فرد ہو یا حکومت   پیش آمدہ واقعے، معاملے اور سنی ہوئی خبر کی بابت مکمل تحقیق  ہونی چاہیے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو اور نہ کسی پر غلط الزام لگے

ام سنینہ  کراچی

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿سورہ حجرات6﴾

ترجمہ  :

اے مسلمانو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو  ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لیے پریشانی اٹھاؤ۔

تفسیر

 سورہ حجرات کی اس آیت  میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے اس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے کہ   فرد ہو یا حکومت   پیش آمدہ واقعے معاملے اور سنی ہوئی خبر کی بابت مکمل تحقیق  ہونی چاہیے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو اور نہ کسی پر غلط الزام لگے ۔

 

(مسلمانوں کے لئے اھم ھدایت)

مسلمانوں کی اجتماعیت کو ایسے نقصان سے بچانے کے لیے جس سے ان  کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس آیت میں ایک ہدایت فرمائی گئی ہے۔  ہر وقت اس بات کا امکان  رہتا ہے  کہ شیطان کے پیرو کار  فتنہ فساد  پھیلانے  اور بد امنی کے لیے   افواہ سازی کا بازار گرم رکھیں ، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی  کوئی  خبر یا معاملہ  علم میں آئے  خاص طور پر اہم معاملات   تو اس پر کوئی کارروائی کرنے سے پہلے فوراً اس کی تحقیق کرو کہ  یہ جو خبر ملی ہے کیا پتا کس نے کہاں اور کیسے چلا دی ہو۔ کیا اس خبر کے معاملے میں اعتبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم محض غلط فہمی  بد گمانی  کی بنیاد پر  کسی قوم پر حملہ کردو اور بعد میں تمہیں پتا چلے کہ یہ تو خبر سرے سے صحیح نہ تھی اور پھر تمہیں پچھتانا پڑے ۔

ہم دیکھتے ہیں آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ۔وائس میسج اور پوسٹیں دھڑا دھڑ شیییر کرنے کا چلن عام ہے ۔کسی خبر کی تحقیق تو کیا کی  جائے گی ۔یہ تک تحقیق نہیں کی جاتی کہ جس بات کو قرآنی آیت ، حدیث کا مفہو م یا کسی   صحابی ، بزرگ کا قول بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔ اس کی کوئی سند بھی ہے یا نہیں ۔ بعض اوقات کسی بڑی شخصیت کے زخمی ہونے بلکہ وفات کی خبر دھڑا دھڑ چلنا شروع ہو جاتی ہے اس سے بے چینی اور اضطراب بڑھتا ہے ۔ ایسے ہی اپنے مخالفین کی بابت سنی سنائی باتوں پر  الزام عائد کرنا ، پھر اس پر خود ہی سے دلائل تلاش کرنا اور جم جانا بحث کرنا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ اس سے ایمانی صحت بھی خطرے میں پرجاتی ہے جب بندہ اسی رویے کا عادی ہو جائے گا تو بڑی سے بڑی بات ہنسی مزاح یا مخالف کو بد نام کرنے کے لیے کردیتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ۔ اس سے معاشرے میں افراتفری ،بے چینی اور اشتعال پھیلتا ہے ۔ آج کل برداشت اور تحمل ویسے بھی نہیں رہے تو  ایسی خبریں باتیں جھگڑے اور فساد کا سبب بن جاتی ہیں جس کا مشاہدہ ہم آج کل ہر طرف دیکھ رہے ہیں ۔