ام محمد سلمان

 سسرالی رشتوں پر بات چل رہی تھی اور جیسے ہی عظمیٰ نے کہا:

 ”بھئی میری نند تو بہت اچھی ہے ماشاءاللہ!“ وہیں سب کی سٹی گم ہو گئی۔

 

”ارے ارے پھر سے کہنا ذرا ۔۔ کیا کہا تم نے؟ تمہاری نند بہت اچھی ہے!! کیا واقعی اچھی ہے!!! یا اللہ اس زمانے میں اچھی نندیں کہاں پائی جاتی ہیں۔ مجھے تو شدید حیرت ہو رہی ہے سچی!“

 فرزانہ نے کچھ ایسے منہ بنا کے کہا کہ ہم سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔

 

عظمیٰ اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے دوبارہ بولی:

 ”ہاں بھئی میری نند واقعی بہت اچھی ہیں۔ میں نے آج تک ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔“

 

”مطلب ۔۔ کیا اچھائی ہے ان میں ؟ ایسی کیا خوبیاں ہیں کہ وہ تمہیں اتنی اچھی لگتی ہیں؟“ میں نے بھی قدرے شوق سے پوچھا۔

 

تب لبنیٰ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔ 

"بھئی پہلی بات تو یہ کہ وہ ہمارے کسی معاملے میں مداخلت نہیں کرتیں۔ ہم جو کریں ہماری مرضی۔ دوسری بات یہ کہ وہ ہم سب سے بہت محبت کرتی ہیں۔ ہمیں تحفے تحائف دیتی ہیں، دعوت کرتی ہیں اپنے گھر بلاتی ہیں، خود بھی ہمارے ہاں آتی رہتی ہیں۔ ہم تین بھابیاں ہیں، وہ سب سے ملتی ہیں مگر کبھی کسی ایک کی بات دوسرے سے نہیں کہتیں۔ تینوں بھائی ماشاءاللہ اپنی بہن سے بہت خوش رہتے ہیں اور سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ “

 

”اللّٰہ! کتنی خوش قسمت ہو تم سچی! ایک میری نندیں ہیں اففف۔۔۔!! ایسی بی جمالو ہیں کہ کیا بتاؤں ۔۔۔ جب تک دو چار گھروں میں اپنی زبان سے آگ نہ لگا دیں چین سے بیٹھتی ہی نہیں! بھئی میکے آتی ہیں تو سو بسم اللہ۔۔۔ آؤ بیٹھو، کھاؤ پیو، ہنسو بولو اور جاؤ اپنے گھر ۔ مگر یہ کیا کہ ہماری ساس کو گھیر کے بیٹھ جاتی ہیں اور خوب ہمارے خلاف کان بھرتی ہیں۔ خود تو چلی جاتی ہیں اور پیچھے ہماری ساس اور میاؤں جیسے میاں کا منہ بن جاتا ہے۔“ فرحت نے نندوں کے لیے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

 

”ارے ارے!! میاں کو ”میاؤں“ کہہ رہی ہو کچھ شرم کرو فرحت!“  میں نے جلدی سے ٹوکا ۔

 

”ایسے میاں، میاؤں ہی ہوتے ہیں جو دم ہلاتے پھرتے ہیں اپنی اماں بہنوں کے پیچھے اور بیوی کا کچھ خیال نہیں کرتے۔“

 

”بات تو تمہاری ٹھیک ہے فرحت! میاں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن بیوی کو بھی تو میاں کو میاؤں نہیں کہنا چاہیے نا۔ تم بھی تو کچھ خیال کرو۔“ 

"ہونہہہ! رہنے ہی دو بس!"

 جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ

من کی پیڑا جانے، جس کے جی کو لاگا روگ

فرحت نے منہ کے زاویے بگاڑے اور بڑی لے میں شعر پڑھا۔ جس پہ گزرتی ہے نا! وہی جانتا ہے کوئی دوسرا اس دکھ کا اندازہ نہیں کر سکتا۔“

 

”اچھا بھئی اچھا! ہمارا کیا ہے! میاں کو میاؤں کہو یا مگر مچھ ۔۔۔ ہمیں کیا!“ میں نے کندھے اچکائے۔ 

 

”ارے بھئی میاں کو تھوڑی کچھ کہا ہم تو اپنی ان پھاپھا کٹنی نندوں کو کہہ رہے تھے۔ زندگی حرام کر کے رکھی ہوئی ہے سچی! ہر پندرہ دن بعد ڈولا کسا رہتا ہے اماں کے گھر کا۔ بھئی ٹھیک ہے میکے آنے کو کس کا جی نہیں چاہتا، ہم بھی جاتے ہیں مگر ایسے تھوڑی کہ بھاوجوں کا ناک میں دم کر کے رکھ دو۔ میکے میں رہنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں بھئی۔ اب ایسا تو نہیں کہ بھاوج کو نوکرانی اور اپنے بچوں کی آیا سمجھ لو۔

