سورہ بقرہ کی آیت نمبر 222 کی روشنی میں

ام سنینہ کراچی

٭أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔*

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿222﴾

 

ترجمہ:

 وہ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے وہ ناپاکی (اور بیماری) ہے، پس الگ رہا کرو، عورتوں سے حیض کی حالت میں، اور ان سے قربت نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں، پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جیسے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔

 

*تفسیر *

 

 *سوال کا پس منظر *

 قرآن کریم انسانی زندگی کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے۔ جس میں زندگی کی تمام ضروریات اور تمام احساسات کے حوالے سے رہنمائی مہیا کی گئی ہے۔ انسانی زندگی کا اسلوب یہ ہے کہ ایک ضرورت سے دوسری ضرورت پھوٹتی ہے۔ اور ہر ضرورت کے پیدا ہونے کے وقت اس کی رہنمائی کی طلب ہوتی ہے۔ قرآن کریم اپنی مخصوص حیثیت کی وجہ سے اسی ترتیب اور اسلوب کے ساتھ ہدایات دیتا ہے۔

یہاں سب سے پہلے اس سوال کی نوعیت کو سمجھ لیا جائے تاکہ اس کے جواب کی اہمیت  سمجھ آسکے۔ سوال کا پس منظر یہ ہے کہ عورتوں کے ایام مخصوص میں تمام مذاہب میں یہ تصور تو پایا جاتا تھا کہ ان دنوں میں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے قربت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس میں بہت حد تک افراط وتفریط بھی پائی جاتی تھی اور بہت دفعہ حدود سے تجاوز بھی کیا جاتا تھا۔ یہود اور ہمارے قریبی ہمسائے ہندوؤں نے مذہبی طور پر یہ یقین کر رکھا تھا کہ عورت ان ایام میں اس حد تک ناپاک ہوتی ہے کہ نہ صرف اس سے قربت نہیں ہونی چاہیے بلکہ گھریلو زندگی کا کوئی تعلق بھی اس کے ساتھ باقی نہیں رہنا چاہیے۔ نہ اس کو اپنے قریب بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ‘ نہ اس کے جسم کو چھوا جاسکتا ہے ‘ نہ وہ کھانے پینے کے برتنوں کو ہاتھ لگا سکتی ہے ‘ نہ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں کو کھانا پکا کر دے سکتی ہے۔ عورت عام طور پر اس حالت میں تین دن سے لے کر دس دن تک مبتلا رہتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مہینے کا تہائی حصہ بالکل معذور بنی رہتی۔ دینی معاملات تو ایک طرف رہے۔ اسے دنیوی معاملات بھی انجام دینے کا کوئی حق نہیں۔ گھر میں کسی جانور سے بھی یہ سلوک نہیں کیا جاتا جس کا شکار ان مذاہب میں عورت کو بنادیا گیا تھا۔ اور عیسائیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ان ایام میں بھی کسی طرح کی پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔  انھیں گندگی کا بھی کوئی احساس نہیں تھا ‘ نہ خاتون کی ناموافق طبیعت کا۔ حالانکہ عیسائیت شرعی اعتبار سے توراۃ کی شریعت کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ لیکن سینٹ پال نے ان کو اس بری طرح سے پٹڑی سے اتارا کہ شریعت کی پابندیوں سے آزاد کردیا۔ شریعت کی پابندیوں سے آزادی کا مطلب خواہشات کی کھلم کھلا پیروی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ مشرکینِ عرب بھی بہت حد تک اس افراط وتفریط کا شکار تھے۔ وہ اگرچہ اپنے رویے کو ملت ابراہیم پر رکھتے تھے لیکن حقیقت میں وہ صرف خواہشات کے پرستار تھے۔ اسلام نے ان غیر معتدل رویوں کے درمیان ایک نہایت معتدل اور حکیمانہ طریقہ زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ جس سے بہتر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

 * خلاصہ کلام*

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ عورت ان دنوں میں اس کیفیت میں ہوتی ہے جسے صحت سے زیادہ بیماری کے قریب سمجھنا چاہیے۔ اس کی طبیعت میں اعتدال نہیں رہتا ‘ چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے ‘ جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں ‘ معمولی باتوں پر بھی برہم ہوجاتی ہے ‘ وہ باتیں جو عام دنوں میں آسانی سے گوارا ہوجاتی ہیں ‘ ان دنوں میں انھیں برداشت کرنا عورت کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے جہاں شوہر کو اس کے قریب نہ جانے کی علت سے آگاہ کیا گیا ہے وہیں اسے یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ان دنوں میں اپنی بیوی سے نہایت سازگاری رکھنے کی کوشش کرو۔ اس کی طرف سے اگر کوئی ناموافق بات بھی سامنے آئے تو برداشت کرنے کی کوشش کرو۔ اس کو نارمل سمجھ کر اس سے معتدل اور ہموار رد عمل کی توقع مت کرو۔ اگر وہ کسی وقت ناگوار رویے کا اظہار کرے تو اسے اس کی حالت کا تقاضا سمجھ کر نظر انداز کردو۔ اس کے گندہ ہونے کے حوالے سے فرمایا گیا کہ اس کی قربت اختیار نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائے۔ اور قربت اختیار نہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اگلے جملے سے اس کی وضاحت فرما دی گئی۔ یعنی قربت اختیار نہ کرنے کا مطلب میاں بیوی کا رشتہ قائم نہ کرنا ہے ‘ جسے رشتہ زوجیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رہے انسانی رشتے ان میں کوئی رکاوٹ نہیں۔  باقی ہر طرح کی قربت اور ہر طرح کے معاملات میں شرکت اور ساتھ اٹھنا بیٹھنا ‘ گھر کا کام کاج کرنا ‘ کھانا پکا کے دینا ‘ بچوں اور شوہر کی خدمت کرنا ‘ اس طرح کی کسی بات پر کوئی پابندی نہیں۔

 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اس کے لیے مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ازواج مطہرات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل سے جو کچھ امت کے حوالے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں عورتیں نماز ‘ روزے اور قرآن خوانی سے دور رہیں۔ لیکن زندگی کے باقی معاملات میں ان کی شرکت سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔

*حدیث مبارکہ *

 حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعتکاف کی حالت میں مسجد میں کھڑے ہو کر اپنے گھر سے کوئی چیز مانگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کو آپ کو وہ چیز پکڑانے میں ہچکچاہٹ ہوئی کیونکہ وہ ایام مخصوص گزار رہی تھیں ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اس ناپاکی کا اثر تمہارے ہاتھوں میں تو نہیں ہے۔ “

  حضرت عائشہ ( رض) نے ان باتوں کو صرف اس لیے بیان فرمایا تاکہ امت کو ان مسائل کا علم ہوجائے کہ حائضہ عورت ناپاک ہونے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتی ‘ روزہ نہیں رکھ سکتی ‘ قرآن پاک کو چھو نہیں سکتی اور اپنے شوہر سے مخصوص جسمانی قربت کا تعلق قائم نہیں کرسکتی۔ لیکن زندگی کے باقی معاملات  معمول کے مطابق کر سکتی ہے ۔ خاتونِ خانہ کو یہ وقار اور یہ عزت اور انسانیت کے لیے یہ سہولت اسلام نے عطا فرمائی ہے دوسرے مذاہب نے اسے بالکل چھین رکھا ہے۔

اور آخر میں فرمایا وَ بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ

 ایمان اور یقین لانے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں اور اسے اپنا عمل بناتے ہیں وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ انھیں سرخرو فرمائے گا۔

 حالتِ حیض میں قرآن کی تعلیم دینا

سوال

کیا حائضہ عورت تعلیم قرآن دے سکتی  ہے؟

 

جواب

دورانِ حیض (ماہ واری) عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت منع ہے، البتہ تعلیمی ضرورت کی وجہ سے ایک آیت کی مقدار سے کم پڑھ کرسانس چھوڑ دینے کی حد تک فقہاءِ کرام نے جائز لکھا ہے؛ لہٰذا معلمہ طالبات کو پڑھائے یا خود طالبہ پڑھے، کلمہ کلمہ، لفظ لفظ الگ الگ کرکے پڑھے، یعنی ہجے کرکے پڑھیں، مثلا: الحمد ۔۔۔۔  للہ ۔۔۔۔  رب ۔۔۔ العالمین، مخصوص ایام میں خواتین کے لیے ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے، البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں،  نیز یہ حکم میں پڑھانے والی اور پڑھنے والی دونوں کے لیے ہے۔

یہ یاد رہے کہ قرآن مجید کو  براہِ راست بغیر غلاف کے  ہاتھ لگانا اس حالت میں جائز نہیں، ہاں قاعدہ اور نماز کی کتاب وغیرہ  کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔

اگر معلمہ ایام سے ہو تو وہ بچیوں سے سبق اور منزل وغیرہ زبانی سن سکتی ہے، اسی طرح مصحف بچی پکڑے اور معلمہ اس میں دیکھ کر سنے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر حفظ بھولنے کا اندیشہ ہو تو فقہاءِ کرام نے یہ صورت لکھی ہے کہ حافظہ کسی پاک کپڑے وغیرہ سے مصحف کو پکڑ کر اس میں دیکھ کر دل دل میں دہراتی جائے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے، اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سے حفظ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