہونے میں۔

(3) لڑکادینداری و تقوی میں لڑکی کےہم پلہ ہویعنی جو شخص دین کا پابند نہ ہو بلکہ بددین ہوتو وہ نیک و، پارسا عورت کا کفؤ نہیں ہے۔

(4)مال میں، یعنی لڑکا لڑکی کے نان و نفقے پر قادر ہو اور دونوں کی مالی حیثیت میں اتنا زیادہ فرق نہ ہو جو لڑکی کیلئے باعث شرمندگی ہو۔

(5)پیشے میں،یعنی لڑکے کا پیشہ معاشرہ میں بہت زیادہ گرا ہوا نہ ہو،مثلا ایک موچی یا حجام اچھے گھرانے کی لڑکی کا یاڈاکٹر و انجینئرلڑکی کا کفو نہیں ہے۔

اس تمام تفصیلات کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شریعت ہم سے کس چیز کا مطالبہ کرتی ہے؟ ہماری ترجیحات نکاح کرتے وقت کیا ہونی چاہیے؟؟  اگر ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر اور غور کرکے پھر عمل کریں تو ہمارے لیے زندگی کے بہت سے معاملات آسان ہوجائیں۔۔

نوٹ:اگر والد/ولی لڑکی کا نکاح خود پڑھوائیں تو نکاح کے صحیح ہونے کیلئے کفؤ ضروری نہیں ہے،تاہم بہتر و مناسب ضرورہے۔