اہلیہ  محمدعبید خان

 زوجین لیے ”شادی“خود ایک سفر ہے جس کو خوبصورت ،حسین ،مطمئن اور پرسکون بنانے کے لیے صرف سیر و سیاحت یا تفریح کا عمل کافی نہیں ہے ، زوجین جب شرعی تقاضوں کے تحت ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث بنیں گے تو ان کے لیے ” ٹوارزم “گھر کے صحن میں خوشگوار ماحول میں چائے پینا،  نکڑ سے آئس کریم کھانا،باہر کے ممالک یا جگہوں پر جانے سے  زیادہ لطف و محبت کا باعث بنے گا ۔

شادی کے ہنگاموں سے فارغ ہوتے ہی نئے نویلے جوڑے سے زیادہ ،دوستوں یاروں یا سہیلیوں اور دیگر رشتے داروں میں یہ تجسس خوامخواہ بیدار ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ newly married couple”ہنی مون  پیریڈ“کہاں گزارے گا!! گویا مدعی سست ،گواہ چست!!

اس تجسس کی بنیاد،عموماً ہمارے معاشرے میں رائج ”سٹیٹس سیمبل “ہے جو اس قسم کے رسم و رواج کے ذریعےلوگوں کی نظر میں 'اونچا 'ہوتا ہے ۔ چنانچہ  وہ سیر و سیاحت و تفریح  جو ابتداءً زوجین  ، کے لیے تفریح اور انبساط کا باعث تھیں ، معاشرتی رسم و رواج کے تحت آکر ایک بَار اور بوجھ بنتی جارہی ہیں ۔

مغربی کلچر کی اندھا دھند تقلید  نے زوجین کی سادہ سی سیر و سیاحت  اور  تفریح کو ”ہنی مون“ کا نام دے کر شادی کا لازمی جز بنا دیا ،

ایسے میں خواہ اندرون یا بیرون ملک ”Tourism“کے لیے قرض لینا پڑے ، ملازمت پیشہ افراد کو طویل چھٹیوں کے لیے جھوٹے بہانے گھڑنے پڑیں  یا دیگر دینی و دنیوی کاموں میں حرج لاحق ہو ۔ان  سب  باتوں کی چنداں پروا کیے بغیر، صرف خاندان میں شملہ اونچا رکھنے  ، سہیلیوں یا دوستوں کے سامنے فخر سے بیان کرنے کے لیے ، نئی نویلی دلہن کی بے جا  ناراضی کے خوف سے ،یہ سیر و سیاحت ضروری خیال کی جانے لگی ہیں ۔مستزاد سوشل میڈیا کی” لائیو اپڈیٹس“ نے ،لوگوں کی ”پرائیویسی“کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ۔

خواہی نا خواہی ہر ایک کو ہمارے ہر قدم کا علم ہوتا ہے ۔

دیکھیں! شریعت جائز تفریح،سیر و سیاحت سے ہرگز منع نہیں کرتی ۔ لیکن جب کوئی کام رسم و رواج کا حصہ بن کر ضروری خیال کیا جانے لگے ،معاشرتی اعتبار سے لوگوں پر بار پڑے ، نہ کرنے والوں پر طنز ،طعن و تشنیع   اور  تضحیک کا سبب بنایا  جائے ،تو شرعی اعتبار سے  ایسے رسم و رواج کو ”شٹ اپ کال“دینی پڑتی ہے ۔ 

  مَن کا سکون:

دلوں کی خوشی،راحت  اور سکون کو شریعت خود پروموٹ کرتی ہے بالخصوص جبکہ وہ زوجین کے مابین ،محبت اورانڈراسٹینڈنگ کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے ۔ اسی وجہ سے صلہ رحمی کی تاکید کی گئی،اچھے اخلاق کو اپنانے کی ترغیب دی گئی نیز عفو درگزر بھی  اسی وجہ سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا  کہ مَن کا سکون ،ذہنی و جسمانی لحاظ سے ہلکا پھلکا رہنے میں ہے ۔

آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً فسَاعۃً(الجامع الصغیر للسیوطی)

دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو

اسی مناسبت سے حضرت علی ؓ سے مروی ہے 

اَلْقَلْبُ مُمِلٌّ کَمَا تَمُلُّ الْأبْدَانُ فَاطْلُبوا بِھَا طَرَائِقَ الْحِکْمَةِ․( احکام القرآن للمفتی محمد شفیع ،3/ 195)

’’ دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے، جیسے بدن تھک جاتے ہیں، لہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو‘‘

اور اسی طرح  مروی ہے:

رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَۃً بَعَدَ سَاعَۃٍ ، فَإِن الْقَلْبَ إِذَا أُکْرِہَ أَعْمٰی)الوقت عمارأو دمار)

” دلوں کو تھوڑی تھوڑی دیر میں آرام اور تفریح دیا کرو، کیونکہ اگردل میں کراہیت آجائے تو دل اندھے ہو جاتے ہیں“

چنانچہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج کے ساتھ سیر و سیاحت ا ور تفریح کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ، غزوات  کے سفر میں ازواج کے مابین قرعہ اندازی کی جاتی ،جن اہلیہ کے نام قرعہ نکلتا وہ شریک سفر ہوا کرتی تھیں ۔

امی عائشہ ؓ کے ساتھ تو دوران سفر ،تفریحاً دوڑ کا مقابلہ بھی دو بار کیا گیا ،

 عن عائشةَ،انھا کانت مع رسول اللہ ﷺ فی سفر، وهي جاريةٌ، فقال لأصحابِه : تَقَدَّموا، ثم قال : تَعَالَيْ أُسَابِقْكِ قالت : ” فسابقتُهُ فسبقتُهُ على رجليَّ، فلما كان بعدُ ، خرجتُ معه في سفرٍ ، فقال لأصحابِه : تَقَدَّموا ، ثم قال : تَعَالَيْ أُسَابِقْكِ ، ونَسِيتُ الذي كان ، وقد حَمَلْتُ اللَّحمَ،  فقلتُ : كيف أَسابِقُكَ يا رسولَ اللهِ وأنا على هذه الحالِ ؟ فقال : لَتَفْعَلِنَّ فسابقتُهُ فسبقَني فقالَ: هذِهِ بتلكَ السَّبقةِ،(متفق علیہ:282 قدیمی )

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریمﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھیں، اس وقت وہ(کم سن) لڑکی تھیں آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا تم لوگ آگے نکل جاؤ ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھے فرمایا آؤ دوڑ میں مقابلہ کرتے ہیں۔  میں نے آپﷺ سے مقابلہ کیا اور آگے نکل گئی۔ پھر ایک دن، آپ ﷺکے ساتھ سفر پر نکلی، آپﷺ نے اپنے صحابہ سے آگے نکلنے کا فرمایا اور مجھے دوبارہ دوڑ میں مقابلےکا فرمایا میں نے کہا اے اللہ کے رسول میری یہ حالت ہے(یعنی بھاری بدن ہوچکا ہے) میں آپ سے کیسے مقابلہ کر سکتی ہوں آپ ﷺنے فرمایا  کرنا تو ضرور ہو گا میں نے جومقابلہ کیا تو آپﷺ مجھ سے آگے نکل گئے۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے یہ اس (سابقہ) فتح کے بدلے میں ہے

 یہ خوبصورت حدیث   زوجین کے مابین ، مضبوط بانڈنگ بنانے کے کئی پہلوؤں کو روشن کررہی ہے :

مصروفیت کے باوجود بیوی  سے تفریح کا وقت نکالنا(آج ہمارے مرد حضرات کے پاس،بیوی  کی دلجوئی کے لیے ”وقت ہی نہیں ہوتا“ ،جبکہ وہﷺ بار نبوت اٹھا کر بھی بیوی کو تفریح فراہم کررہے ہیں)

پردے اور حیا کا خیال رکھنا(صحابہ کرام کو آگے نکلنے کا فرمانا)جبکہ افسوس! آج مسلمان سیاحین، سب سے پہلے حیا اور غیرت کا پردہ چاک کرتے ہیں ۔نہ ہمارے مردوں کو بیوی کے پردے کی فکر،نہ عورتوں کو ،خود کو مستور رکھنے کا احساس!!

بیوی کے موٹاپے میں بھی اس سے دلگی اور ملاطفت کا اظہار فرمانا۔

بیوی کے ساتھ خوش دلی سے سیر و سیاحت کرنا۔

 

اسلام کا فلسفۂ سیر و سیاحت:

اسلام میں کسی بھی چیز کے اندر  ”مقصدیت “ اہمیت کا حامل ہے ، کوئی بھی کام فضول اور بے کار نہیں ہونا چاہیے ،اس کاقیمتی اور اعلیٰ مقصد  کے ساتھ ربط ہونا ضروری ہے ۔

مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَا لاَیَعْنِیْہِ (ترمذی)

”آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے کہ وہ بے کار کاموں کو ترک کردے “

گویا اچھا مسلمان ،لغویات کے ترک سے بنتا ہے ۔  فلسفۂ سیر و سیاحت یا تفریح  کے پس منظر میں بھی یہی” مقصدیت “ غالب ہے۔

