زیبی ندیم

بچوں کی تعلیم و تربیت کی براہِ راست ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر ہوتی ہے۔ گو گھر کے دوسرے لوگ اور آس پاس رہنے والوں کو بھی اس میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ معاشرہ اسی سے بنتا ہے۔ لیکن پہلی اور بنیادی ذمے داری بہرحال والدین کی ہوتی ہے۔ پھر اساتذہ بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عنداللہ اورعند الناس یہی دو فریق اور طبقے جواب دہ ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی تعلیمی صلاحیت اور اخلاقی حالت اگر قابل تحسین اور لائق داد ہو تو والدین اسے اپنی کامیابی شمار کرتے ہیں اور اساتذہ اپنی محنت اور توجہ کا ثمر قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ کسی بچے کی تعلیمی حالت یا اخلاقی کیفیت کمزور یا ناگفتہ بہ ہو تو پھر والدین اس کی ذمے داری اساتذہ پر ڈالتے ہیں اور اساتذہ کے خیال میں بچے کی ہر غلطی، کمزوری اور لاپروائی کے ذمے دار اس کے والدین ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب اونچ نیچ ہوگی تو اس کی ذمے داری کوئی ایسا آسان نہیں ہوتا کہ کھلے دل سے کوئی فریق اپنی بے توجہی کا اعتراف کرے۔ جب ذمے داری دونوں کی ہے تو دونوں فریقوں کو اس کا احساس کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے تاکہ بچہ والدین کا بھی نام روشن کرے، اساتذہ کی آنکھوں کا بھی تارا بنے۔ جس ادارے سے پڑھ کے فارغ ہو، وہ ادارہ اس بچے کو اپنا قابل فخر طالب علم شمار کرے۔

یہ تو ہوگئی ایک عمومی بات، آج کی نشست میں ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے ان دونوں فریقوں خاص طور پر والدین کی توجہ ایک بہت اہم اور خاص معاملے کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے کاتعلق اس تعلیمی ہوم ورک سے بھی ہے، جو نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ہم نصابی سرگرمیوں سے بھی ہوتا ہے جس میں بچے کو گھر سے کوئی چیز بنا کر لانا ہوتی ہے، کوئی مضمون لکھنا ہوتا ہے کسی موضوع پر تقریر کرنا ہوتی ہے۔

ہم نے بارہا دیکھا، سنا اور اساتذہ و تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی طرف سے اس کو بطور شکایت پایا کہ بچے کا ہوم ورک اس کی امی کردیتی ہیں۔ کبھی اس کی بڑی بہن کردیں گی، بھائی کردے گا، کبھی والد گرامی کو یہ زحمت کرنا پڑتی ہے۔ کبھی کسی دوسرے عزیز سے یہ خدمت لی جاتی ہے۔ ہوم ورک کرنے والوں کو بتکلف اپنی تحریر اورانداز بچکانہ بنانا پڑتا ہے، تاکہ یہ محسوس نہ ہوکہ یہ ہوم ورک کسی بڑے نے کیا ہے۔ بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھی تھوڑی بہت غلطیاں بھی کی جاتی ہیں۔ یہ سب کرکے خانہ پری تو کر لی جاتی ہے لیکن اس طرح کی کارروائی ایک تو جھوٹ ہوگیا، بچے کی تربیت پر اس کا غلط اثر پڑتا ہے۔ بچہ سہل پسند اور سست بھی ہوجاتا ہے۔ غلط بیانی اور جھوٹ کو معمولی بات سمجھنے لگتا ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس بچے کی تعلیمی صلاحیت کیسے بہتر ہوگی، جس کا سارا کام اس کے والدین، بھائی بہن یا دوست احباب کردیں۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ محبت میں والدین اور گھر والے بچے کو ہمیشہ گود میں لیے پھریں، اسے چلنے نہ دیں، اسے کوئی محبت نہیں سمجھتا کیوں کہ ایسا بچہ تو اپاہج رہے گا، کبھی بھاگ دوڑ نہیں کرسکے گا۔ بالکل اسی طرح وہ بچہ امتحان میں کیسے کامیاب ہوگا جس کے کام اس کے گھر والے کرتے رہیں گے۔ یقیناً وہ پھر نقل کرے گا اور عموماً ایسے ہی بچے ، طلبہ نقل کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے ہوم ورک میں یہ تعاون بچے سے ہمدردی،محبت نہیں بلکہ اس سے دشمنی ہے۔ اس کی بجائے اس کی مدد یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کا پڑھا ہوا یاد کروایا جائے، گھر میں پڑھنے کے وقت اس کے ساتھ بیٹھا جائے۔ اس کی لکھائی (ہینڈ رائٹنگ) درست کی جائے۔ رف کاپی پر اس سے لکھوا کر اس کی غلطیاں اسے بتائی جائیں۔ نصابی کتب کے ساتھ ساتھ اس کے مضامین سے متعلق دوسرے ذرائع سے درست اور اہم معلومات بھی بچے کو سمجھائی اور ذہن نشین کروائی جائیں۔

اب آئیے ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف : اسکول سے دی گئی ہدایت کے مطابق کبھی بچے نے ڈرائنگ کرنا ہوتا ہے، کوئی ماڈل بناناہوتا ہے۔ بچے کو اپنے نام سے کچھ سی، پرو، بنا یا پکا کر لے جانا ہوتا ہے۔ اساتذہ مضمون نویسی یا تقریری مقابلے میں یا کسی خاص دن اور تقریب میں تقریر کے لیے بچے کا نام لکھ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو عنوانات ہی اتنے مشکل رکھ دیتے ہیں کہ بچے کی عمر، اس کی تعلیم اور سمجھ سے ہی باہر ہوتے ہیں۔ پھر کبھی بہن تقریر لکھ دیتی ہے کبھی بھائی، کبھی والد کبھی کوئی استاذ۔ بچہ اس مضمون کو اپنے نام سے پیش کرتا ہے۔ تقریر رٹ کر مقابلے میں حصہ لیتا ہے۔ کئی بچے تو رٹی ہوئی تقریر اسٹیج پر آتے ہی بھول جاتے ہیں۔ کچھ کا حافظہ اچھا ہوتا ہے وہ اچھی طرح یاد کرلیتے ہیں لیکن پیش کش اچھی نہیں ہوتی، کچھ کی پیش کش بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور خوب داد بھی سمیٹتے ہیں لیکن ایک تو وہی غلط بیانی اور جھوٹ کہ نام بچے کا مضمون بڑے کا لکھا اور تیار کیا ہوا۔ دوسرا اگر اس  بچے سے عنوان اور مضمون پر اس کی تحریر اور تقریر کی روشنی میں ایک دو سوال کرلیے جائیں تو بچے جواب نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ یہ بچے کی سوچ تھی، نہ تحریر و تقریر اس کی سمجھ کے برابر اور عمر کے مطابق تھی، پھر بھلا وہ کیسے اس کی وضاحت کرسکتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ بچپن سے بچے کو تقریر کافن سکھایا جائے، مضمون نویسی کی تربیت دی جائے، مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق دلایا جائے۔ جس موضوع پر تقریر کرنی یا مضمون لکھنا ہو، اس بابت اس کی رہنمائی کی جائے۔ مواد کی فراہمی میں، لکھنے کے بہتر انداز میں، تقریر کا انداز بہترین بنانے میں۔ چونکہ یہ کام وقت بھی مانگتا ہے اور محنت بھی۔ اس لیے اساتذہ اور والدین بس تھوڑا سا انداز تقریر سکھا دیں گے اور ایک تقریر لکھ کر دے دیں گے جس کے الفاظ اکثر اتنے مشکل ہوتے ہیں کہ بچے کو ان میں سے اکثر کے معنی پتا ہوں گے نہ محل استعمال۔ خلاصہ یہ کہ ہم بچوں کو زیادہ وقت دے کر، بہترین رہنمائی کرکے، اس کی کمزوری اور خامی دور کرکے اسے پختہ کار بنا سکتے ہیں۔

چلتے چلتے ایک مثال پیش کردیں۔ پانچویں جماعت کے بچے کو اسکول سے ایک عنوان دیا گیا: ’’ایک نیا دور جنم لیتا ہے۔ ایک تہذیب فنا ہوتی ہے۔‘‘ بچے سے کہا گیا کہ اس عنوان پر ایک مباحثہ لکھ کر لائے۔ یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلو پیش کرنے ہیں۔ اب بچے کے سب گھر والے پریشان ہیں کس سے مباحثہ لکھوائیں بلکہ پہلے تو کوئی انہیں اس جملے کا مفہوم ہی بتادے۔ اس کی مہربانی ہوگی۔