اہلیہ عبید خان

ذرا سنیے تو!!

کیا آپ جانتے ہیں  زندگی  خوبصورت بنانے کا فلسفہ کیا ہے ؟؟ کیا آپ اپنی زندگی  کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو   سلیقے  سے سلجھانا چاہتے ہیں  کیا آپ  زندگی سے اپنا حصہ  ،خوبصورتی سے کشید کرتا ہوا پاتے ہیں ؟؟ کیا آپ کا ماحول اور گھر آپ کو سکون  و اطمینان سے روشناس کرتاہے ؟؟ کیا آپ اور آپ کے قریبی رشتے داروں کے درمیان اعتماد و محبت  کے  گر م جوش تعلقات ہیں

اگر ان تمام سوالات کے جوابات 80٪ ”نہیں“میں ہیں ،تو  کیوں نہ  آپ ہمارے ساتھ چلیں  ہم آپ کو ایک ایسے سفر پر لے جانے  کا ارادہ  رکھتے ہیں ،جہاں سے آپ اپنی زندگی کے ہر تشنہ پہلو سے سیراب ہو کر  لوٹیں گے !اپنی الجھنوں کی تمام سلجھن سے واقفیت پائیں  گے!!اپنے تمام مسائل کاحل پائیں گے !!

* یہ بتاتے چلیں کہ یہ سفر آپ کو بور  اور بے زار  ہرگز نہیں کرے گا (ان شاء اللہ)،بلکہ آپ  کودلچسپ تفریح فراہم کرنے کے ساتھ  قدم   قدم پر  چونکا ئے گا،حیرت انگیز   خوشی اور مسرت کے قیمتی لمحات فراہم کرے گا ۔ سفر کے ان لمحات کو عملی زندگی میں لانے کے لیے آپ کو تھوڑی سی محنت کرنا ہوگی  ۔ چوں کہ دنیا دارالعمل ہے ،صرف سوچنے  ، ہوائی باتوں یا  وظیفوں سے   کام  نہیں بنے گا،   بلکہ کچھ کر کے دکھانا ہوگا ۔ یہ عمل ہی اس سفر کے لیے پاسپورٹ ، ویزہ ، ٹکٹ اور سامان ِ سفر ہے ۔

زاد راہ :

 اس سفر کا زاد راہ اور توشہ توجہ ہے ، جتنی اچھی توجہ ہوگی آپ کو سیاحت کا لطف  آئے گا ۔ ہمارے اس  سفر کی انتہائی  منزل تو ایک ”خوبصورت ومستحکم  ازدواجی رشتے “کا قیام ہے ،تاہم دوران سفر ،کئی  ٹرننگ پوائنٹس اور انٹر چینج بھی آئیں گے  جہاں بہترین اور شفاف راستے کی جانب ہم احادیث مبارکہ کی روشنی میں راہنمائی کریں گے ۔ آپ اپنا یہ  ازدواجی سفر  بزنس کلاس میں  کرنا چاہتے ہیں یا اکانومی میں ، جی ٹی روڈ   کی الجھنوں میں الجھنا چاہتے ہیں یا   موٹر وے    کے خوب صورت راستے کا انتخاب  کرتے ہیں ۔یہ چوائس اور فیصلہ  بہر حال آپ کے اختیار میں ہوگا ۔

سب سے خوب صورت رشتہ :

ازدواجی رشتہ کائنات کا سب سے خوبصورت رشتہ ہے ،سب سے پہلا جوڑا(آدم ؑ و حواؑکا ) ازدواجی رشتے کے مکمل احساس کے ساتھ دنیا میں اتارا گیا ۔ لیکن یہ رشتہ بغیر کسی محنت کے خوبصورت ہوتا نہیں بلکہ اسے خوبصورت بنایا جاتا ہے اور  خوبصورت بنانے کا سب سے بہترین   اور آسان طریق رسول اللہ ﷺ”  کی مثالی حیات طیبہ  سے اپنا حال  سنوارنا “ہے ۔

 