قرآن مجید کے بغور مطالعے سے ہمیں آگاہی ملتی ہیں کہ سیر و سیاحت کئی مقاصد کے پیش نظر اختیار کیا جاسکتی ہے،ان میں کسی بھی مقصد کے ساتھ زوجین اپنی سیر و سیاحت کو جوڑ کر دنیا و آخرت کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

تاریخی و قدیمی  مقامات کی سیر:

سیاحت کا اہم مقصد ،عبرت،وعظ و نصیحت ہے ،اس کے لیے تاریخی و  قدیمی مقامات کی جانب سفر کی قرآن خود تلقین و تاکید کرتا ہے ۔ لیکن ایسے مقامات کو تفریح اور کھیل کا حصہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ ان کے احوال کا بغور مطالعہ اور زوال پذیر انجام کی وجوہات سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے ۔

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(نمل :69)

”زمین میں چل کر دیکھو، مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟“

یہ صرف ایک ہی نہیں کئی ،بلکہ اس سے مماثل دیگر آیات بھی ،سیاحت کے اس مقصد کو اجاگر کرتی ہیں۔

عبادت مقصودہ کے لیے سفر:

زوجین ،بسا اوقات عمرے یا حج  کے سفر کو بھی ترجیح دیتے ہیں ،یہ سب سے افضل عمل ہے ،لیکن مناسب یہ ہے کہ اس بابرکت سفر کو اغیار کی تقلید میں آکر ”ہنی مون“ جیسا نامناسب نام نہ دیا جائے ۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي السِّيَاحَةِ، قَالَ النَّبِيُّ ۥﷺ:”إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى“

”ایک آدمی نے نبیﷺ سے عرض کیا ”یا رسول اللہﷺ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے “ فرمایا: ”يقيناً ميرى امت كى سياحت اللہ کے راستے میں جہاد کرناہے“

دیکھیے! اس حدیث مبارک میں بھی سیاحت کو اعلیٰ اور قیمتی مقصدیعنی عبادت   سے جوڑا ۔

چونکہ خواتین کا جہاد” حج کرنا“ ہے لہذا اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ خواتین  کی سیاحت عمرے و حج کا سفر ہے ۔جو کہ محرم کے ساتھ کیا جائے گا۔

"عن عائشة قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، ألَا نَغْزُو ونُجَاهِدُ معكُمْ؟ فَقالَ: لَكِنَّ أحْسَنَ  الجِهَادِ  وأَجْمَلَهُ  الحَجُّ، حَجٌّ مَبْرُورٌ، (صحيح البخاري)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:” اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم (عورتیں) آپ کے ساتھ جہاد اور لڑائی میں شریک نہ ہوں؟“ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:” نہیں، البتہ بہترین اور خوب صورت جہاد حج ہے، یعنی ”مقبول حج“

ایک اور حدیث مبارک سے بھی اسی عمل کی تائید ملتی ہے :

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى (متفق علیہ)

" تين مسجدوں مسجد حرام، اور مسجد نبوى، اور مسجد اقصى كے علاوہ كسى اور كى جانب سفر نہ كيا جائے "

یعنی مقدس مقامات میں ان 3 جگہوں کا ارادہ  کرکے نکلنا باعث ثواب ہے ،اس کے تابع ہوکر باقی زیارت کے مقامات بھی دیکھ لیے جائیں تو حرج نہیں ۔

اس کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد اور بابرکت مقامات برابر ہیں ، کسی کی زیارت یا سیر و سیاحت بذات خود ثواب کا کام نہیں ہے ،ثواب بامقصد نیت  اور عمل سے حاصل ہوگا (جیسے عموماً لوگ فیصل مسجد کی زیارت کے لیے سفر کرتے ہیں )

مظاہر کائنات کی سیر۔

قدرت کے حسین اورخوبصورت مناظر کو دیکھ کر اللہ کی کبریائی بیان کرنا، شکر گزاری کے احساسات  سے لبریز ہونا، آنکھوں کو تراوٹ بخشنا بھی پسندیدہ ہے ۔قرآن کی خوبصورت آیات اس عمل کو ثابت کرتی ہیں ۔

اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ (الغاشیۃ)

”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟ اور آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟ اور پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑدیے گئے ہیں ؟ اور زمین کو کہ کیسے بچھا دی گئی ہے ؟

ان آیات کے تحت  کہا جاسکتا ہے کہ شمالی علاقہ جات اور پہاڑی مقامات  کی سیر و سیاحت ، اونٹ  کے تخلیقی عجائبات دیکھنے کے لیے ریگستانی سیاحت ، آسمان سے برفباری گرنے کے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سرد علاقوں کی تفریح  کرنا نہ صرف جائز ،بلکہ اچھی نیت کے ساتھ ،حدود شریعت کی پابندی کرتے ہوئے مستحسن عمل بھی ہوگا ۔

تبلیغ دین کے لیے سفر:

تبلیغ ،اشاعت دین کے لیے سفر کرنا،انبیاء  سے لے کر صحابہ کرام ،اور سلف صالحین کا معمول رہا ہے ، ازواج مطہرات اور صحابیات غزوات میں بھی آپﷺ اور صحابہ کے ہمراہ جایا کرتی تھیں ، لہذا اس سنت کی تقلید میں زوجین بھی اپنے ساتھ کو اخروی اعتبار سے قیمتی بنا سکتے ہیں۔

ممنوع سیاحت:

ان تمام کے برعکس  ایسی جگہوں  و ممالک کی سیاحت کرنا ،جہاں فحاشی ،شراب نوشى اوربے حیائی  کا کلچر عام ہو کہ اپنے ایمان و دین کی حفاظت ہی مشکل امر ہو، ایسی تمام جگہیں ایک مسلمان کے لیے شجر ممنوعہ ہیں کہ اپنے ایمان کی حفاظت ،اولین ترجیح ہے ۔ مسلمانوں   کو گناہوں و نافرمانيوں سے دور رہنے كا حكم ہے، اس ليے نہ تو وہ خود گناہ و  نافرمانى كا مرتكب ہو، اور نہ ہى وہ حرام  كا ارتكاب كرنےوالى قوم كے  ساتھ میل میلاپ اور مجالست رکھے ۔

کلام باری تعالیٰ میں واضحاً ممانعت ہے :

وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ‘‘ (الانعام:151)

’’ بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت پھٹکو، خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ  “

لہذا ،کفار کے وہ ممالک یا جگہیں  جن میں بے حیائی،بد تہذیبی ،شراب نوشی،مرد و زن کے محابا  ،فحش اختلاط کا کلچر عام ہیں ان جگہوں پر سیاحت کے لیے جانا ،جائز نہیں ہوگا۔

زوجین کی حقیقی تفریح:

سیاحت کے متعلق تو یہ تمام تفاصیل اس وقت ہیں ،جب زوجین مالی طور پر مستحکم ہوں اور واقعی کسی دور دراز مقام پر سیر و سیاحت کی خواہش رکھتے ہوں ،تو ”مقصدیت“  کے پیش نظر سیاحت کا پروگرام بنایا جاسکتا ہے ،اس شرط کے ساتھ کہ اس کو شادی کا ضروری حصہ ہرگز خیال نہ کیا جائے ۔اسراف نہ کیا جائے ،بے حیائی سے بچا جائے ،اپنے دیگر شرعی امور مثلا نماز وغیرہ  کی لازماً رعایت رکھی جائے ۔

تاہم ان سب کے باوجود، احادیث مبارکہ کے ذخیرے  نیز صحابہ کرام کے طرز عمل سے کہیں بھی یہی بات ثابت نہیں ہوتی کہ انہوں نے شادی کے بعد ازواج کو لے کر سیر و سیاحت کا قصد کیا ہو ۔

حق بات تو یہ ہے کہ زوجین لیے ”شادی“خود ایک سفر ہے جس کو خوبصورت ،حسین ،مطمئن اور پرسکون بنانے کے لیے صرف سیر و سیاحت یا تفریح کا عمل کافی نہیں ہے ، زوجین جب شرعی تقاضوں کے تحت ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث بنیں گے تو ان کے لیے ” ٹوارزم “گھر کے صحن میں خوشگوار ماحول میں چائے پینا،  نکڑ سے آئس کریم کھانا،باہر کے ممالک یا جگہوں پر جانے سے  زیادہ لطف و محبت کا باعث بنے گا ۔گویا ہر ایک دوسرے کے لیے Honey ہوگااور ہر ساتھ  بیتا لمحہ ان شاء اللہ  ” ہنی مون“ ہوگا۔

زوجین کے لبوں پر اس دعا کے اہتمام کے ساتھ ،تحریر کا اختتام کیا جاتا ہے :

اَللّٰهُمَّ اَلِّفْ بَيْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوْرِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ(سنن أبی داؤد)

’’اے اللہ ! ہمارے دلوں کے اندر الفت ڈال دے اور ہمارے درمیان صلح کرا دے اور ہمیں سلامتی کے راستے دکھا دے اور ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرح لے چل اور بچ لے ہم کو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی بے حیائی سے۔‘‘