لڑکی دیکھنے  کے لیے مختلف جگہوں پر جانا اور وہاں جاکر لڑکے اور اس کے گھرانے کا لڑکیوں کو ایسے دیکھنا جیسے بکرا منڈی میں بکرا دیکھنے جاتے ہیں تو یہ انتہائی نامناسب بات ہے

ام معاذ

نکاح ایک مقدس اور پاکیزہ تعلق ہے، جو دو ایسے افراد بلکہ خاندانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے جو بسا اوقات ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں  جب کوئی گھرانہ اپنے لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے میل ملاقات جان پہچان اور دکھلاوے سے متعلق معاملات سامنے آتے ہیں ،جس میں تمام مراحل طے ہونے کے بعد منگنی کی رسم کی جاتی ہے۔ اب یہاں چند سوالات  پیدا ہوتے ہیں ۔۔

(1)منگنی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 

(2)کیا لڑکا لڑکی نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ؟

(3)کیا منگنی کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں فون کال، یا میسج کے ذریعے بات چیت کرسکتے ہیں؟ 

(4) منگنی کی انگوٹھی پہنانے کا حکم

(5)کیا منگنی کے بعد اسے توڑنا درست ہے ؟

(6)منگنی کی دعوت اور دیگر رسوم

ان سوالات کے جوابات حسب ذیل آگے آتے ہیں۔

منگنی کی شرعی حیثیت

نکاح کے کاموں میں سے ایک کام "منگنی" بھی ہے ۔ یہ "ہندی" لفظ ہے اسے عربی میں "خِطبہ"( خ کے زیر کے ساتھ)  کہتے ہیں گویا کہ "شادی کا پیغام دینا منگنی" کہلاتا ہے یہ ایک وعدہ ہوتا ہے جو عقد نکاح سے پہلے کیا جاتا ہے۔

قرآن و سنت کے مطالعے  سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح سے پہلے پیغام نکاح دینا جائز ہے،  جسے ہمارے زمانے میں " منگنی کرنا" بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔

منگنی  ختم کرنے کا حکم

  منگنی چوں کہ نکاح کا وعدہ ہے، اسے بغیر کسی شرعی معقول عذر کے ختم کرنا معاہدہ توڑنا ہے کیونکہ یہ شرعاً،عرفا، اخلاقاً ایک غیر مناسب کام ہے جسے شریعت نے ناپسند کیا ہے.

حدیث شریف میں ہے کہ "اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاس داری نہیں" البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو منگنی ختم کرنا جائز ہے۔  البتہ  اس میں تہذیب اور شائستگی کو مد نظر رکھا جائے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے کہ:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا  بغیر کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی کا جائز ہے۔"

منگنی کے مباح کام

استخارہ کرنا

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب تم میں سے كوئی شخص كسی (مباح) كام كا ارادہ كرے تو دو ركعت نفل نماز پڑھے اس كے بعد دعا كرے"۔(بخاری : 6382)  

مشورہ کرنا

اسلامی تعلیمات میں ہمیں ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ اہم امور میں ذی رائے لوگوں سے مشورہ بھی کریں اور اہم معاملات میں باہمی مشورہ لینا آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعثِ برکت بھی ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

 جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوگا، اور جس نے (کام سے پہلے) مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہوگا۔

 لہذا دین و دنیا کے اہم معاملات میں مشورہ لینا سنت سے ثابت ہے، اور بہتر عمل ہے۔ لیکن لازم یا واجب نہیں  کہ اگر کوئی معاملہ مشورہ کے بغیر طے کردیا جائے تو اس میں گناہ ہو ایسی بات نہیں۔لہذا جب کسی جگہ پیغامِ نکاح دیا جائے تو اس لڑکے یا لڑکی سے متعلق اور انکے گھرانے سے متعلق ایسے افراد سے مشورہ کرلیا جائے جو پہلے سے ان کو جانتے بھی ہوں تاکہ بہتر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔

نکاح  میں اہمیت کس کو دی جائے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۔ (متفق علیہ)

ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت سے شادی چار باتوں کی وجہ سے کی جاتی ہے(1) اس کے مال(2) حسب نسب(3) حسن (4) اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو،  تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی"

اس لیے حتی الامکان کوشش یہ کی جائے کہ منگنی کرتے وقت دینداری کو ترجیح دیں۔

منگنی کے غیر شرعی امور

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " آدمی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے یہاں تک وہ اس سے شادی کرلے یا چھوڑ دے“ (صحیح بخاری)

یعنی اگر کسی کو معلوم ہوکہ فلاں نے اپنے بیٹے یا بیٹی کا پیغام نکاح فلاں کے لیے دیا ہے تو اگر انکی باہم بات طے پاجائے تو ٹھیک ہے اور اگر وہاں انکی بات طے نہ ہو تو اب اس جگہ اپنے بیٹے یا بیٹی کا پیغام نکاح دینا درست ہوگا۔

نکاح سے پہلے میل ملاقات کا حکم

جب کسی جگہ نکاح کرنے کا پختہ ارادہ ہو تو نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی کا ایک دوسرے کو ایک مرتبہ براہ راست دیکھ لینا بہتر ہے، حدیث شریف میں اس دیکھنے کو شادی کے بعد محبت کا سبب بتایا گیا ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ یہ  دیکھنا شرعاً ضروری اور لازم  نہیں ہے بلکہ اگر صرف گھر کی خواتین دیکھ لیں تو یہ بھی کافی ہے۔  اور یہ دیکھنا بھی تنہائی اور اکیلے میں نہیں ہو  کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ" لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، ولا تسافر امرأة إلا مع ذي محر م"

