حقوق و فرائض کا قانون یوں تو تمام ہی    لوگوں کے لیے ہے ، ہر  شخص کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض، جن کی انجام دہی ، معاشرے کو پر امن کرسکتی ہے ۔ لیکن ان میں   سب زیادہ اہمیت معاشرے کے بنیادی یونٹ ”زوجین“کو دی گئی ہے ۔  جی ہاں! معاشرے کی بنیاد فرد نہیں ”فیملی“ہے جو دو ساتھیوں ”زوجین“  یعنی میاں بیوی پر مشتمل ہوتی ہے !!اسی ”یونٹ “سے ایک معاشرہ اور اس معاشرے سے ایک ریاست وجود میں آتی ہے ۔

 اہلیہ محمد عبید خان

شادی کوئی ماورائی یا طلسمی دنیا کی کہانی نہیں ہوتی ،جہاں بغیر کچھ کیے سب اچھا،پرفیکٹ اور مزاج کی مناسبت سے ملنے کا تصور ہو ، نہ کوئی خیالی دنیا(fantasy world) ہے ،بلکہ ایک پریکٹیکل اور میچور لائف ا سٹائل ہے ،اور اس دنیا کی حقیقت یہی ہے کہ یہاں ”کچھ دو اور کچھ لو“کے اصول پر چلنا ہوتا ہے ، لیکن یہ ”کچھ دینا اور لینا“ اس کا کیا معیار ہے ؟ کتنا ”دینا یا لینا“قانوناً یا اخلاقاً  لازم ہے ،لازم کرنے والا ہو کون؟؟

ایک مسلمان ہونے کے ناتے عقیدہ یہی ہونا چاہیے  کہ قانون  بنانے والی ذات ”ربِ تعالیٰ“کی ہے، جو نبیﷺ کے توسط سے ہم تک پہنچایا گیا ہے ، اسی ذات نے یہ دنیا ”لو اور دو “کے اصول پر وضع کی جس کو ”حقوق و فرائض “ کا نام دیا جاتا ہے ۔ حقوق یعنی ”اپنا  واجبی حق لینا“ اور فرائض یعنی ” دوسرے کا واجبی حق دینا“

ویسے تو حقوق و فرائض کا یہ قانون تمام    لوگوں کے لیے ہے ، ہر منصب پر فائز شخص کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض، جن کی انجام دہی ، معاشرے کو پر امن کرسکتی ہے ۔ لیکن ان میں  بھی سب زیادہ اہمیت معاشرے کے بنیادی یونٹ ”زوجین“کو دی گئی ہے ۔  جی ہاں! معاشرے کی بنیاد فرد نہیں ”فیملی“ہے جو دو ساتھیوں ”زوجین“پر مشتمل ہوتی ہے !!اسی ”یونٹ “سے ایک معاشرہ اور اس معاشرے سے ایک ریاست وجود میں آتی ہے ۔

شریعت میں اس ”یونٹ“ کواس بات کی پرزور تاکید کی گئی   ہےکہ وہ اپنے حقوق  و فرائض سے نہ صرف  آگاہ ہوں بلکہ ان کی انجام دہی پربھی بھرپور توجہ دیں ، وہی بات ! کہ ا ن کی اصلاح ،در حقیقت سنہرے مستقبل کی ضمانت ہے ۔

یہ بات مسلّم (Recognized) ہے کہ کسی بھی کلچر،تہذیب یا معاشرے  کا ”عائلی سیٹ ایپ“ (Family Setup) جتنا زیادہ بہترین ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ معاشرہ، ترقی یافتہ  اور ہر لحاظ سے پرفیکٹ  اور  لائق تقلید ہوگا۔ 

دیکھیے ! اس بات پر ہمارا یقین ہے کہ اگر حقوق و فرائض کی فہرست میرے اور آپ جیسے انسانوں   کے ہاتھوں میں ہوتی  تو حقوق کے نام پر ایک طویل چارٹ اور فرائض کے نام پر ایک سطری لائن ہم خود کے لیے وضع کرتے ۔اگر انصاف کو مد نظر رکھ کر بھی کیا جاتا تب بھی وہ چارٹ اتنا بہترین،منظم اور آرگنائزڈ نہ ہوتا ۔اقوام متحدہ کے بنائے گئے” انسانی حقوق کے تحفظ کے اصول“ اس کی واضح مثال ہیں ۔ جہاں تنسیخ اور ترمیم کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے ،پھر بھی رزلٹ کسی کام کا نہیں !!