چوں کہ   اس خوب صورت   رشتے کی ابتدا  ”انتخاب “  ہی سے ہوتی ہے ۔لہذا” سیرت   طیبہ کی روشنی میں ازدواجی سفر  “  کا پہلا عنوان ”  انتخاب زوجین “ ہے ۔

لیکن ٹھہریے !!فریقین کا  انتخاب کرے گا کون؟ پھر اس کاcriteria کیا ہوگا؟

ہم 3 شقوں کے ساتھ  اپنے اس عنوان کو سمیٹیں گے ۔

1*زوجین کا چناؤمگر کیسے؟

2* دیومالائی حسن کی تلاش

3* مسٹرپرفیکٹ کی تلاش

جی ہاں! آپ کے ذہنوں میں موجود الجھن   ہم جان چکے ہیں !!یہی نا،  کہ فریقین کا انتخاب کرے گا کون؟ ہمارے عرف و معاشرے کے رواج کے مطابق، خاندان کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر فرد یعنی پورا کنبہ  یا جدید تہذیب کے مطابق لڑکا اور لڑکی خود؟؟

 اس الجھن کی سلجھن دیکھیے  :

سیرت طیبہﷺ کے مختلف  روشن پہلوؤں کامطالعہ ہمیں  معتدل طریقہ بتاتا ہے ”نکاح میں اجازت و اصل رضا مندی تو ہونے والے زوجین کی ہی  ہونی چاہیےکیونکہ اس خوبصورت بندھن  میں استحکام و مضبوطی تو دلوں کے میلاپ سے ہوتی ہے ۔اس کے لیے فریقین کی دلی رضامندی تو لازم ہے“

تاہم  شادی چونکہ صرف دو جسموں کا ہی میلاپ نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں کا سنگم بھی  ہے،اسی لیے   گھر  کے بڑے جن میں سر فہرست والدین ہیں ان کی رضامندی بھی رشتو ں میں خوبصورتی اور امن قائم رکھنے کے لیے از حدضروری ہے ،شریعت خود ولی کی اجازت کو اہمیت دیتی ہے ۔

اب ان تمام باتوں کو احادیث مبارکہ کے تناظر میں دیکھتے ہیں:

*   لڑکی کی رضا مندی کے متعلق فرمایا گیا:

جَاءَتْ فَتَاۃٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللهِ! إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِیْهِ یَرْفَعُ بِي خَسِیْسَتَهُ. فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَیْهَا، قَالَتْ: فَإِنِّي

قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَکِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَیْسَ لِلْآبَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ. ۔( أحمد بن حنبل: 6/ 136، رقم: 25087)

مفہوم:ایک لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کر دیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ ﷺ نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کر لے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔

  • دیکھا آپ نے! کیسے ایک لڑکی نے خوبصورتی کے ساتھ اپنے باپ کا مان بھی رکھا اور اس کی حد بھی متعین کروا دی ۔

*اسی طرح لڑکے کی رضا مندی  کے متعلق فرمان رسولﷺہے:

عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه مرفوعاً: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ؛ فَإنَّهٗ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأحْصَنُ لِلْفَرَجِ۔

(صحيح البخاري:5066)

مفہوم: رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے ( یعنی نکاح کرلینے سے اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور انسان حرام کاری سے بچتا ہے)

  • یہاں لڑکے کو اپنی جوانی محفوظ رکھنے کے لیے خود نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ۔یعنی اس کا انتخاب اہمیت کا حامل ہے۔

*اب ذرا ولی کی رضامندی کی اہمیت بھی ملاحظہ کرتے ہیں:

          قَال رَسُولُ اللَّهِﷺ:لَا تَنْكِحُوا النِّسَاءَ إِلَّا الْأَكْفَاءَ,وَلَا يُزَوِّجُهُنَّ إِلَّا الْأَوْلِيَاءُ(المعجم الأوسط للطبراني: 1/ 6، ط: دار الحرمين)

