بندہ جب اللہ کا مہمان بنتا ہے تو وہاں کے ماحول کے نورانی اثرات اور برکات لازمی اس پر پڑتے ہیں اس لیے حج سے آنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیتے رہا کریں کہ وہ نورانی کیفیات ابھی باقی ہیں یا نہیں اگر موجود ہیں تو سبحان اللہ ان کیفیات کو ما ند پڑنے سے پہلے ان قیمتی کیفیات کی حفاظت کرنا بھی ایک حاجی کی ذمہ داری ہے

عذرا خالد

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے احکام و تعلیمات نبی مکرم ﷺ کے زریعے ہم تک پہنچائی ہیں۔ان احکام میں عبادات بھی شامل ہیں ۔نماز جو پانچ وقت ادا کی جاتی ہیں اور جو جہاں مقیم ہو، اسی وقت کے حساب سے نماز ادا کرتا ہے ۔سال میں ایک ماہ کے روزے فرض ہیں ،کرہ ارض میں جہاں ہوں ادا کر سکتے ہیں، زکوٰۃ بھی سال میں ایک دفعہ صاحب نصاب پر جہاں ہو وہاں ادا کر سکتا ہے لیکن حج کا مبارک فریضہ اسلام کا ایسا رکن ہے ،جو صاحب استطاعت پر زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔حج کے مناسک خاص اوقات میں اور مخصوص جگہوں پرادا کیے جاتے ہیں اور یہ مخصوص مقامات بیت اللہ الحرام اور مشاعر مقدسہ ہیں۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس ذات پاک نے اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا۔ دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان گناہوں کا بوجھ لیے بغیر کسی تفریق کے رنگ، نسل،قوم قبیلہ، برادری، زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ وار، بے خودی کے عالم میں احرام کی دو چادروں میں نمناک آنکھوں اور لرزتی چال کے ساتھ زبان سے لبیک کا ترانہ دیوانہ وار پڑھتے ہوئے بارگاہ الہی میں حاضر ہوتے ہیں۔ .لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ والنِّعْمَة لَكَ والمُلْكُ، لَا شَرِيكَ لَكَ

حج ایک بامشقت فریضہ ہے، حج کی ادائیگی کے لیے اچھی خاصی جسمانی اور مالی مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت ہو، ذات حق کی طلب صادق ہو تو مشقت اور مال کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ بس صرف اسی کی محبت، معرفت، خوشنودی اور رضا کی لگن ہوتی ہے۔ جان، وقت اور مال سب مالک حقیقی کی راہ حاصل کرنے کے لیے صرف کیا جاتا ہے اور ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ہماری یہ عبادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے۔

اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔(سورۃ محمد)

حج عظیم فریضہ ہے ،حاجی مقدس مقام پر رہتا ہے جو رب العزت کا گھر ہے اس کے پیارے رسول اللہﷺ کا مولد ہے اور جہاں شعائر اللہ ہیں ان تمام مقامات کو گواہ بناکر اپنی آئندہ زندگی کا نئے سرے سے آغاز کرنے کا عہد وپیمان کرتا ہے اس امید اور شعور کے ساتھ یہ نومولود جو حج کے بعد پاک و صاف ہو کر اللّٰہ کے گھر کو الوداع کہتا ہے اور اس عزم و اقرار کے ساتھ واپس اتا ہے کہ اللہ کی عظمت کا اسے پوری ذندگی استحضار رہے گا۔

نماز جمعہ اور دیگر نماز کی جماعتوں میں جہاں صرف ایک محلے یا علاقے کے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں،وہاں صاف ستھرا اور خوشبو لگا کر جانے کا کہا گیا ہے لیکن حج میں ان سب چیزوں سے روکا گیا ہے اور ایک دیوانہ اس حال میں حاضر ہوتا ہے کہ بال بکھرے ہوئے جسم پر دو چادریں وہ بھی غبار آلود کیونکہ اس حال میں غرور و تکبر اور دیگر اخلاقی غلاظتوں کی صفائی کرنا اللہ تعالیٰ کو کرنا مقصود ہوتا ہے۔