چناں چہ،مزے دار بات تو یہی ہے نا کہ  حقوق و فرائض کا یہ چارٹ اس ذات نے بنایا ہے ، جو ہر انسان کے لیے یکساں خیر خواہ  اور مہربان ہے۔ جس کے ہاں ،فضیلت کا معیار ”روپیہ پیسہ،ظاہری ٹپ ٹاپ “نہیں بلکہ ”تقویٰ “ ہے ۔

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (حجرات:13)

”اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ  متقی ہے“

لہذا اپنی عائلی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک   Divine Chart (وحی )  کا مطالعہ کر کے  اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو  اور اس کے لیے اسوۂ رسول اکرمﷺ سے بہترین کوئی اور ذریعہ  تھا،  ہے  اورنہ  ہی کبھی ہوگا،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں ”عملی کام“کیا گیا تھا ، صرف lip service پر اکتفا نہ تھا۔   

عائلی زندگی میں فریقین کے حقوق کے متعلق، قرآن نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی :

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ( البقرہ: 228)

”اور عرف و رواج  کے مطابق عورتوں کے مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر،تاہم مردوں کا ان مقابلے میں درجہ بڑھا ہوا ہے“

یعنی مرد و زن دونوں ہی ،ایک دوسرے پر حقوق رکھتے ہیں ،مرد کا درجہ بہر حال پھر بھی ،عورتوں سے ایک گونہ زیادہ ہی ہے۔

اب وہ حقوق کیا ہیں ؟؟

بیویوں کے حقوق:

عرب  معاشرے میں چونکہ عورتوں کا کوئی حق قانوناً تو دور اخلاقاً بھی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ لہذا، قرآ ن نے  سب سے پہلے  مرد کو ، عورتوں کے حقوق کے اعتبار سے ذمہ دار  کیا،ایسا زبردست جملہ ارشاد فرمایا  گویا کوزے میں دریا بند کردیا :

وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ (النساء :19)

”عورتوں کے ساتھ عرف و دستور کے مطابق بھلی زندگی گزارو“

اس عنوان کے ذریعے، بیوی کے حقوق پر شوہر کو ایسا بریف کیا گیا کہ اس کے بعد کیوں،کیا ،کیسے ،کتنا سب سوالیہ انداز ختم ہو جاتے ہیں ،گویا  معاشرے میں رائج عرف کے اعتبار سے  ،اسلام کی حدود میں  رہتے ہوئے جتنا best دے سکتے ہو،اتنا دو۔

پھر،اصولاً تو بیویوں کو ٹریٹ کرنے کا وہی طریقہ ہے جس طریقے سے نبیﷺ نے ٹریٹ کیا ۔

لیکن انسان کم ہمت واقع ہوا ہے ،وہ خود کو مارجن دینے کے مواقع تلاش کرتا ہے ،اپنے پیٹھ کو یہ کہہ کر تھپکی دیتا ہے کہ تم نبیﷺ اور   ان کے تربیت یافتہ  صحابہ جیسے مہان تو بن نہیں سکتے لہذا ”جتنا کررہے ہو وہ بھی بہت ہے“ (خیالی طور پر، اپنے سے بدتر سلوک کرنے والے کو سوچ کر خوش ہوتا ہے )

لہذا ضروری ہے کہ ہر مرد کو اپنے عائلی  فرائض سے متعلق مکمل آگاہی ہو، تاکہ کم از کم فرض و واجب کے تقاضے پر تو پورا اترے ۔

بنیادی ضرورت :

سورہ قریش میں ،قریشیوں کو دو نعمتوں کا احسان جتلایا گیا 1)بھوک سے اطمینان        2)خوف سے امن ۔

ان آیات سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کی بنیادی ضرورت کا دائرہ کار ان دو چیزوں کے گرد گھومتا ہے ۔ یعنی ایک تو وہ مالی لحاظ سے بنیادی ضروریات کوپورا کرسکتا ہو ، دوسرا خوف،ظلم سے امن میں ہو۔

 بیوی کو حقوق فراہم کرنے میں  بھی اسی اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ چنانچہ اجمالی طور پر شوہر کے ذمے ،بیوی کے حوالے سےدو قسم کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے ۔

1۔مالی حق

2۔غیر مالی حق

  1. سب سے پہلا اور بنیادی حق بیوی کا شوہر کے اوپر ”مالی“ ہوتا ہے ۔

ان ”مالی حقوق“میں مہر ،نفقہ ،رہائش شامل ہیں۔

  • حق مہرکی ادائیگی:

مالی حق میں سب سے پہلادرجہ ”  مہر کی ادائیگی“ ہے ، مہر میں ٹال مٹول کرنا یاا دائیگی کی نیت کے بغیر نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ذکر کی گئی ہے (تفصیل سابقہ آرٹیکل میں گزر چکی ہے)

وَ  اٰتُوا  النِّسَآءَ  صَدُقٰتِهِنَّ  نِحْلَةًؕ(النساء)

”عورتوں کو ان کا مہر خوشدلی سے ادا کردو“

آیت میں قابل غور نکتہ ”نحلہ“ہے کہ دل کی آمادگی اور خوشی سے بیوی پر خرچ کرنا ہی' خوشگوار ازدواجی' زندگی کا ذریعہ بنتا ہے ۔

  • نفقہ:

شادی کے بعد بیوی کے اخراجات کا بار اٹھانا بھی شوہر کے ذمہ لازم کیا گیا ہے ،بلکہ یہ ایسی ذمہ داری جس کی بنا پر ہی مرد کو قوّامیت کا درجہ عطا کیا گیا ہے ۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ۔۔۔بِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ (النساء :34)

”مرد عورتوں پر حاکم ہیں(اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ) وہ ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں “

گویا فطرتاً ،مرد کی سرشت میں ،خود سے متعلقہ عورتوں پر مال  خرچ کرنا شامل کیا گیا ہے ،پھر اس فطرت کے اعتبار سے اس کو قوامیت جیسا عظیم درجہ عطا کیا گیا ۔ لہذا ! وہ مرد جو نکھٹو ہوتے ہیں ، بیوی پر حکمرانی بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس پر مال بھی  خرچ کرنے سے بھاگتے ہیں وہ بھلا کس طرح اپنا معززانہ مقام و مرتبہ بیوی کے دل میں قائم رکھ سکتے ہیں؟

اخراجات کی حد:

خرچ تو بیوی پر کرنا لازم ہے  تاہم ان اخراجات کی حد کیا ہے ؟کتنا خرچ کرنا لازم ،کتنا مستحب اور کتنا غیر ضروری؟؟

 اس کے لیے بھی قرآن نے ایک اصولی بات ذکر کردی :

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ۖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٝ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتَاهُ اللّـٰهُ(الطلاق:7)

 بیوی کے نان و نفقے کے متعلق، معتدل معیار ،سیٹ کرتی ہوئی زبردست  آیت ہے کہ جس کے پاس جتنی کشادگی ووسعت ہے وہ اپنی کشادگی کےمطابق اھل و عیال کا خرچہ اٹھائے اور جس کے پاس کم ہے وہ بھی اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائے ،اللہ کسی پر بھی اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے “

اسی طرح دوسری آیت میں دو چیزوں کا باقاعدہ ذکر کرکے خرچ کی مزید تفصیل بھی ذکر کی گئی :

وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَـہ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرہ:233)

یعنی عرف و رواج کے مطابق ،بیوی کے نفقے میں ،لباس اور کھانے کے اخراجات بھی شامل ہیں ۔

واضح رہے ”عرف و رواج“ کے مطابق   لازم ہے ،” من پسند خواہش کے مطابق، بوجھ ڈالنا نہیں “

نیز یہ حدیث بھی مد نظر رہے

لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ(سنن ابن ماجہ)”نہ خود نقصان اٹھاؤ ،نہ نقصان پہنچاؤ“

لہذا! یہ بات درست نہیں کہ شوہر کی آمدنی تو مختصر ہو اور بیوی کی فرمائشی لسٹ ہی مکمل ہو کر نہ دے !!

فرمان نبیﷺ ان آیات کی مزید تشریح بیان کرتی ہے :

حضرت معاویہ بن حیدؓہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا:” یا رسول اللہ! بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟“ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :

أنْ يُطعِمَها إذا طَعِمَ، ويكْسوَها إذا اكْتَسى، ولا يَضِربِ الوَجهَ، ولا يُقبِّحْ، ولا يَهجُرْ إلَّا في البيتِ.(سنن ابن ماجہ)

" جب شوہر کھائے  تو بیوی کو بھی کھلائے جب وہ پہنے تو بیوی کو بھی پہنائے، اور اس کے چہرے پر نہ مارے، اور نہ اس کو برا بھلا کہے، اور گھر کے علاوہ ( اگر وہ اس کی نا فرمانی کرے) کسی اور جگہ اس سے بات چیت کرنا نہ چھوڑے"۔