ترجمہ: نبی کریمﷺ نے فرمایا!”عورتوں کا نکاح ان کے اولیاء ہی کروائیں“

  • حیا و احسن تہذیب کا تقاضا یہی ہے کہ اولیاء کی رضامندی سے یہ نیک کام سر انجام پائے۔

2۔قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، یُسْتَأْمَرُ النِّسَاء فِي أَبْضَاعِهِنَّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَإِنَّ الْبِکْرَ تُسْتَأْمَرُ فَتَسْتَحْیِي فَتَسْکُتُ؟ قَالَ: سُکَاتُهَا إِذْنُهَا۔۔

 (بخاری، الصحیح، کتاب الإکراہ، بَاب لا یجوز نکاح المکرہ، 6/ 2547، رقم:6547)

مفہوم: (امی عائشہ ؓ فرماتی ہیں ) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! کیا عورتوں سے اُن کے نکاح کے متعلق اجازت لی جائے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کیا: کیا کنواری لڑکی سے بھی اجازت لی جائے گی جبکہ وہ شرماتی اور خاموش رہتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اُس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔

  • اس حدیث میں تو کتنی خوبصورتی سے چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا ، نہ بڑوں کا حق مارا گیا کہ انہیں ہی مخاطب کیا جارہا ،نکاح کرتے وقت اپنی خوشی کے ساتھ اپنی اولاد کی خوشی بھی دیکھو اور نہ اولاد کا حق مارا جارہا  کہ اس سے پوچھ کر ،اس کی رضامندی سے حامی بھرنے کا حکم ہے۔

خوبصورت نکتہ

  • یقیناً آپ کی نظر حدیث مبارک کے اس خوبصورت نکتے پر بھی گئی ہوگی ،کنواری ، شرمیلی دوشیزہ بھلا کیسے اپنی زبان سے اقرار کرے؟؟

جی ہاں! وہ  دلی رضامندی کے ساتھ خاموش رہے  ،اس کا خاموش رہنا ہی اس کی رضامندی شمار ہوگا۔  سبحان اللہ !   البتہ مرد ، بیوہ  یا مطلقہ کو زبان سے نکاح کا اقرار ضروری ہے ۔

اگر ولی نہ  ہو تو بھی خود رشتے کی بات کرنے سے بہتر  ہےکسی بڑے  یا قریبی دوست کے ذریعے  پیغام بھجوانا ،بھی  نا صرف یہ کہ پسندیدہ ہے بلکہ شریعت کے عین  مطابق ہے ، حضرت خدیجہ ؓ  کا رشتہ   (جو  خود مختار اور بزنس لیڈی تھیں اور آپﷺ سے نکاح کی چاہت رکھتی تھیں حضور ﷺ سے نکاح بھی دونوں کے چچاؤں کے ذریعے طے پایا گیا  ۔(تاریخ الا سلام للذھبی،شأن خدیجہ،1/ 63،64)

          گویا اعتدال و توازن ہر موقع پر ضروری ہے ،نہ فریقین ایسے بے باک ہوں کہ اپنا رشتہ لے کر خود پہنچ جائیں نہ ہی والدین تنگ ذہنی کا شکار ہوں کہ اصل فریقین سے بھی رضا مندی لینا ضروری نہ سمجھیں ۔

 

ارے ارے ٹھہریے! کہیں آپ رشتے کی تلاش میں نکل پڑے ہوں اور دعا سے بے نیاز ہوں ؟؟ دعا کا ہتھیار تھام کررکھیے ۔

ان دو دعا ؤں کا تو معمول بنالیں ”اللّھّمَّ یَسِّر لَنا جَلِیساً صَالِحاً ”اے اللہ! ہمیں نیک ہم نشین عطا فرما“ (بخاری :3748)

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ” پروردگار! جو خیر بھی آپ میری جھولی میں ڈال دیں، میں اس کا محتاج ہوں “ (قصص:28)

ملیں گے اگلی نشست میں ان شاء اللہ تب تک کے لیے اجازت دیجیے !