جمرات میں رمی کرنا شیطان سے نفرت کا اظہار اور رب العزت سے عشق ومحبت کے شدید اظہار کو ظاہر کرتا ہے۔رب العزت کی محبت کی خاطر دیگر محبتوں کو قربان کرنا حجاج کا شعار ہوتا ہے ۔

جب ایک زائر اسلام کے دو عظیم مقامات کو دیکھ لیتا ہے میدان عرفات میں خوب رو دھو کر دعائیں کرتا ہے رب تعالیٰ کے سامنے گناہوں کا اعتراف کرکے ان کی معافی کی التجا کرتا ہے خوب چیخ پکار کرکے اللّٰہ سے ہدایت کی دعا مانگتا ہے اور اس وقت ایک بندہ کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے بہت قریب ہے اور اس کا رب اس پر انتہائی رحیم و کریم ہے ۔

یہ سب لمحات بندے کی آئندہ زندگی کو پاک صاف اور سیدھے دین کے راستے پر چلنے میں معاون ہوتے ہیں۔ حجاج کرام کو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ کے کلمات کو دل میں یاد رکھنا چاہیے تاکہ آئندہ کی زندگی نبی مکرم ﷺ کے بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق گزار سکے۔

ہمارے پیارے نبی مکرم ﷺ نے اپنے خطبہ حج میں وہ رہنما اصول بیان کیے جو نہ صرف ہمارے لیے رہنما اصول ہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہر حاجی کو حج کے بعد صرف اور صرف نبی مکرم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع پر عمل کرنا چاہیے اس خطبے کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرمایا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کا خطاب امت کو الوداع کہنے والی وصیت معلوم ہوتا تھا۔

حج کے بعد ہر حاجی کو اس بات کا خاص خیال ساری زندگی رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان شعائر کا خود مشاہدہ کر کے آیا ہے اور گناہوں سے ایسا پاک ہو گیا ہے جیسے اس کی ماں نے آج جنا ہو ۔

اس لیے حجاج کرام کو اپنے حج کی لاج اور حفاظت کرنی چاہیے اس کے ساتھ ہی مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد ان کی بدنامی کا باعث نہ بنے کہ لوگ یہ کہیں کہ حج کر کے مقامات مقدسہ جاکر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔

ایمان اور اس کے ساتھ مقامات مقدسہ کا شعور ایک ایسا توشہ ہے جو ایک حاجی اس ارض پاک سے لے کر لوٹتا ہے یہی ایسا توشہ جو غذا بھی ہے جو حاجی کی بقیہ زندگی گناہوں سے پاک اور صاف کر دیتی ہے۔

حج کے مناسک بندہ کے دل پر چھپ جاتے ہیں۔رب تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کو اس طرح سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کسی چیز کی تربیت لینے کے لیے اس کے ادارے یا انسٹیٹوٹ میں داخلہ لیا جاتا ہے اور وہ دینی ،تعلیمی یا جسمانی تربیت فراہم کرتے ہیں یہاں سے صرف تربیت ملتی ہے اصل کام اس انسٹیٹیوٹ یا ادارے سے فارغ ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے جیسے کوئی اگ بجھانے کی تربیت لیتا ہے یا کوئی گارڈ جب اپنی ٹریننگ سے فارغ ہوتا ہے تو عملی زندگی میں اس کی پریکٹس شروع کرتاہے۔اسی طرح جب حج کرنے میں جو تر بیت حاصل ہوتی ہے اس سے آگے کی زندگی میں عمل کرکے اللّٰہ کے احکام مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔

ایک حاجی اپنا گھر ،اپنے عزیز واقارب ،راحت وسکون اور دیگر قربانیاں دے کر اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے اللہ کا مہمان بنتا ہے اور اب وہ اسی رب کا ،رحمن کا،رحیم و کریم کا سفیر بن کر ارض مقدس سے رخصت ہوتا ہے۔ حج کے انوار و برکات دوسری تمام عبادات نماز، روزہ ،زکوٰۃ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔مسجد الحرام کی برکات اور رحمتیں ہر انے والے بندے کو حاصل ہوتی ہیں ۔بیت اللہ جاتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہ نہیں جو اپنے گھر اور اپنے ملک میں تھا اور ان ہی فیوض وبرکات سے آنے والی زندگی پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔

حج کے تمام مناسک ادا کر لینا حج ادا ہونا ہے لیکن ایک ہے حج کا بارگاہ الہی میں قبول ہونا ۔علمائے دین نے حج قبول ہونے کی مختلف کیفیات اور علامات کا ذکر کیا ہے اور ان ہی کیفیات کے مطابق حج کے بعد کی زندگی گزانے کی سعی کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد اعمال میں بہتری پیدا کرنی چاہیے ۔ اس بات کو ایک حدیث کے مفہوم سے وضاحت ہوتی ہے کہ نیکی کے قبول ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ ایک نیکی کے بعد بندےکو دوسری نیکی کرنے کی اللہ کی طرف سے تو فیق نصیب ہو جاتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہر کوئی اپنا خود محاسبہ کرے کہ وہ پہلے جتنا فرائض اور واجبات ادا کرنے میں کرتا ہے یا پہلے سے زیادہ اہتمام کرنے لگا ہے یا نہیں؟ گناہوں سے بچنے کی زیادہ کوشش کرتا ہے یا پہلے سے کوشش میں کمی آگئی ہے ان سب اعمال کا محاسبہ کرنے سے اگر جواب پہلے سے بہتر ائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حج اس کا مقبول ہوگیا ہے ۔ حج کے بعد جتنی زندگی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اس کی قدر کریں اور حرمین شریفین کی محبت و عقیدت کو دل میں بسائے رکھیں اور اپنے سفر حج کا ذکر بہت محبت اور رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے کریں۔

بندہ جب اللہ کا مہمان بنتا ہے تو وہاں کے ماحول کے نورانی اثرات اور برکات لازمی اس پر پڑتے ہیں اس لیے حج سے آنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیتے رہا کریں کہ وہ نورانی کیفیات ابھی باقی ہیں یا نہیں اگر موجود ہیں تو سبحان اللہ ان کیفیات کو ما ند پڑنے سے پہلے ان قیمتی کیفیات کی حفاظت کرنا بھی ایک حاجی کی ذمہ داری ہے۔

حج کے بعد زندگی کو سادہ اور آسان بنائیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اسوہ رسول اللہﷺ کے اتباع میں زندگی گزارنے کی ہر ممکن کو شش کریں۔

اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حجاج(حج کرنے والوں)اور معتمرین(عمرے کرنے والوں)کا حج اور عمرہ اپنے خاص کرم سے قبول فرمائے، اس دوران ہونے والی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔

اللہ رب العزت ہر مسلمان کے دل کی اس مبارک آرزو کو پورا فرمائے کہ اسے حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق زندگی میں ایک بار ضرور ملے۔

حج کی قبولیت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کر لیتا ہے۔ بیت اللہ اور روضہ رسول اللہﷺ کے انوار و برکات جو اپنی آنکھوں میں سموں کر اپنے دل میں محفوظ کر کے لایا ہے اسے ضائع ہونے سے بچانا بھی ایک حاجی کے لیے بہت ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ہی بندوں کے معاملات یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں نہ تو سستی کا مظاہرہ ہو اور نہ ہی کسی معاملے میں کوتاہی کرے۔

حج کے بعد بندے کواپنے جسم کے ایک ایک عضو کو اللہ کے احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات میں ڈھال دینا ہی حج کے بعد کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