اس حدیث مبارک میں  نفقے کے متعلق ،یہ اہم نکتہ سمجھایا گیا کہ جتنا بہترین کھانے کا خرچہ ،آپ اپنی ذات پر کرنا اور جتنا بہترین لباس آپ خود پہننا پسند کرتے ہو ،یہی سب اپنی بیوی کے لیے بھی آپ کا معیار ہونا چاہیے ۔ خود اعلیٰ معیار کاکھانا اور لباس کا انتخاب  کرنا ، دوستوں کی معیت میں دعوتیں اڑانا اور بیوی کے لیے موٹا ،جھوٹا رکھنا یہ  ہر گز جائز نہ ہوگا۔

پھر مزے کی بات یہ سب ضائع نہیں جاتا بلکہ  اس پر ثواب بھی  مرتب ہوتا ہے۔

إذا أَنْفَقَ الرجلُ على أهله نَفَقَةً يَحْتَسِبُهَا فهي له صَدَقَةٌ. (متفق علیہ)

” جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“

اور جو شخص اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرنا چاہے تو حدیث مبارک وعیداً اس عمل سے روکتی ہے ۔

"كفٰى بِالمرءِ إثمًا أن يُضَيِّعَ مَنْ يَّقُوتُ "‏‏.‏ (سنن ابو داؤد :1692)

”انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ (عمل) کافی ہے کہ جن کے رزق و اخراجات کا وہ ذمہ دار ہو، انہیں ضائع کر دے“

لہذا ! بیوی کے نفقے ،اخراجات سے پہلو تہی ،شوہر کے لیے ہرگز جائز نہ ہوگی۔

  • نقد رقم:

علماء کرام ان تمام روایات کی روشنی میں یہ فرماتے ہیں کہ بیوی کو نفقے کی مد میں ”نقد رقم“ دینا بھی شوہر کی اخلاقی ذمہ داری ہے تاکہ اس رقم کو بیوی اپنی مرضی سے جس ضرورت میں چاہے استعمال کرلے اور  اس رقم کے خرچ میں اسے شوہر سے  اجازت کی ضرورت نہ پڑے ۔

حضرت ہندؓبنت عتبہ  نے فتحِ مکہ کے بعد رسولﷺسے بیعت کرتے ہوئے پوچھاکہ :میرے شوہر(ابو سفیانؓ) کم خرچ کرنے والے آدمی ہیں، کیا میں چھپ کر ان کے مال میں سے کچھ لے سکتی ہوں؟

آپﷺ نے فرمایا:

خُذِی أنْتَ وَبَنَوکِ مَا یَکفِیک بِالمَعْروْف(صحیح البخاری)

”بھلائی کے ساتھ جتناتمہیں اور تمہاری اولاد کو کفایت کرے، اتنا لے لیا کرو۔  ‘‘

معلوم ہوا کہ  اگر بیوی کو کچھ ”جیب خرچ“دے دیا جائے تو اس کو ضرورت پورا کرنے کے لیے ،شوہر کے مال میں سے لینے کی ضرورت نہ پڑے ۔

  • رہائش:

مالی حقوق میں تیسرا اور اہم درجہ ”رہائش“ہے ۔ رہائش میں بھی وہی اصول چلے گا کہ ”جتنی جس کی وسعت ہو“ اس حساب سے انتظام کرے ۔ کم از کم درجہ یہ ہے  کہ ”ایک حجرہ(کمرہ )ہو ،جس میں بیوی ، مالکانہ تصرف کرسکے “

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ(الطلاق:6)

”تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان  عورتوں کو رکھو“

اس آیت سے نہ صرف رہائش  فراہم کرنے کی ذمہ داری  معلوم ہوئی بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا ہی بہتر ہے ۔

نیز آپﷺ کا طرز عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی ہر زوجہ کو ایک علیحدہ حجرہ مہیا فرما رکھا تھا ۔  

 

بہر حال ،یہ وہ تمام مالی  حقوق ہیں جن کا حکم شریعت کی جانب سے شوہر کو دیا گیا ہے ،اپنی حیثیت  و طاقت کے مطابق ،ان میں تساہل و لاپروائی جائز نہیں ہوگی ۔باقی رہ گئے غیر مالی حقوق وہ اس تحریر میں  طوالت کے خوف سے  ان شاء اللہ ، اگلی تحریر میں سمیٹیں گے ۔