عذرا خالد
اسلام کے پانچ ارکان میں ایک حج بھی ہے۔ حج کی فرضیت قرآنِ مجید اور حدیث نبویﷺ میں ایسے ہی بیان کی گئی ہے، جیسے اور ارکانِ دین نماز ،روزہ اور زکوٰۃ کی بیان کی گئی ہے۔

سورہ اٰلِ عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہوتا ہے، امن پا جاتا ہے اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔

حج کی جلد ادائیگی کے بارے میں حدیث نبوی ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حج یعنی فرض حج میں جلدی کرو ، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔‘‘ ہر صاحبِ حیثیت پر زندگی میں ایک بار حج کا سفر بطورِ عبادت اور روحانی تزکیہ کرنا لازمی ہے۔ سفر کو اللہ سے قربت حاصل کرنے اور اس کی برکتیں حاصل کرنے کے راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے حج کا سفر خالص خالق ِکائنات کے گرد گھومتا ہے۔

اس کی ظاہری شکل حضرت آدم علیہ السّلام کے مناسکِ حج کی روایتوں اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت محمدﷺ کے حج کے مناسک کی قرآنی تفصیلات سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
اس کا مرکزِ نگاہ اللہ کے علاوہ کوئی نبی، عظیم شخصیت، واقعہ یا جگہ نہیں ہوتی اور مقاصد صرف الله کی عبادت، اللہ کی رضا، اس کی قربت کا حصول اور اس کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت ہونا ہوتا ہے۔ ان مقاصد کو تفصیلًایوں بیان کرسکتے ہیں۔
اللہ کی وحدانیت اور عظمت کا اظہار:
سفر ِحج کے ذریعے مسلمان اللہ کی وحدانیت اور عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، جو ایک قدیم عبادت گاہ ہے اور اللہ کا پہلا گھر ہے-صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتے ہیں، جو حضرت ہاجرہ علیہاالسّلام کی یاد میں ہے۔ وہ منیٰ میں وقوف کرتے ہیں، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی قربانی اللہ کا حکم مانتے ہوئے دینے کی کوشش کی تھی۔

یہ تمام اعمال مسلمانوں کو اللہ کی وحدانیت اور عظمت پر غور کرنے اور اس کی عبادت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی وحدت کا مظاہرہ:

حج کے دوران دنیا بھر کے مسلمان اجتماعیت اور ایمان کا مشترکہ اظہار کرتے ہیں۔ وہ ایک ہی لباس، احرام میں ملبوس ہوتے ہیں، جو تمام طبقاتی اور سماجی امتیازات کو دور کرتا ہے۔ وہ یکساں مقاصد کے لیے ایک ساتھ کام کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ یہ وحدت اور برابری کا مظاہرہ مسلمانوں کے لیے ایک طاقت ور تحریک ہے اور انھیں دنیا میں ایک مثبت قوت بننے میں مدد کرتا ہے۔
گناہوں سے معافی اور تقویٰ کا حصول:
حج کے ذریعے مسلمان اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتے اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات سے دور کرتے ہیں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔یہ اعمال مسلمانوں کو اپنے کردار کو بہتر بنانے اور زیادہ پرہیزگار بننے میں مدد کرتے ہیں۔ دعائیں اور التجا: حج کے دوران مسلمان اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے دعائیں اور التجا کرتے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات اور خواہشات کو اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس سے مدد اور رہنمائی چاہتے ہیں۔ حج ایک طاقت ور روحانی تجربہ ہے جو مسلمانوں کو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔ علم کا حصول: حج کے دوران علم کا حصول بھی ایک اہم مقصد ہے۔ مسلمان احکامِ حج اور اس کے فلسفے کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے ایمان کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ علم مسلمانوں کو ایک بہتر انسان اور معاشرے کا زیادہ ذمہ دار رکن بننے میں مدد کرتا ہے۔اسلام میں سفرِ حج ایک جامع عبادت ہے، جس میں روحانی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کا امتزاج ہے۔یہ مسلمانوں کے لیے ایک طاقت ور اور transformative تجربہ ہے، جو ان کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔حج کا عمیق تجربہ خود شناسی اور خود غور و فکر کرنے کا عملی تجربہ دیتا ہے۔ جذبۂ عاجزی و شکر: حج کی ادائیگی کے دوران زائرین اپنی زندگی کا جائزہ لینے، ذاتی ترقی کی تلاش اور مثبت تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔اس اہم عبادت سے عازمینِ حج کے اندر عاجزی اور شکر گزاری جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کی قدر کرنا سیکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں صبر، استقامت اور عاجزی کی اہمیت کو پہچانتے ہیں۔یہ شکر گزاری اور عاجزی ان کے کردار اور طرزِ عمل کی تشکیل کرتی ہے اور یہ صدیوں سے کر رہی ہے۔