گھٹنوں پر سر رکھے وہ زار و قطار ایسے رو رہی تھی گویا جانے والی کا اس سے کوئی سگا رشتہ تھا۔ ضمیر کی ملامتیں اور اس کے نفس کی بودی تاویلیں ایک طویل کشمکش سے گزر کر اب چپ سادھ چکیں تھیں اور ۔۔۔۔۔۔
بنت مسعود احمد
سامنے کا منظر آہستہ آہستہ دھندلانے لگا تھا۔۔۔دل میں دکھ اور درد کی کیفیت نے ایک تلاطم سا برپا کر رکھا تھا اور دماغ ایک طرف جہاں اسے پرسکون رہنے کی تلقین کر رہا تھا تو دوسری طرف پچھلے گزرے کئی طرح کے ایسے ہی مناظر کی یاد دہانی بھی کروارہا تھا۔
"یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہے نا؟"
"کیا تمہاری آنکھیں اب تک ایسے مناظر سے مانوس نہیں ہوسکیں ہیں؟"دماغ پکارا۔ "یہ ممکن ہے اور یہ ناممکنات میں سے کب ہے جو ذہن و دل کو یہ قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔" " ہاں میں کب انکاری ہوں؟"دماغ کی تاویل کا فوری جواب دے کر وہ پھر اس منظر کو دیکھے گئی۔ "اور ایک وہ وقت بھی ہوگا کہ جب اس منظر کا حصہ تم ہوگی اور تمہاری جگہ کوئی اور بیٹھا شاید وہی سب سوچ رہا ہوگا جو تم سوچ رہی ہو۔"
"کیا ہے تمہیں۔۔؟"اس نے دماغ کو گھرکا۔
"چین سے جینے دو!"
"تم اپنی ٹو ڈو لسٹ پر نظر ثانی کرلو۔۔۔یہ تمہیں پریشان کرنا بند کردے گا۔"اب کے اس کے ضمیر نے اسے مخلصانہ مشورے سے نوازا۔
"ٹو ڈو لسٹ؟"اس نے اپنی بنائی ترتیب کو پھر سے اپ ڈیٹ کیا۔ "کچھ بننا ہے بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔۔۔وہ سب پانا ہے جس کی خواہش نفس سکھاتا ہے۔۔۔ایک اچھا لائف پارٹنر۔۔بڑا گھر۔۔۔ گاڑی۔اچھا لائف اسٹائل۔۔۔۔کچھ بینک بیلنس۔۔۔"
"اور۔۔۔؟؟" "اور۔۔۔بس؟؟؟" "کچھ حد ہے اس لسٹ کی۔۔۔؟"ضمیر نے سوال جڑا۔ حد کیا ہے۔۔۔یہ دنیا اتنی بڑی ہے تو خواہشیں بھلا کیسے محدود ہوسکتیں ہیں۔ "اور جو یقینی چیز ہے اس کو اس کی اس لسٹ میں "کچھ جگہ ہی نہیں۔۔؟"دماغ بولا۔ "کون سی چیز۔۔۔؟"وہ جان بوجھ کر انجان بنی۔
"یقینی ہے۔۔۔بھر بھی تم نے اسے لسٹ میں کیوں نہیں رکھا۔جب کہ سامنے موجود بے جان وجود اپنے گزر جانے کی گواہی کو کافی ہے۔"
"اب بھی مجھے یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ یقینی کیا ہے؟"دماغ اس کی یاداشت پر اش اش کر اٹھا۔ "پوری دنیا ایسے جیتی ہے کیا میں روگ لگالوں؟"اس کے اندر کوئی چلایا۔ "یہ اکڑ یہ غرور اور یہ غفلت۔۔۔ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔"ضمیر نے ایک اور وارننگ دی۔ "ٹھیک ہے دیکھیں گے۔"
"تم جانتی ہو صرف تمہارے وقت نکلنے کی بات نہیں ہے۔تم خود کو ایسے کیسے چھوڑ سکتی ہو جب کہ تم جانتی ہو کہ کوئی تمہارے تعاقب میں ہے۔"
"ہاں ہے تو تم کیوں میرے پیچھے پڑے ہو۔"اس کی سوچیں اسے اس جانب گھسیٹ رہی تھیں جدھر اسے ایک قدم بڑھانا بھی دشوار لگ رہا تھا۔
"اور کیا کہوں۔۔۔اگر تم سمجھو تو میں تمہارا مخلص ہوں۔" "ہونننہہہ ایسے ہوتے ہیں مخلص؟جو وقت سے پہلے ہی زندگی کو موت کے ڈراوے دینے لگیں اور گھٹ گھٹ کر ڈر ڈر کر جینے پر مجبور کردیں۔"
"آہ۔۔۔۔تم سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔۔۔میں تمہیں ڈراتا ہوں تو بھلائی تمہاری ہے فلاح تمہاری ہے۔۔۔باقی جانتی تو ہونا کہ تمہارے سفر کی آخری منزل بہرحال ایک۔۔"
"خاموش ہوجاؤ۔۔۔بس کرو۔۔۔۔مجھے جینے دو۔"
"تمہیں جینے سے منع تو نہیں کیا میں نے۔"
تم جی رہی ہو۔۔۔۔کیونکہ تمہیں ابھی جینا ہی ہے۔۔مگر یاد رکھنا اس میں مرضی تمہاری نہیں چل سکتی۔۔۔۔تم اس دنیا میں اپنی مرضی کی زندگی بے شک جی سکتی ہو۔۔۔۔مگر ایک مہلت تک ایک وقت معین تک۔۔۔پھر تم اپنی مرضی سے چند سال چند ماہ چند دن چند گھنٹے کیا ایک پل بھی نہیں جی سکتی۔"
"یہ دماغ نہیں اب کے اس کا ضمیر تھا جو اس کی پیشانی عرق آلود کر گیا تھا۔" "پھرررر۔۔۔میں کیا کروں؟"
"کیا کروں سے پہلے یہ سوال پوچھو کہ تم یہاں اس دنیا میں کیوں ہو اور کس لیے ہو؟جب ان گتھییوں کو سلجھالوگی تو یقینا یہ سوال تم خود حل کرنے کے قابل ہوجاؤ گی۔"
"تم ہی بتادو۔۔۔ذہن پر زور ڈالو۔۔۔۔تمہارے مالک نے تمہیں اس فانی دنیا میں بھیجا ہے اور اپنی بندگی کے لیے بھیجا ہے۔" "ہاں ہاں میں جانتی ہوں میرا اللہ بڑا رحیم ہے۔۔۔کریم ہے۔"وہ فورا چہکی۔ "اب اپنے سوال کا جواب تم خود دو.۔۔۔۔کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔" "ہاں مجھے اس کی بندگی کرنی چاہیے۔"
"تو کیا میں جینا چھوڑدوں۔۔۔۔؟"
"یہ کس نے کہا؟"
"بندگی کا طوق گلے میں ڈال کر جینا آسان ہوگا؟" اگر موت کو یاد رکھ کر چلو گی تو زندگی کی حقیقت خوب جان لو گی۔پھر ہر وہ کام سہل ہوگا جو تمہیں جنت تک لے کر جاۓ گا اور حقیقی سکون کا راز تم بر ایسے آشکار ہوگا کہ اس دنیا سے ہی جنت کا مزہ پانے لگوگی۔" "کیا یہ مشکل نہیں ہے؟"وہ الجھی۔
"جنہیں موت پر یقین نہ ہو ان کے لیے ہاں مشکل ہے۔"ضمیر نے جتلایا۔ "مجھ سے میرا رب کیا چاہتا ہے۔؟ "وہ مزید مزاحمت سے باز آئی۔ " تم یہ بھی نہیں جانتی ہو؟""کیا اتنی لاعلم ہو؟" "ہاں میں نہیں جانتی۔"وہ تڑپ کر رودی۔
"تم سمجھتی ہو کہ چین اس زندگی میں ہے جیسی تم گزار رہی ہو ؟" "نہیں ہے مجھے چین ذرہ برابر بھی نہیں"۔۔وہ دل کی بات کہہ کر پھر سے سسکی۔ "اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھ سے وہ سب نہیں ہو پاتا جو میرا رب مجھ سے چاہتا ہے۔" "یہ بے وفائی نہیں؟"ضمیر نے ایک اور وار کیا۔ "ہاں میں بے وفا ہوں۔۔۔میرا رب تو مجھے بن مانگے ہی سب کچھ دیتا ہے۔"اس نے یوں کہا جیسے اب اس کے پاس چھپانے کو کچھ باقی نہ رہا ہو۔
"پھر تم کیوں وہ نہیں کرسکتی جو وہ چاہتا ہے."
"ایک کوشش کرکے تو دیکھو۔۔۔اس رب کے لیے جو تمہارے وجود کا خالق ہے مالک ہے رازق ہے۔۔۔"ایک بار ہمت تو کرو۔۔وہ اپنی طرف آنے والے راستے آسان نہ کر دے تو کہنا۔"
"میں بہت کمزور ہوں ۔۔بہت بے بس۔۔۔"اس کے دل میں جیسے یکایک ایک تڑپ سی اٹھی تھی۔ "بھلے تم کمزرو سہی مگر تمہارا رب تو طاقتور ہے۔۔۔تم گناہوں کی سیاہیوں سے پلید سہی مگر تمہارا رب تو پاک ہے۔۔۔۔بھلے تم بندگی کا سلیقہ نہیں رکھتیں مگر تمہارا رب تو تمہیں چاہتا ہے ستر ماؤں سے بڑھ کر.۔۔تمہیں بھلے مانگنے کی جستجو نہیں مگروہ بن مانگے بھی عطا کرتا ہے تو کیا تمہاری کوشش کو وہ یونہی رائیگاں کردے گا؟ "ہاں میں بے بس ضرور ہوں مگر اس کے بس میں تو ہر ایک چیز ہے وہ تو ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے تو پھر میں کیوں نہ اس کی اس رحمت کی طرف دوڑو ں جو اس کے غضب سے بازی لے جاتی ہے۔"دل پر جیسے قطرہ قطرہ سکینہ کی پھوار سی پڑنے لگی تھی۔
گھٹنوں پر سر رکھے وہ زار و قطار ایسے رو رہی تھی گویا جانے والی کا اس سے کوئی سگا رشتہ تھا۔ ضمیر کی ملامتیں اور اس کے نفس کی بودی تاویلیں ایک طویل کشمکش سے گزر کر اب چپ سادھ چکیں تھیں اور وہ اپنے رب کے فضل سے اس ہدایت کا نور پاچکی جو بندے کو اس کے رب سے ملا دینے کا سبب ہوتا ہے۔