ام معاذ
احکامِ شرعیہ کے بیان میں ہم مختلف اصطلاحات پڑھتے اور سنتے ہیں جیسے فرض، واجب، سنت، مکروہ ، مندوب/ مستحب، مباح وغیرہ لیکن ہمیں ان کی تعریف اور مفہوم واضح نہیں ہوتا اسی لیے قارئین کی سہولت کے لیے مختصر اور آسان الفاظ میں عام استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تعریف ذیل میں تحریر کی گئی ہے۔ جس سے ہمیں استعمال ہونے والی شرعی اصطلاحات کا مفہوم واضح ہوگا۔
فرض کی تعریف:
فرض کے لغوی معنی ہے "تقدیر و اندازہ کرنا"
اصطلاح میں فرض کہتے ہیں "شریعت کا ایسا حکم جس کا کرنا ضروری اور لازم ہو اور اس کا چھوڑنا حرام ہو۔ فرض کا انکار کفر ہے اور فرض کے چھوڑنے والے کو فاسق و فاجر کہلاتا ہے۔
فرض کی دو قسمیں ہیں
٭فرضِ عین ٭فرضِ کفایہ
فرض عین: "جس کا کرنا ہر ایک پر لازم ہو بعض افراد یا جماعت کا کرلینا کافی نہیں ہوتا۔ جیسے فرض نماز ، فرض روزے
فرض کفایہ : جو مسلمانوں کی جماعت پر لازم ہو لہذا جماعت المسلمین میں سے بعض افراد پر واجب ہے کہ وہ اسے ادا کریں چند ایک کے کرنے سے سب کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا اور اگر کوئی ایک بھی ادا نہ کرے گا تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے۔ جیسے نمازِ جنازہ
واجب:
وہ حکم ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو، یعنی اس دلیل سے جس میں دوسرا ضعیف احتمال بھی ہو، جیسے ذو معنی آیت و حدیثِ احادا اور مجتہد کے قیاس سے ثابت ہو۔ اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا،البتہ فاسق ہے، اور بغیر عذر ترک کرنے والا بھی فاسق اور سخت عذاب کا مستحق ہے، لیکن فرض سے کم جیسے وتر کی نماز
سنت : اس کام کو کہا جاتا ہے جسے نبی کریم
ﷺ نے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ہو یا کرنے کا حکم دیا ہو۔
سنت کی دو قسمیں ہیں!
٭سنت مؤکدہ ٭ سنت غیر مؤکدہ
سنت مؤکدہ :اس کام کو کہا جاتا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو یا کرنے کے لیے فرمایا ہو اور ہمیشہ کیا گیا ہو یعنی بغیر عذر کے کبھی نہ چھوڑا ہو ایسی سنتوں کو بغیر عذر کے چھوڑ دینا گناہ ہےاور چھوڑنے کی عادت بنالینا سخت گناہ کی بات ہے۔
سنت غیرمؤکدہ
اسے کہا جاتا ہے کہ جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر کیا ہو لیکن کبھی کبھار بغیر عذر چھوڑا بھی ہو ، ان سنتوں میں مستحب سے زیادہ ثواب ہے اور چھوڑنے پر گناہ نہیں ہے ، سنت غیر مؤکدہ کا دوسرا نام "سنن زوائد" بھی ہے۔
سنت کی ان دو قسموں کے علاوہ ایک قسم اور بھی ہے اور وہ ہے:
سنت مؤکدہ علی الکفایہ
یعنی کوئی ایسا عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کرنے کا اہتمام بھی فرمایا ہو جیسے رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کہ اگر محلہ کے تمام لوگ چھوڑ دیں گے تو آخرت میں سب سے مواخذہ ہوگا اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کرلیا تو سب آخرت کے مواخذہ سے بری ہو جائیں گے۔ یعنی بعض لوگوں کے اعتکاف کر لینے سے سب کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ اسے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جائے گا۔
حرام :وہ کام جن کی ممانعت دلیلِ قطعی یعنی قرآن و سنت سے ثابت ہو اور اس کے کرنے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہو اور انکار کرنے والا کافر ہو۔۔جیسے شراب کی حرمت
مکروہ کی تعریف!
مکروہ کے لفظی معنی ہیں "ناپسندیدہ"
جب کہ فقہاء کرام کی اصطلاح میں مکروہ ان چیزوں کو کہا جاتا ہے کہ "جن کے متعلق اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہیں، جس کی بنا پر ان کو مکمل طور پر نہ حلال کہا جا سکتا ہے، نہ حرام کہا جاسکتا ہے ،جو چیزیں اس قسم سے تعلق رکھتی ہیں اسے فقہاء کرام ’’مکروہ" فرماتے ہیں۔
مکروہ کی دو قسمیں ہیں۔
٭مکروہ تحریمی ٭مکروہ تنزیہی
مکروہِ تحریمی: جس میں ممانعت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں اوراس وجہ سے وہ حرام کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
مکروہِ تنزیہی: جس میں ممانعت کے مقابلے میں اجازت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں، اس بنا پر وہ حرام کے مقابلے میں حلال کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
مکروہِ تحریمی کا حکم یہ ہیکہ اس سے بچنا ضروری ہے اور اس کا مرتکب گناہ کا مستحق ہوتا ہے۔
مکروہِ تنزیہی کا حکم یہ ہیکہ اس سے بچنا بہتر اور باعث اجر و ثواب ہے، البتہ ارتکاب کی صورت میں امید ہے گناہ نہیں ہوگا۔ تاہم خود کو اس کا عادی بنا لینا مناسب نہیں ۔
مباح وہ کام کہلاتا ہے جس کے کرنے پر ثواب ملے گا اور نہ کرنے پر پکڑ نہیں ہوگی۔ یعنی جس کام کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو۔