آئیں گی۔۔۔ بچوں کو ہمارے سر پہ پٹکیں گی اور سیر سپاٹوں کو نکل جائیں گی۔ پیچھے ہم ان کے بچوں کی ناک صاف کرتے رہیں، پیمپر بدلتے رہیں اور انھیں چپس تل تل کے دیتے رہیں. کبھی نوڈلز بنا کے کھلاتے رہیں، کبھی ان کے جھگڑے نمٹاتے رہیں۔ اگر پندرہ دن رہیں گی تو پندرہ دن تک ہم ہی ان کے کپڑے دھو کر دیں اور سارا پھیلاوا بھی سمیٹیں۔ کھانے بھی پکائیں اور چائے ناشتے بھی کراتے رہیں۔۔۔“ فرحت اپنا دکھڑا رونے لگی۔

 

”حد ہو گئی بھیا! ایسی نندوں پر تو ایف آئی آر کٹنی چاہیے خدا قسم! بھاوجوں کا جینا حرام کیے دیتی ہیں۔ ان کی اماں کچھ نہیں سمجھاتیں بجھاتیں انھیں؟“ زیتون نے صدمے کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے پوچھا۔

”ہونہہہ! اماں ہی کی تو ڈھیل ہے!“ فرحت نے روہانسی ہو کر کہا۔

 

”یا اللہ ۔۔ مجھے تو یقین کرنا مشکل ہے یہ تمہاری نندیں کس سیارے کی مخلوق ہیں؟ کیا آج کل کے دور میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اتنی زیادتی کون برداشت کرتا ہے! اور تمہارا میاں کیا کاٹھ کا الو ہے جو یہ سب کچھ دیکھتا رہتا ہے اور پھر بھی ان کی طرف داری کرتا ہے۔ توبہ توبہ کیسی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے بھیا۔۔۔!“ زیتون نے جلتی پہ تیل چھڑک کر کانوں کو ہاتھ لگائے ۔

 

****

 

میں گھر آئی تو کھانا بناتے ہوئے یہی باتیں کانوں میں گردش کرتی رہیں۔ اور یہ ہو نہیں سکتا کہ نندوں کی بات چھڑے اور اپنی نندیں یاد نہ آ جائیں۔ ہمارے گھر میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ نندیں رہنے کے لیے آئیں تو ان کی ساری ذمے داری بہو پر ڈال دی جائے۔ منجھلی نند کے ماشاءاللہ کئی بچے تھے۔ اور میری ذمے داری تو بس کھانا بنانے اور چائے ناشتے تک محدود تھی۔ وہ اپنے بچوں کو خود سنبھالتیں، ان کے کپڑے خود دھوتیں، نہلانا دھلانا سب کچھ خود ہی کرتیں۔ اپنے بچوں کی پھیلی چیزیں خود ہی سمیٹ کر رکھتیں۔ اس لیے ان کا وجود کبھی بھاری نہیں لگا۔ پھر بچے بڑے ہو گئے تو میکے میں چھٹیاں گزارنے کی روٹین کم ہوتی چلی گئی۔ بس ایک دن کے لیے آتیں، رات گزار کے دوسرے دن شام کو واپس چلی جاتیں۔ ہمارا یہ وقت بہت اچھا گزرتا۔ کھانا کھانے کے بعد نند کی بچیاں خود ہی دستر خوان اٹھاتیں اور میرے ہزار منع کرنے کے باوجود برتن بھی دھو کر رکھتیں۔ کھانا کھاتے ہوئے تعریف کرتیں، سراہتیں تو میرا سیروں خون بڑھ جاتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مہینے کا آخر چل رہا تھا وہ لوگ اچانک آ گئیں۔ گھر میں چاول ہی موجود تھے بس۔ میں نے آلو کے چاول بنا لیے۔ ایک پاؤ سوجی منگا کے سادہ سا حلوہ بنا لیا۔ وہ اس پر بھی اتنی خوش اور شکر گزار تھیں کہ حد نہیں! بار بار کہتیں ۔۔۔

”بھابھی آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ ہمیں اس کھانے میں بھی بہت مزہ آیا۔ آپ کے ہاتھ کے آلو کے چاول بھی بریانی جیسے ہیں۔“

شام کو جب وہ جانے لگتی تھیں تو میرا دل بے حد اداس ہونے لگتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ ہماری آپس میں بہت محبت تھی۔ انھیں آئے ہوئے زیادہ دن ہو جاتے تو میں خود فون کر کے بلاتی۔

 

بڑی دونوں نندیں ایک ہی گھر میں بیاہی تھیں تو دونوں ساتھ ہی آیا کرتی تھیں۔ بڑی نند کو اچھے کپڑوں اور کٹ شٹ میں رہنے کا شوق تھا ماشاءاللہ! میں بھی ان کے کپڑوں اور حلیے کی تعریف کر دیا کرتی تھی۔ ایک بار آئیں تو کہنے لگیں۔۔۔ 

”تم نے دیکھا نہیں میں کتنی دبلی، کتنی اسمارٹ ہو گئی ہوں!!“ انھوں نے اپنے سراپے پہ ایک فخریہ نظر ڈالی.

میری رگ ظرافت پھڑکی اور انھیں چھیڑ دیا ۔۔۔

”ارے باجی! آپ دبلی ہوگئیں! لگ نہیں رہا ویسے۔ وہ دراصل بات یہ ہے کہ جب کوئی موٹا بندہ تھوڑا سا کمزور ہو جائے تو پتا کہاں چلتا ہے۔۔۔!!“

”ٹھہرو تمہیں بتاتی ہوں! مجھے بہانے بہانے سے موٹی کہہ رہی ہو تم۔“ انھوں نے ایک ہوائی مکا دکھایا۔۔۔ مجھے تو خیر ہنسی آنی ہی تھی، خود بھی دیر تک ہنستی رہیں۔

 

ویسے اکثر ڈانٹ بھی دیتی تھیں کسی نہ کسی بات پہ! لیکن ان کا ڈانٹنا بھی برا نہیں لگتا تھا۔ اور ویسے بھی جب بڑوں کو بڑا تسلیم کر لیا جائے تو ڈانٹ بری کہاں لگتی ہے! بڑوں کو مان ہوتا ہے چھوٹوں پر ۔۔۔ اسی مان کے سہارے ڈانٹ ڈپٹ کر دیتے ہیں کبھی۔ بس چھوٹوں کو مان رکھنا آنا چاہیے۔ ان کی ڈانٹ کو ان کی محبت و شفقت پر محمول کرنا چاہیے۔ زندگی آسان اور خوش گوار ہو جاتی ہے۔ (بڑے جب نہ رہیں تو انسان اس ڈانٹ کو بھی ترس جاتا ہے۔)

 

حقیقت میں نند بھاوج کا رشتہ بڑا ہی پیارا رشتہ ہے۔ ایک ہی مرد کے دو قریبی رشتے۔ ایک بہن، ایک بیوی۔ بیوی سمجھ دار ہو تو جان لیتی ہے کہ وہ بہنیں ہی ہوتی ہیں جن کے گھر آنے سے شوہر نامدار بے انتہا خوش ہوتے ہیں۔ جن پر میاں دل کھول کے خرچ کرتے ہیں، ان کے پاس گھنٹوں بیٹھتے ہیں، دل کی باتیں کرتے ہیں اور گھر میں بہار سی آجاتی ہے۔  دوسری طرف بہن کو بھی سمجھنا چاہیے کہ بھابھی کے دم سے میرے بھائی کے گھر اور دل میں رونق ہے تو مجھے اس رشتے کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی کسی حرکت سے ان کے درمیان ناچاقی نہیں پیدا کرنی چاہیے۔ اگر بھائی کے دل میں اپنی بیوی کی طرف سے میل آ گیا تو سکون کس کا تباہ ہوا ؟؟؟ بھائی کا نا۔۔۔!!! تو کون عقل مند بہن اپنے بھائی سے دشمنی کرے گی۔

 

**

 

 رشتے دو طرفہ محبت اور اپنائیت سے نبھائے جاتے ہیں۔ ایک ہی طرف سے اچھے کی امید رکھی جائے اور دوسری طرف کوئی تعاون کے لیے تیار نہ ہو تو رشتے کبھی دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، نقصان پہنچانے کے در پہ رہنا، طعنے تشنے دینا، خواہ مخواہ کی امیدیں لگانا ۔۔۔ یہ سب چیزیں رشتوں کو توڑنے والی ہوتی ہیں۔ رشتے ناتے اللّٰہ کے لیے نبھائے جائیں تو پائیدار رہتے ہیں۔ پھر بدلے کی تمنا نہیں ہوتی۔ کوئی تھوڑا بھی کرے تو بہت لگتا ہے۔ (اور آخرت کا اجر اپنی جگہ محفوظ جب کہ دنیا میں بھی زندگی بھلی ہو جاتی ہے۔)

 

ہمیشہ ایک دوسرے کا بھلا چاہیں. ایک دوسرے کی خوشی کو مقدم سمجھیں۔ چھوٹی چھوٹی ناگوار باتوں کو نظر انداز کریں۔ بے جا امیدیں نہ لگائیں۔ ایک دوسرے کو اہمیت، عزت و احترام دیں تو ہی رشتے خوش اسلوبی سے پنپتے ہیں۔ ان پہ بہار آتی ہے اور پھل پھول دیتے ہیں۔