سورہ نور کی آیت نمبر 31 کی روشنی میں
(گزشتہ سے پیوستہ)
ام سنینہ
اَوِالتّٰبِعِیْنَ غَیْرِاُوْلِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ
” یعنی مردوں میں سے وہ مرد جو زیر کفالت ہوں اور جو عورت کی ضرورت کی عمر سے نکل چکے ہوں۔ یعنی ایک مسلمان عورت ان مردوں کے سامنے اظہار زینت کرسکتی ہے، جو اس کے زیر کفالت ہوں یا اس کے بزرگوں کے زیرکفالت ہوں اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے وہ حدود سے تجاوز کا تصور بھی نہ کرسکتے ہوں اور دوسری یہ بات کہ وہ اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت یا اپنی کمزوری یا فقر ومسکنت کے باعث یہ طاقت اور جرأ ت نہ رکھتے ہوں کہ وہ صاحب خانہ کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لاسکیں۔ لیکن گھر کے وہ ملازم جنھیں ان کی تنخواہ ایک طرح کی جرأت دلاتی ہے پھر ان کی مناسب عمر اور صحت جنسی جذبات پر آمادہ کرسکتی ہے ان کے سامنے عورتوں کا بےپردہ آنا اور اظہار زینت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
نئی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مخنثین (ہیجڑوں)سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے جو اگرچہ گناہ پر قادر نہیں، لیکن کسی حد تک جنسی خواہشات کے باعث عورتوں میں دل چسپی لیتے ہیں
بخاری اور مسلم اور بعض دیگر کتب میں بھی حضرت عائشہ ( رض) اور حضرت ام سلمہ ( رض) سے روایت کیا گیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مخنث(ہیجڑا )تھا، جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غَیْرِاُوْلِی الْاِرْبَۃِمیں شمار کرکے اپنی ہاں آنے کی اجازت دے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام المومنین حضرت ام سلمہ ( رض) کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حضرت ام سلمہ ( رض) کے بھائی عبداللہ بن امیہ سے کچھ باتیں کرتے سن لیا۔۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں آنے سے منع فرما دیا کیونکہ ان کو مخنث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غَیْرِاُوْلِی الْاِرْبَۃ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں کہ ایک شخص جسمانی طور پر بدکاری کے قابل نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہرحال وہ بہت سے فتنوں کا باعث بن سکتا ہے۔
*بوڑھے ملازمین کے بارے میں احتیاط *
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے اور کمزوری کے باعث اس قابل ہیں کہ انھیں غَیْرِاُوْلِی الْاِرْبَۃ کا مصداق سمجھا جائے، لیکن یہ بات دیکھنا بہت ضروری ہے کہ صنف نازک کے بارے میں ان کے احساسات کا حال کیا ہے اور کیا وہ اپنی نجی مجلسوں میں صنف نازک کے اوصاف کو گفتگو کا موضوع بناتے ہیں یا نہیں۔ جب تک اس حوالے سے اطمینان نہ ہوجائے اس وقت تک انھیں گھروں کے اندر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اَوِالطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآء
" یا وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوں۔ “ یعنی ان بچوں کے سامنے عورتیں اظہار زینت کرسکتی ہیں، جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں۔
رہی یہ بات کہ صنفی احساسات بچوں میں کس عمر میں بیدار ہوتے ہیں۔ عام طور پر تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک بچہ نابالغ ہے وہ بہت حد تک صنفی ضروریات سمجھنے سے قاصر رہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوغ سے پہلے بھی بچوں میں صنفی احساسات پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کے لیے کسی عمر کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسے بچے ان خال خال ہی پائے جاتے ہیں جو بلوغ کے قریب پہنچ کر ان احساسات سے واقف ہوتے ہوں گے۔ ورنہ آج کل جو حالات ہیں خاص طور پر جن تعلیمی اداروں میں جنس کو سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جاتا ہو اور جن بچوں کے گردوپیش میں صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہوں اور جن کا ماحول اور جن کے بڑے اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوں وہ بچے بہت ہی کم عمری میں ہی ان باتوں سے آشنا ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ایسی شکایات بھی بہت سننے کو ملتی ہیں کہ ایسے کم سن بچے بھی جو سنتے اور جانتے ہیں ویسی حرکتیں ان سے سرزد بھی ہونے لگتی ہیں اور ہم جولیوں سے تذکرہ بھی کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں شروع میں تو بچوں کو ہر وقت عورتوں کے یہاں آنے جانے کی اجازت تھی ،لیکن بعد میں تین اوقات میں ان کے اوپر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بلاشبہ عرب معاشرہ ایک بگڑا ہوا معاشرہ تھا۔ لیکن ان میں بھی غیرت کا کسی حد تک تصور پایا جاتا تھا۔ اس لیے وہ اپنے بچوں میں ہر طرح کی انارکی کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن آج کا مغرب اور ان کے زیراثر مشرق میں رہنے والے متغربین ہر طرح کی اخلاقی حدود سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو اگر اپنے بچوں کی صالح تربیت منظور ہے تو انھیں صرف ان کے ظاہری اعمال نہیں بلکہ ان کے احساسات پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔
*چھپی ہوئی زینت کے اظہار کی ممانعت *
وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ
” وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں تاکہ ان کی مخفی زینت ظاہر ہوجائے۔ “ جو ذوق زینت کو پسند کرتا ہے اس کے اندر زینت کا اظہار ایک فطری بات ہے۔ ایسا ذوق مردوں میں بھی رکھا گیا ہے اور عورتوں میں بھی، لیکن عورتوں میں یہ جذبہ مرد کی نسبت زیادہ ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورت سرتاپا حسن ہے اور اسی نے اس کے اندر ایک کشش پیدا کی ہے جس کے جواب میں مرد اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کے اندر یہ فطری جذبہ نہ ہوتا تو مرد جس طرح اس کے لیے بے تاب ہوتا ہے یہ بے تابی کبھی پیدا نہ ہوتی۔ اسلام نے اس جذبے کی تحسین فرمائی ہے۔ البتہ اس کے لیے ایک مخصوص دائرہ اور ایک مخصوص محل متعین کردیا ہے۔ جب یہ جذبہ اس دائرے سے باہر نکلتا ہے تو یہیں سے اخلاقی فساد پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں ان رشتوں کی ایک فہرست دی گئی ہے جن کے سامنے اس جذبے کا اظہار ہوسکتا ہے، لیکن جب گھر میں نامحرم موجود ہوں اور خاتون خانہ کو ان کے پاس سے گزرنا پڑے تو اسی جذبے کو حدود میں رکھنے کے لیے حکم دیا کہ پاؤں کو زمین پر زور سے مار کر نہ چلو تاکہ تم نے اگر اپنے پاؤں میں کوئی زیور پہن رکھا ہے تو اس کی کھنک نامحرموں کے کانوں تک نہ پہنچے۔
زیور پہننے پر اعتراض نہیں
لیکن نامحرموں تک اس کے اظہار پر اعتراض ہے۔ یہی اسلام کا وہ اعتدال ہے جس سے اخلاق صالحہ وجود میں آتے ہیں۔
زینت کے مفہوم میں وسعت
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی حقیقت کو کھولتے ہوئے اسے زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے یہ اصول بیان فرمایا کہ نگاہ کے سوا دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو حکم دیا کہ ایسی خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں جس کی مہک دوسروں تک بھی پہنچتی ہو۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
* اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجدوا ریحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدیدا ” جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے۔* “
اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ عورتیں بلاضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ کوئی ضرورت پیش آجائے تو پروردگار نے بات کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن جہاں کوئی دینی یا اخلاقی ضرورت درپیش نہ ہو وہاں اس کو پسند نہیں کیا گیا۔ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں، لیکن اگر عورتیں امام کے پیچھے ہوں اور انھیں امام کی غلطی پر تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو انھیں بولنے کی بجائے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی کو تصفیق کہا گیا ہے۔
*خلاصہ کلام *
یہ ہدایات چونکہ پورے مسلم معاشرے کی اصلاح و پاکی کے لیے دی گئی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ایک ایک فرد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ سب مل کر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلے میں جو احکام دیے گئے ہیں انھیں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم پر یقین رکھتے ہوئے زندگی کا رہنما بنائیں۔ اس صورت میں امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔۔