مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ، باعتبار ثواب اور باعتبار امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں۔ (سورہ کہف)

 ام سنینہ کراچی

   عرب میں  چوں کہ قبائلی زندگی تھی، اس لیے ان کی تمام تر قوت کا دارومدار مال  اور اولاد کی کثرت پر تھا۔ قحط کے زمانے میں قبیلے کا سردار اپنے جانوروں کے ریوڑ اپنے قبیلے کے لوگوں کے لیے ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتا تھا اور اس طرح سے ان کی بھوک کا علاج کرتا اور اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ اکرتا۔

 دوسروں پر اپنا رعب اور دبدبہ جمانے کے لیے اولاد کی کثرت کا خواہش مند ہوتا ،کیوں کہ قبائل کی زندگی میں طاقت کی زبان ہی اصل زبان ہوتی ہے اور طاقت جس طرح دولت سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح قبائلی زندگی میں بیٹوں کی کثرت بھی اس کا اہم سبب تھا۔ اس لیے وہ لوگ مال اور اولاد کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور ان پر فخر بھی کرتے تھے۔ قرآن کریم نے دونوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہاری دنیوی زندگی کی زینت ہیں لیکن تم جانتے ہو کہ نہ تمہاری زندگی ہمیشہ ہمیشہ ہے اور نہ ان چیزوں کا دوام ،اگر  ہے تو ان پاکیزہ اعمال کو ہے جن کی یاد ہمیشہ باقی رہتی ہے اور جن کے اثرات سے انسانیت توانا ہوتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگرچہ بعض مواقع پر تسبیح و تہلیل اور بعض اذکار کو باقیات الصالحات قرار دیا اور کبھی بعض اعمال کو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو شریعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ باقیات الصالحات میں شامل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کبھی اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہمدردی و غمخواری، رحم دلی و مروت، جودوسخاوت، قربانی و ایثار اور اطاعت و عبادت یہ تمام اعمال حسن نیت کے ساتھ باقیات الصالحات میں شامل ہیں اور اپنے اصل کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں تو یقینا ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں، دنیا میں بھی اس کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین اجر چاہتے ہو تو وہ بھی تمہیں اعمال صالحہ کے نتیجے میں ملے گا اور اگر تم انسانیت کے لیے بہترین امید چاہتے ہو یا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اچھے انجام کی امید رکھنا چاہتے ہو تو اس کی ضمانت بھی ایمان کے بعد اعمال صالحہ کے سوا کسی اور چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے اہل دنیا کو اگر انسانیت کی بھلائی مقصود ہے تو وہ ان چیزوں میں نہیں جو حیات دنیا کی زینت ہیں بلکہ ان اعمال میں ہے جو حیات دنیا کی بقاء کا ذریعہ اور اس کی پائیداری کا سبب ہیں۔

 

*خلاصہ کلام *

ہم نے بھی اپنی زندگیوں میں مال و دولت شہرت کو اعمال پر ترجیح دے رکھی ہے۔

حالانکہ مال جمع کرنا برا نہیں۔بس فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ اس مال کے ذریعے صدقات وخیرات ،ایک دوسرے کا خیال کر کے نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں۔۔

اسی طرح اولاد کی نعمت سے اللہ نے نوازا ہے تو اس کی دینی  تعلیم وتربیت کر کے بہترین صدقہ جاریہ بنایا جاسکتا ہے۔۔

 

*اللہ تعالٰی ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین