تیرا اصل دشمن ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا بچہ ہو، جو تیری صلب سے پیدا ہوا ہے یا پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے
افشاں انجم نیو یارک

سورہ بقرہ کی آیت 245 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں "کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ وہ کئی گناہ بڑھا چڑھا کر واپس کرے ۔گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ۔اور اسی کی طرف تم ہی پلٹ کر جانا ہے “اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ جو مال بھی ہمارے پاس ہے وہ اللہ رب العالمین کا دیا ہوا ہے اور یہ چیزیں ہمارے پاس بطور قرض ہیں، ایسا قرض جو خالص نیکی کے جذبے سے بغیر کسی غرض کہ کسی کو دیا جائے، اسے اللہ تعالی اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے یعنی اگر اللہ کے بندوں پر خرچ کیا جائے تو اللہ اسے اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کروں گا بلکہ اس سے کئی گناہ زیادہ دوں گا، بشرطیکہ وہ خالص اور حلال مال ہو۔ اللہ کی رضا کے لیےاللہ کے بندوں اور جن کاموں کو وہ پسند کرتا ہے اس میں خرچ کیا جائے۔
طبرانی میں ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تیرا اصل دشمن وہ نہیں، جسے اگر تو قتل کر دے تو وہ تیرے لیے کامیابی ہے یا وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے ۔بلکہ تیرا اصل دشمن ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا بچہ ہو، جو تیری صلب سے پیدا ہوا ہے یا پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ مال اور اولاد دونوں فتنہ ہیں لیکن اگر ان دونوں کا رخ اللہ کی طرف موڑ دیا جائے تو یہ دونوں چیزیں باعث رحمت ،باعث عزت ،باعث برکت ،باعث فضیلت ،ہیں ۔دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں یعنی قرآن اور حدیث دونوں میں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ ڈرو اللہ سے مال اور اولاد دونوں کے معاملے میں کہ ان کا صحیح استعمال کرنا ہے ۔صحیح جگہ لگانا ہے ۔یہ دونوں نعمتیں ہیں لیکن اگر ان کے معاملے میں چوکنے نہ رہے تو دنیا بھی اور آخرت کا بھی نقصان ہو سکتا ہے، پہلے اللہ تعالی نے مال اور پھر اولاد کی بات کی ہے، ان کے بارے میں ڈرنے کے لیے کہاں ہے اور پھر سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی یہ دونوں چیزیں دنیا میں باعث عزت و افتخار ہیں لہذا ان کے معاملے میں اللہ کا حکم مانو، اولاد کی تربیت میں اللہ کے حکم کی پیروی کرو، جس طرح اس نے اولاد کی تربیت تعلیم اور پرورش کرنے کا حکم دیا ہے، جس طرح ان پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے، اس طریقے سے ان کی پرورش کرواور ان کو دین کی خدمت کے لیے تیار کرو، اسلام کی سربلندی کے لیے ان کو فہم و فراست اور علم و تقوی کی دولت سے مالا مال کرو، یعنی انھیں اللہ کی رضا کے مطابق جینا سکھاؤ ۔ مال خرچ کرنے کے معاملے میں بھی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ صحیح نہ ہوگا یہی دو چیزیں ہیں جو غرور اور تکبر ،حسد اور بغض ،کینہ اور کبر کا باعث بھی بنتی ہیں یہی دو چیزیں ہیں جو کم حوصلگی ،پست ہمتی ،حقارت تذلیل اخلاقی گراوٹ ،کا باعث بھی بنتی ہیں
“لڑکی اور لڑکے کے فرق سے “ “”امارت اور غربت کے فرق سے “سورہ حدید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں “خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ ۔اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، پھر اللہ نے کاشت کی مثال قرآن میں دی ،فرمایا اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے ،جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوڑ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ،یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے، عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے “ انسانی فطرت میں اللہ نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ رکھا ہے لہذا اللہ تعالی اس قرآن میں ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ کن چیزوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ دنیا میں مال اور اولاد پر فخر کرنے ،ان کے حصول کے لیے غلط ناجائز طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں یا غلط طریقے سے اپنی اولاد کو نفع دینے کی کوشش کریں یا انہیں غلط راہوں پر چلا کر دنیا میں عزت حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس کی بجائے اگر تمہیں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش ہے تو تم اس کے لیے مغفرت کے راستے پر چلو اور اللہ کی رضا کے راستے پر چلو، اس کی خوشنودی کے راستے پر چلو اور وہ کام کرو جس سے اللہ راضی ہو جائے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو اور دنیا کے معاملے میں اپنے نیچے والوں کو دیکھو “تاکہ تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو ،تمہارے اندر نیکی میں آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو پیدا ہو ،اور تم جنت کی طلب کے لیے کوشاں رہو،اپنے رب کی مغفرت پر نظر رکھو ۔دنیا کا جو بھی مال و متع تمہارے پاس ہو ،جن نعمتوں سے بھی اللہ نے تمہیں نوازا ہو ان سب کو اللہ کی راہ میں لگا کر اللہ کی خوشنودی کے ذریعے جنت کے حصول کی کوشش کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں فرمایا” انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالاں کہ جو کچھ اس نے کھا لیا وہ ختم ہو گیا جو کچھ اس نے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا اور جو کچھ پیچھے رہ گیا وہ تو رشتہ داروں کا مال ہے صرف وہ باقی رہ گیا جو کچھ اس نے اپنے رب کی رضا کے لئے آگے بھیج دیا ،یعنی اس کے بندوں پر خرچ کیا یا اس کی رضا کے کاموں میں خرچ کیا، صرف اپنے رب کی خوشنودی کےلیے بس وہی مال بچ گیا” اور وہی مال آخرت کا سرمایہ ہے، جنت کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے “اللہ نے مومنوں کے جان ومال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں “ لہٰذا اللہ تعالی نے ہمیں جو نعمتیں بھی دی ہیں، چاہے وہ جس شکل میں بھی ہوں مال ،اولاد ،صحت، وقت ، عزت ذہانت ، صلاحیت فہم وفراست قابلیت ،علم ،ذرائع وسائل ان کو صحیح راہ پر استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ جو چیزیں بھی اللہ نے دی ہیں ان سب کا استعمال اللہ کے دین کی خاطر رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اور قرآن کے احکام کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین