تحریر : ام حمزہ بشکریہ گلستان ادب
انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی نہ کسی سے ضرور محبت کرنا چاہتا ہے اور بہت ٹوٹ کے کرنا چاہتا ہے۔ اپنا جان مال فدا کر دینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس جذبے کی قدر کی اور ایک ایسی ذات سے روشناس کروایا جس کی محبت ایمان کا حصہ بنا دی گئی بلکہ ایمان کی کاملیت کو ہی اس محبت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ ہی وہ پاکیزہ اور بابرکت ہستی ہیں ۔
مدینہ طیبہ سے واپسی پر دل رب کے حضور احساسِ تشکر سے لبریز تھا کہ جس نے اتنی پیاری ذات محبت کرنے کے لیے دی... تب انداز ہوا کہ رسول کریم کو اللہ کا سچا نبی جانتے ہوئے بھی ایمان نہ لانے والے یہودی کیوں حسد کی آگ میں جل رہے ہیں... ان کے پاس محبت کرنے کے لیے کوئی ہستی نہیں! اس سے بڑی حسد کی کیا وجہ ہوسکتی ہے! انھوں نے خود اپنے انبیاء کرام کی توہین کی ، ان کی تکذیب کی اور قتل کیا! مگر آج تک دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی اپنے نبیﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت ان کے منہ پر طمانچہ بن کر پڑتی ہے شاید حسد اوربغض میں وہ گستاخی کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ۔
آخر ہمیں رسول اللہ سے اتنی گہری اتنی شدید محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ اس بات کا جواب ہمیں اسی وقت مل سکتا ہے جب ہم سیرت کا گہرائی سے مطالعہ کریں. جب تک اپنے محبوب نبیﷺ کی حیات طیبہ کے بارے میں جانیں گے نہیں، تب تک ان سے محبت کا حق ادا کر ہی نہیں سکتے۔
وہ واقعہ یاد کرنا چاہیے جب حضرت عمرؓ نے آکر اللہ کے رسول ﷺ سے اپنی محبت کا اقرار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ اے عمر! کیا اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے ہو مجھ سے؟ تب عمرؓ خاموش ہو گئے، لوٹ گئے، اپنا محاسبہ کرتے رہے اور پھر دوبارہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! اب میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں عمرؓ! اب تمہاری محبت مکمل ہوئی ہے۔
وہ ذات جو ساری ساری رات جاگ کر اس امت کی مغفرت کے لیے دعائیں کیا کرتی، اس امت کے درد میں اتنا روتی کہ سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی سی آوازیں آتی تھیں۔ جن کے لیے اللہ تعالیٰ کو قرآن میں تسلی کی آیات نازل کیں کہ آپ ان کے غم میں خود کو ہلکان مت کیجیے۔
ہمیں اللہ کی محبت کی راہ دکھانے والے، بندگی کے طریقے سکھانے والے،اللہ کا پیغام مِن و عَن ہم تک پہنچانے والے... اور ہمیں قربِ الہی کے درجات دلانے والے... ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہی تو تھے۔ پھر اس پر خود رب العالمین نے یہ کہہ کر مہر لگا دی : النبی اولی المومنین من انفسہم. کہ نبی (محمدﷺ) تم پر تمہاری جانوں سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں۔ اور پھر جگہ جگہ قرآن میں فرما دیا : اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول یعنی : اللّٰہ کی اطاعت کرو اور اللّٰہ کے رسول کی اطاعت کرو ۔
اسی لیے ہم اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے نہیں گزار سکتے. ہم دیکھیں گے کہ ہمارے رسول ﷺ کی کیا تعلیمات اور کیا احکام ہیں...!! اور ان کو اپنی خواہشات سے مقدم کیسے رکھنا ہے۔ رسول اللہ سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی سنت کو اپنایا جائے آپ کے اقوال و افعال کی پیروی کی جائے۔ آپ کے دین کی مدد کی جائے، جن باتوں کے کرنے کا آپ نے حکم دیا ان کو بصد شوق بجا لایا جائے اور جن کاموں سے منع کیا ان سے ہر صورت رکا جائے ۔
ہمیں ہر اس چیز کو اپنانا پڑے گا جو محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم لے کر آئے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئتُ بِہٖ یعنی : تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہے جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس تابع نہ ہوجائے، اس چیز کے جو میں لے کر آیا ہوں۔ “( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یعنی جو احکام اور شریعت حضور ﷺ لے کر تشریف لائے ہیں اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس سب کچھ کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرنا ہوگا۔
دوسری جگہ حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔ (بخاری)
یعنی مسلمان پر سب سے زیادہ حق نبی کریم ﷺ کا ہے۔
آج ہمارے پاس محبت کے دعوے تو بہت ہیں ، لیکن افسوس اس دعوے میں پیش کرنے کے لیے کوئی ثبوت اور کوئی دلیل نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں آج ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر اس محبت کی جڑیں کتنی گہری ہیں؟ ہم کیا کچھ قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟
آج ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نبی علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں تو کہاں کہاں ہمیں اس محبت کا ثبوت دینے میں دقت پیش آتی ہے؟ دراصل اسی دقت پر قابو پا کر قرآن و سنت کے عمل کو فوقیت دینا ہی اصل محبت ہے۔ ہمیں ذاتی مفاد پر سمجھوتے کی عادت کو ختم کرنا ہوگا ۔ جان، مال، وقت کو خرچ کرنے کی جہاں جہاں ضرورت ہوگی وہاں یہ قربانی دینی پڑے گی۔ جان مال وقت کی جہاں جہاں ضرورت ہوگی وہاں کھپانا پڑے گا۔ اسلام کو کنجوسی اور دنیا کو پورے اسراف سے جینا چھوڑنا ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا یہی محاسبہ کیا تھا کہ میں کہاں اپنے آپ کو اوپر کر دیتا ہوں اور ہم نے بھی یہی محاسبہ کرنا ہے کہ کہاں ہم اسلام سے اوپر اپنا ذاتی مفاد رکھتے ہیں۔ نبیﷺ کی ذات سے محبت اسلام ہی سے محبت ہے۔ اللہ کے نبی نے کبھی بھی کچھ اپنی ذات کے لیے نہیں مانگا، مال اور جان کو مانگا تو اسلام کے لیے ہی مانگا ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں نبی سے پیار ہے تو اس کا ثبوت اسلام کے احکام پر عمل کر کے دینا ہوگا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ”شاید اب دوبارہ ملاقات نہ ہو“ حضرت معاذؓ رو رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول! میں اس وقت آپ سے دور ہو جاؤں...!!؟ آپ ﷺ نے فرمایا زمین کی دوری اور قربت کا میری محبت سے کوئی تعلق نہیں۔
صحابہ کرام کی قربانیاں ہمیں اس وقت تک سمجھ نہیں آ سکتیں جب تک ہم پر نفسیاتی طور پر محبت کا تصور واضح نہیں ہوگا۔ ایک ماں بچہ پیدا کرنے کے بعد یہ جان پاتی ہے کہ محبت کا تصور اب مجھ پر اچھی طرح واضح ہوا ورنہ میں تو اپنے ماں باپ کی محبت کو کبھی سمجھ ہی نہ پاتی۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے رشتوں کی محبتیں جب ہو جائیں تو محبت کے تصور کی سمجھ آنے لگتی ہے یعنی جب محبت عملی زندگی میں شامل ہو کر خود بخود قربان ہو جانے اور نچھاور ہو جانے پر آمادہ کر دے تب محبت اپنا احساس دلاتی ہے۔
ایسی محبت ہی پھر اس محبت کا حقیقی نقشہ واضح کرتی ہے جو صحابہ کو اپنے نبیﷺ سے تھی کہ بات کرنے سے پہلے ان کے منہ سے بے اختیار نکلتا تھا کہ” یا رسول اللہ!! آپ پر میرے ماں باپ قربان“ ”اے رسول! آپ پر میرے بچے قربان“
صحابہ موقع کی تلاش میں ہوتے تھے کہ کب وہ گھڑی ملے جس میں وہ نبی ﷺ کے حکم پر اپنی جان قربان کر دیں ۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو دشمن نے ہاتھ پاؤں باندھ کر چھری سے چمڑی اتارنی شروع کی.... پہلے کٹ پر حضرت خباب رضی اللہ عنہ رونا شروع ہو گئے تو دشمن مسکرایا اور کہا تکلیف ہوئی ہے نا!! ابھی بھی وقت ہے گالی دے اپنے رسول کو اور اپنی جان بچا لے۔“
حضرت خبابؓ نے فرمایا اے خبیث! میں رویا اس بات پر ہوں کہ میری صرف ایک جان ہے جو اپنے نبی پر قربان کر سکتا ہوں۔ کاش کہ میری سو جانیں ہوتیں اور ایک ایک کر کے سب ان پر قربان کر دیتا۔
یہی وہ محبت ہے جسے ہم نے اپنے اندر زندہ کرنا ہے کہ اپنے نبی کے ہر ہر حکم پر جان تک قربان کرنے سے پیچھے نہ ہٹیں، اسی محبت کی ضرورت اللہ نے سورہ آل عمران میں ان الفاظ میں اتاری.. : ”آپ کہہ دیجئے : کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے(33)“
”مولانا عبد الرحمن کیلانی تیسیر القرآن میں لکھتے ہیں کہ آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اہل کتاب، کفار و مشرکین اور عامۃ الناس ہیں کیونکہ تقریباً سب کے سب اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتے اور اس کا دم بھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو پھر اس کی صورت صرف یہی ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے لگ جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چہ جائیکہ تم اللہ سے محبت رکھو، اللہ تعالیٰ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔ نیز اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے، شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامرو نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے۔ اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔“