میں فلاں ابن فلاں سے اتنے مہر کے عوض تمھارا نکاح کرنا چاہتا ہوں کیا تمھاری اجازت ہے ؟
ام معاذ
نکاح اسلامی معاشرتی تعلیمات کا ایک اہم رکن ہے جس کے ذریعے سے زوجین باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں اس کے درست ہونے کے لیے شریعت کی جانب سے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں جنہیں"نکاح کے رکن یا نکاح کے فرائض" کا نام دیا جاتا ہے انہی میں سے ایک ایجاب و قبول بھی ہے۔۔
ایجاب و قبول:
نکاح چونکہ ایک عقد ہے جو دو فریقوں کے درمیان منعقد ہوتا ہے اور معاملات جیسے نکاح و بیع وغیرہ میں شرعی احکام کے مطابق فریقین کی رضامندی کے اظہار میں جو الفاظ ادا کیے جائیں انہیں "ایجاب و قبول" کا نام دیا جاتا ہے۔
اورشرعی نقطہ نظر سے عقد نکاح کے انعقاد اور درست ہونے کے لیےارکان نکاح (ایجاب و قبول) کے وقت مجلس نکاح میں گواہوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے، یعنی ایجاب وقبول کے وقت دو عاقل،بالغ،آزاد، مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں موجود ہوں۔ گویا نکاح کی بنیادی دو شرائط ہیں۔۔
(1) شرعی طور پر دو گواہ ہوں، دوگواہوں کے سامنے اگر ایجاب و قبول نہ ہو تو نکاح باطل و کالعدم ہے۔
(2) ایجاب و قبول، اور نکاح(عقد) کرنے والوں میں سے پہلے فریق کاکلام ایجاب اوردوسرے فریق کا قبول کہلاتاہے۔
ایجاب و قبول صحیح ہونے کی شرط
ایجاب و قبول کے صحیح ہونے کی شرط یہ بیان کی جاتی ہے کہ " چونکہ نکاح ایجاب و قبول کے ذریعے منعقد ہوتا ہے تو لہذا ایجاب و قبول کے لفظ صیغہ ماضی کے ساتھ ہونا ضروری ہے، ( یعنی ایسا لفظ جس سے یہ سمجھا جائے کہ نکاح ہوچکا ہے) مثلاً "کوئی شخص گواہوں کی موجودگی میں کہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کردیاوہ کہے کہ میں نے قبول کیا" تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔ یا پھر ایک لفظ ماضی کاہو مثلاً" کوئی کہے کہ آپ اپنی فلاں لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کردیں اور وہ جواب میں کہے میں نے کردیا" تو بھی نکاح درست ہو جائے گا۔
باقی تفصیل اگر مطلوب ہو تو جید علماء سے رجوع کرنا چاہیے
لڑکی سے اجازت کے وقت گواہوں کی موجودگی
اکثر اوقات نکاح کے لیے لڑکی سے اجازت اس کے گھر میں لے لی جاتی ہے لڑکی مجلسِ عقد میں موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں عموماً لڑکی سے اجازت لینے کے لیے لڑکی کے والد ، بھائی، چچا ، ماموں وغیرہ جو کہ لڑکی کے کوئی محرم رشتے دار ہوں اجازت لیتے ہیں پھر مجلسِ عقد میں نکاح خواں کو وہ اجازت منتقل کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں یعنی لڑکی سے اجازت لینے کے وقت گواہوں کی موجودگی مستحب ہے ضروری نہیں ہے ۔البتہ مجلسِ عقد میں دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے جو کہ ایجاب و قبول کو سنیں گے۔۔ ۔
ایک اہم وضاحت
ہمارے معاشرے میں چونکہ یہ طریقہ رائج ہے کہ عین نکاح کے وقت لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے تو اس بارے میں اتنی بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ عین نکاح کے وقت لڑکی سے اجازت لینا "جائز" ہے ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی ایک دو دن پہلے، یا صبح کے وقت اجازت لے لے تو بھی "جائز" ہے اور پہلے اجازت لینے میں آسانی اور سہولت ہے۔
نبی کریم ﷺ کے سامنے کسی معاملے میں جب کوئی دو صورتیں پیش آتی تو آپ ﷺ اس میں اس صورت کو اختیار فرماتے جس میں سہولت ہوتی تھی۔
تو لہذا جس کام میں سہولت ہو اسے لیا جائے عین نکاح کے وقت جس طرح مرد حضرات مسجد میں جمع ہوتے ہیں اسی طرح قریبی خواتین بھی نکاح کے وقت جمع ہوجاتی ہیں جس سے اجازت لینے کے لیے جانے والوں کو بھی دقت کا سامنا ہوتا ہے اور بھری مجلس میں لڑکی سے پوچھنے کی بجائے پہلے اجازت لینا ہی بہتر ہے ۔
اسی طرح لڑکی سے اجازت لینے کے لیے جب جائیں تو کوشش یہ کی جائے کہ لڑکی کے محرم رشتے یعنی لڑکی کے والد، بھائی، چچا، ماموں، وغیرہ کو اجازت لینے کے لیے بھیجا جائے اور ساتھ میں دو گواہ بھی محرم رشتے دار ہی لیے جائیں مثلاً اگر لڑکی کے والد اجازت لیتے ہیں تو ساتھ میں لڑکی کے دو بھائی، یا ماموں ، تایا چچا وغیرہ کو گواہ بنایا جائے کیونکہ اس معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہت لاپروائی دیکھنے میں آتی ہے کہ نکاح کی اجازت کے وقت نامحرم رشتے دار اجازت لینے کے لیے جاتے ہیں اور لڑکی کو خوب سجا سنوار کا بٹھایا جاتا ہے جوکہ انتہائی غیر مناسب بات ہے۔۔۔ لہذا اس میں شریعت کی تعلیمات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
اجازت کتنی مرتبہ لی جائے ؟
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی سے تین مرتبہ اجازت لینا ضروری ہے اور ساتھ وہ اس بات کو ضروری خیال کرتے ہیں کہ لڑکی زبان سے اقرار کرے اس میں اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ "لڑکی سے نکاح کی اجازت تین مرتبہ لینا ضروری نہیں اور نہ ہی زبان سے اقرار کروانا ضروری ہے بلکہ صرف ایک مرتبہ واضح الفاظ میں والد یا سرپرست یہ کہہ دے کہ میں فلاں ابن فلاں سے اتنے مہر کے عوض تمھارا نکاح کرنا چاہتا ہوں کیا تمھاری اجازت ہے ؟"
اب اگر کنواری لڑکی ہو اور خاموش ہو جائے تو بھی اجازت سمجھے ، سر کے اشارے سے اجازت دے دے تو بھی اجازت ہے یا لڑکی ہنس دے یا پھر رو پڑے تو ان تمام صورتوں کو اس کی اجازت پر ہی محمول کیا جائے گا۔ زبان سے کہلوانا ضروری نہیں ہے۔
البتہ اگر لڑکی مطلقہ یا بیوہ ہو تو اس کا واضح الفاظ میں "مجھے منظور ہے یا میں اجازت دیتی ہوں" جیسے الفاظ زبان سے ادا کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ ( جاری ہے )