قاری عبد الرحمن
ظہر کی نماز کے لیے ہم مسجد میں داخل ہوئے تو جماعت میں تقریبا پندرہ منٹ باقی تھے ،مسجد کا اندرونی ہال اور برآمدہ لوگوں سے بھر گئے تھے ،اور لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آرہے تھے ۔ مسجد کے باہر کھڑی قطار اندر قطار گاڑیاں بھی غیر معمولی صورت حال بتارہی تھیں ۔ کسی جلسے کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا اور چھٹی کا دن بھی نہیں تھا ۔نکاح بھی عموما عصر کے بعد ہوا کرتے ہیں ۔اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ یہ لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں ، لیکن صورتِ حال خاصی عجیب تھی ، بھری مسجد میں کوئی شخص غمزدہ اور افسردہ نظر نہیں آرہا تھا ، بلکہ لوگ ٹولیوں میں کھڑے خوش گپیوں میں مشغول تھے ۔قہقہے بھی گونج رہے تھے،ہاتھ پہ ہاتھ مار کے ایک دوسرے کو داد بھی دی جا رہی تھی، اکثر لوگ تھری پیس سوٹ میں تھے اور جو شلوار کرتا پہنے تھے، وہ بھی بہت کھاتے پیتے اور انتہائی معزز نظر آرہے تھے ۔ خیال ہوا شاید کسی بڑے گھر سے وابستہ بچے بچی کا نکاح ہوگا، وقت کا کیا ہے ،جس کی مرضی، جو چاہے رکھے ۔ اسی وقت احاطہ مسجد کے مغربی دروازے سےکچھ لوگ داخل ہوئے ،جن کے کندھے پر میت چارپائی تھی ۔ ان میں سے دو چار کے چہرےکچھ بجھے بجھے دکھائی دیے ۔ باقی حضرات میں کچھ اسپاٹ چہروں والے اور کچھ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے ۔
نماز ظہر ادا کی گئی ، اما م صاحب نے اعلان کیا " سنتوں کے بعد جنازے کی نماز ادا کی جائے گی ، شرکت باعث اجر ہے"۔سنتوں کے بعد جنازہ پڑھا گیا اور پھر بہت سے لوگ میت کو کندھا دیتے ہوئے ،میت گاڑی کی طرف چل دیے ۔دو میت گاڑیاں دیکھتے ہی دیکھتے بھر گئیں ، بہت سے لوگ اپنی گاڑیوں میں میت بسوں کے پیچھے چل دیے ۔ یعنی یہ سب لوگ تجارتی دنیا سے وابستہ ایک معزز شخصیت کو قبرستان چھوڑنے جا رہے تھے ، جس نے اب ہمیشہ وہاں رہنا تھا ۔ ایک اس شخصیت پر کیا محمول ، جو بھی دنیا چھوڑتا ہے بس ایک ہی بار چھوڑتا ہے اور پھر پلٹ کر نہیں آتا۔ یہ بات ہم سب کو نہ صرف پتا ہے بلکہ ہر گھر میں ، اس کے آس پاس ، پڑوس میں، عزیز رشتے داروں میں آئے دن کوئی نہ دنیا چھوڑتا ، آخرت سِدھارتا رہتا ہے ۔ ہم یوں ہی اس کی میت کو کندھا دیتے ہیں ۔
جس میت پہ شریک ہونے والوں کا اوپر ذکر ہوا ، اس کے گھر سے چند ہی لوگ ہوئے ہوں گے، جن کے چہرے بجھے ہوئے تھے،باقی سب نے افسردہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوگی ۔ کچھ ان کے دوست ہوں گے ، کچھ خاندان کے لوگ ہوں گے ، کچھ ان کے بچوں کے دوست ہوں گے ،کچھ بھانجوں بھتیجوں کے دوست ہوں گے ۔
یہ شرکت عموما زندہ رہنے والوں کو دکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ مرنے والا تو کسی گلے شکوے کے قابل نہیں رہتا، اس لیے اس کی ناراضی کا تو کوئی ڈر نہیں ہوتا ۔ایسے موقعوں پر چند ہی لوگ ہوتے ہیں ،جنہیں اس شخص کی جدائی افسردہ اور غمزدہ ہوتی کرتی ہے ۔ وہ بھی بس تھوڑی دیر کے لیے یا پھر ایک آدھ دن کے لیے لیکن ۔۔۔۔۔۔! سوچنا یہ ہے کہ کسی شخص کے مرنے کی اطلاع چاہے وہ کوئی بھی ہو ، پھر اس کے جنازے میں شرکت ، اس کی میت کو کندھا دیتے ہوئے ، اسے قبرستان لے جاتے ہوئے ، اپنے سامنے قبرمیں اتارتا دیکھتے ہوئے ، اس پر ڈھیروں مٹی ڈالتے ہوئے ہم میں سے کتنے لوگوں کو کتنی بار اور کتنی دیر کے لیے اپنی موت کا بھی خیال آتا ہے اور یہ خیال بھی کبھی آتا ہے یا نہیں کہ کب بلاوا آجائے اور ہمیں بھی یہ دنیا یوں ہی چھوڑنا پڑے گی اور اگر خیال آتا ہے بھی ہے تو خدانخواستہ ہمارا یہ نظریہ تو نہیں ، مر کے مٹی میں مل جائیں گے ۔ دوبارہ اٹھنے اور حشر میں حساب کتاب کا سامنا کرنے اور پل صراط سے گزرنے سمیت مراحل پہ کہیں شک تو نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے قبر میں فرشتوں کی آمد اور حساب ، پھر عذاب ہونے میں بھی کہیں شک تو نہیں۔ ورنہ اگر ان سب چیزوں پہ یقین ہو تو کم از کم کسی میت کے سامنے اور قبرستان میں یوں قہقہے تو نہ گونجا کرتے ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے دل کا دورہ پڑنے اورچھند گھڑیوں میں چل بسنے کے کئی واقعات سامنے آرہے ہیں ۔اس طرح اچانک اور ناگہانی موت سے وصیت کا موقع ملتا ہے نہ توبہ کا ۔ اور ہم سب یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اسی طرح دنیا میں مگن رہتے اور قہقہوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں ۔ ایک بزرگ کا واقعہ ہے ،جو کسی میت کے ساتھ چل رہے تھے ، ان سے کسی شخص نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے ، انہوں نے جھٹ فرمایا بھئی تمھارا جنازہ ہے اور اگر تمہیں اس پر تعجب اور ناراضی ہو تو بھئی یہ میرا جنازہ ہے ۔ یہ یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ہمیں اسی طرح اٹھایا جائے گا اور ڈھیروں مٹی تلے دبا دیا جائے گا ۔ پھر بھی یہ غفلت ۔ حیرت ہے تعجب ہے افسوس ہے !