(صحيح البخاري)

”کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی اختیار نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر ہی کرے"

اسی لیے دیکھنا والدین وغیرہ کی موجودگی میں ہو اور اس میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ صرف وہی لڑکا دیکھ سکتا ہے جس کے ساتھ نکاح کا ارادہ ہو لڑکے کے بھائی والد تایا چچا غرض یہ کہ دیگر اشخاص کا دیکھنا جائز نہیں ہے ۔

اسی طرح منگنی کے بعد لڑکے لڑکی کا باہم میل جول رکھنا ، موبائل فون کے ذریعے بات چیت کرنا ، ایس ایم ایس کے ذریعے سے رابطہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ منگنی محض وعدہ نکاح ہے نکاح نہیں ہے منگیتر بھی دیگر نامحارم کی طرح اجنبی ہے لہذا نکاح سے پہلے میل ملاقات کرنا منگیتر کے ساتھ ہوٹلنگ کرنا  گھومنا پھرنا بات چیت کرنا بھی منع ہے۔

منگنی کی انگوٹھی کا حکم

منگنی کے موقع پر  انگوٹھی پہنانا محض ایک رسم ہے شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہےاس  اہتمام سے پر ہیز ہی بہتر ہے

منگنی کے موقع پر دعوت کا حکم

جیسے جیسے زمانے میں جدت آتی جارہی ہے تو رسوم و رواج میں وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے منگنی کے موقع پر مختلف قسم کی  رسوم مثلا ً باقاعدہ ہال کی بکنگ کروانا،  ایک بڑی دعوت کا اہتمام کرنا، اسٹیج پر مرد وعورت کا ساتھ بیٹھ کر میاں بیوی کی طرح باتیں کرنا، ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا ، ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا اور اس موقع پر مختلف قسم کی رسوم ادا کرنا اور انہیں لازم سمجھناخصوصا ویڈیو کیمرے کے ذریعہ تصاویر کھینچنا، فوٹو شوٹ کروانا، اجنبی مرد و اجنبی عورتوں کاباہمی اختلاط یہ تمام گناہ کے کام ہیں۔   

 یہ خرافات انجام دیے جا رہے ہوں تو ایسی محفل میں شرکت کرنا ناجائز ہے ۔

البتہ اگر منگنی کی دعوت ان خرافات سے پاک ہو تو اس میں شرکت جائز ہے۔

ایک حدیث مبارکہ  میں رشتہ پکا ہونے کی خبر کو چھپانے کا ذکر آیا ہے حدیث میں ہے:أَخْفُوا الخِطْبَةَ وأَظْهِروا النكاحَ (کنزالعمال، حرف النون، الباب الثالث في آداب النکاح)

ترجمہ"منگنی کو چھپاؤ اور نکاح کو ظاہر کرو‘‘ اور منگنی کو چھپانے کا حکم اس لئے دیا گیا تاکہ نکاح پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے حاسدین کے حسد کا شکار نہ ہو جائے۔

لہذا اس کے لیے اعلانات وغیرہ کرنا یا دعوتوں اور منگنی کی تقریب کا اہتمام کرنا غیر ضروری عمل ہے اور اس کو ضروری یا مسنون سمجھنا درست نہیں ۔

 

خلاصہ کلام!

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ منگنی محض وعدہ نکاح ہے نکاح نہیں ہے اس موقع پر اگر لڑکا لڑکی ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھنا چاہیں تو شرعی اعتبار سے جائز ہے  لیکن یہ دیکھنا تنہائی اور الگ نہ ہو بلکہ گھر والوں کی موجودگی میں ہو نیز جب تک نکاح نہیں ہوجاتا تو منگیتر کی حیثیت بھی عام نامحرم کی طرح ہے، منگنی کی انگوٹھی اور دعوت وغیرہ کا شرعی کوئی ثبوت ہمیں نہیں ملتا لہذا اسے لازم اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے بلکہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

ایک سب سے اہم بات یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ آج کے زمانے میں جب کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہم بہت سے ایسے کام کرنے لگے ہیں جو ایک مسلمان جو زیب نہیں دیتے لڑکی دیکھنے  کے لیے مختلف جگہوں پر جانا اور وہاں جاکر لڑکے کا اور اسکے گھرانے کا لڑکیوں کو ایسے دیکھنا جیسے بکرا منڈی میں بکرا دیکھنے جاتے ہیں تو یہ انتہائی نامناسب بات ہے رشتہ کرتے وقت اس معیار کو مد نظر رکھا جائے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے تو ان شاءاللہ تعالیٰ بہتری اور خیر کا معاملہ ہوگا اور بچوں کے والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے نیک صالح جوڑ کے لیے  اللہ تعالٰی کا اہتمام رکھیں اور رشتے کے سلسلے میں دین داری اور اخلاق کو ترجیح دیں، دنیاوی اعتبار سے طرزِ زندگی کی بہتری کے ساتھ دینی ترقی اور اعمال پر استقامت اور آسانی جس رشتے میں ہو اس کی دعا کرنی چاہیے۔