ام سنینہ

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞ سورۃ  الحجرات ، آیت نمبر 11

ترجمہ:اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، نہ مَردوں کی کوئی جماعت دوسرے مَردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ٹھہریں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، شاید کہ وہ ان سے بہتر نکلیں اور نہ اپنوں کو عیب لگاو، اور  آپس میں ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔ ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے ! اور جو لگ توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔

تفسیر:

یہاں بعض اُن باتوں سے روکا گیا ہے جو ایمان کے خلاف اور گناہ ہیں اور جن سے دلوں  میں دوری پیدا ہوتی ہے، اور پورے معاشرے  میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے اور جس کی روک تھام نہ ہو تو جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمآء بینھم کے وصف سے ممتاز فرمایا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ 

یا یھا الذین امنوا  یہاں صرف خطاب ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ   وہ برائیاں بیاں ہو رہی ہیں جو گناہ میں داخل ہیں۔اس خطاب سے اہل ایمان کو گویا اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان سے مشرف ہوچکے ہیں ان کے لئے زیبا نہیں کہ وہ ایمان کے بعد گناہ کے داغ دھبوں سے اپنے دامن کو آلودہ کریں۔

فرمایا کہ ایمان میں داخل ہوجانے کے  بعد نہ مَردوں کے لیے یہ زیبا ہے کہ وہ دوسرے مردوں کو حقیر خیال کر کے ان کا مذاق اڑائیں نہ عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسری عورتوں کو تمسخر کا نشانہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرافت و رذالت کا انحصار آدمی کے ایمان و عمل پر ہے اور ایمان و عمل کا صحیح وزن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی میزان عدل سے معلوم ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھ رہا ہو لیکن قیامت کے دن کھلے گا کہ خدا کی میزان میں اس کا وزن کتنا ہے۔ اسی طرح امکان اس کا بھی ہے کہ جس کو اہل دنیا نے کبھی اپنی آنکھوں میں جگہ نہیں دی قیامت کے دن پتا چلے کہ خدا کی بادشاہی میں جو مقام اس کا ہے وہ ان لوگوں کا نہیں ہے جنہوں نے اس کو حقیر جانا۔

یہاں مَردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا ذکر بھی خاص اہتمام سے ہوا ہے حالاں کہ بظاہر اس کی ضرورت نہیں تھی۔  لیکن قرآن نےاچھائی اور برائی دونوں کے بیان میں یہ طریقہ رکھا ہے کہ عورتوں کا ذکر ان مواقع میں خاص اہتمام کہ ساتھ ہوا ہے جہاں تاکید کے ساتھ ان کو کسی فضیلت کے لیے ابھارنا یا کسی فتنہ سے بچانا مقصود ہے۔ یہاں یہی دوسری صورت ہے۔ جس برائی سے یہاں مَردوں کو روکا گیا ہے وہ عورتوں کے اندر اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں پائی جاتی جتنی مردوں کے اندر پائی جاتی ہے جن عورتوں کے اندر اپنی خاندانی، نسبی اور قوم پرستی یا اپنے ظاہری حسن و جمال کا غرور ہوتا ہے ان کا انداز خطاب و کلام ان عورتوں کے ساتھ حقارت آمیز ہوتا ہے جن کو وہ اپنے مقابلے میں کم تر خیال کرتی ہیں۔

یہاں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان  میں ایک خاص  نکتہ بھی ہے اور مقصود درحقیقت اس برائی کو ختم کرنا ہے۔ آخری آیت میں اس  کی طرف اشارہ ہے۔ شیطان نے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے جو فتنے ایجاد کئے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فتنہ نسل و نسب، خاندان، برادری، کنبہ اور قبیلہ کے شرف و امتیاز کا فتنہ بھی ہے۔ جو لوگ اس فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں اور بہت کم ایسے خوش قسمت نکلتے ہیں جو اپنے کو اس فتنے سے محفوظ رکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے مقابلے میں حقیر خیال کرتے ہیں اور جب حقیر خیال کرتے ہیں تو لازماً ان کے قول، فعل اور رویے سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ چیزیں پختہ ہو کر ان کے ہاں روایت کی حیثیت حاصل کرلیتی ہیں بلکہ ان کا بس چلتا ہے تو وہ ان کو مذہب کا درجہ بھی دے دیتے ہیں۔ چناں چہ مختلف اقوام نے    اپنے لیے تقدس کا ایک ایسا مقام اپنے لیے پیدا کرلیا جس کو چیلنج کرنا دوسروں کے لئے ممکن نہیں رہا۔ یہی حال ہر قوم کا ہوا ہے، انسانی برابری کے جھوٹےدعووں کے باوجود آج بھی یہی حال ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان جو اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئےآئےتھے وہ بھی آج نہ جانے کتنی برادریوں، قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہیں اور  جس کا اظہار ہر قوم و قبیلے کے عوام و خواص کے بیانات اور نعروں سے ہوتا رہتا ہے، جس سے فطری طور پر دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت و کدورت پیدا ہوتی ہے جو عداوت و بغاوت کی شکل اختیار کر کے بالآخر خون خرابے اور تقسیم و تفریق تک نوبت پہنچا دیتی ہے۔

یہاں قرآن نے مسلمانوں کو اسی آفت سے محفوظ رہنے کی ہدایت فرمائی کہ  اللہ نے اپنے فضل سے جاہلیت کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی بخشی ہے۔تمھارا معاشرہ تم سب آپس میں بھائی ہو کی بنیاد پہ بنایا گیا لہذا اپنے دوسرے بھائیوں کو حقیر سمجھ کر یا ان کو اپنے طنزیہ اور حقارت آمیز الفاظ کا نشانہ بنا کر اس معاشرہ کا حلیہ خراب کرنے کی کوشش نہ کرو۔

عزت و شرف کی بنیاد نسل، نسب، خاندان، برادری، قوم و قبیلہ اور مال و دولت پر نہیں بلکہ آدمی کے دین وتقویٰ پر ہے اور اس بات کا فیصلہ کل کو قیامت کے دن ہوگا کہ کس کا تقویٰ زیادہ ہے اور وہ اللہ کے نزدیک اشرف و اعلیٰ ہے اور کون اپنے تمام  حسب و نسب اور غرور  شرف کے باوجود خدا کے نزدیک بالکل بےوزن اور بےحقیقت ہے۔

طنز اور پھبتی کی ممانعت ۔۔

”ولاتلمزوآ انفسکم لمز کے معنی کسی پر طعن کرنا، آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے اس پر کوئی طنز آمیز فقرہ چست کردینا ہے۔ مثلاً سورة توبہ آیت 79 میں منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ والذین یلمزون المطوعین من المومنین یعنی جب غریب مسلمان اپنی خالص کمائی میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو منافقین ان کی حوصلہ شکنی کے لئے ان پر طنزیہ فقرے کستےہیں کہ لو، آج حاتم کی قبر پر لات مارنے یہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس قسم کے زہر آلود جملے در اصل اپنے  بولنے والےکے حسب کی بھی خوب نشاندہی کرتے ہیں اور اس کے غرور تکبر کی بھی، اور ان کا اثر دوسروں پر یا تو حوصلہ شکنی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یا نفرت ودشمنی کی صورت میں اور یہ دونوں ہی چیزیں معاشرے کے اندر زہر پھیلا نے والی ہیں۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر طعن کرتا ہے وہ گویا اپنے ہی اوپر طعن کرتا ہے اس لئے کہ تمام مسلمان آپس میں انما المومنون اخوۃ کے اصول پر بھائی بھائی ہیں تو جس نے اپنے کسی بھائی کو اپنے کسی طعن و طنز کا نشانہ بنایا اس نے گویا اپنے ہی سینے کو اپنے تیر کا نشانہ بنایا اور اپنے ہی کو زخمی کیا۔

تنابزوا بالالقاب، کے معنی آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنا  ہے۔

 اچھے القاب سے کسی کو عزت بخشنا جس طرح کسی فرد یا قوم کی عزت افزائی ہے اسی طرح برے القاب سے کسی کو پکارنا  اس کی انتہائی توہین و تذلیل ہےبرے القاب لوگوں کی زبانوں پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ بات یہاں یاد رہے کہ دور جاہلیت میں عربوں کے اندر یہ ذوق بدرجہ کمال ترقی پر تھا۔ قبیلے کا سب سے بڑا شاعر اور خطیب وہی مانا جاتا جو دوسروں کے مقابل میں اپنے قبیلہ کے مفاخر بیان کرنے اور حریفوں کی برائی اور تحقیر کرنے کا ماہر ہو۔ ان کی اس چیز نے ان کو کبھی ایک قوم بننے نہیں دیا۔ وہ برابر اپنوں ہی کو گرانے اور بچھاڑنے میں لگے رہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام نے ان کو انسانی وحدت اور ایمانی ہم آہنگی سے آشنا کیا جس کی بدولت دنیا کی ہدایت و قیادت کے اہل بنے۔ قرآن نے یہاں ان کو دور جاہلیت کے انہی فتنوں سے آگاہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان وا سلام کی برکات سے نوازا ہے تو اس کی قدر کرو۔ شیطان کے ورغلانے سے پھر انہی برائیوں میں نہ مبتلا ہوجانا جن سے اللہ نے تمہیں بچایا ہے۔

اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔۔