حافظ محمد عدیل عمران
آج کے دور میں تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا زندگی کے لیے سانس لینا۔ایک بچے کے لیے ماں کی گود سب سے پہلا مدرسہ ہوتا ہے ۔ایک نومولود جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل معصوم اور فرشتے کی طرح ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے۔تمام دنیاوی امور اور مسائل سے آزاد ہوتا ہے ،لیکن جیسے جیسے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنی طفلانہ زندگی کا آغاز کرتا ہے ،ہر شئے لا شعوری طور پر اس کے سامنے آتی ہے ۔ بچہ جب اپنی ماں کی گود سے اترتا ہے تو وہ اپنے گھر کی زمین پر قدم رکھتا ہے گویا اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اس کے اطراف کا ماحول کیا ہے۔وہ اپنے اطراف کے ماحول سے مانوس ہوتا چلا جاتا ہے اور ان چیزوں باتوں کو قبول کر تا ہے جو اس کے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں۔
ایک بچے کا سماج اس کا گھر ہوتا ہے اور بچہ اپنے اس ماحول کے تمام طور طریقوں سے مطابقت کرنا سیکھتا ہے یا والدین اسے سکھاتے ہیں ۔اس میں مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے ،اس لیے کہ باپ تو تلاش معاش میں گھر سے باہر ہوتا ہے ۔اگر ماں تعلیم یافتہ نہ بھی ہو لیکن اسے بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر ہو تو وہ بچے کی تعلیم کے لیے کوشاں ہوتی ہے ،لیکن خدا نخواستہ اگر ماں بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل ہو تو بچہ آزاد اور کھیل کود میں مگن رہتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو اس میں وہ دلچسپی یا رغبت نظر نہیں آتی جو اچھی تربیت والے گھرانوں کے بچوں میں ہوتی ہے۔
بچے فطرتا نقال ہوتے ہیں ۔اس لیے گھر کے افراد کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو بھی حرکات و سکنات ان سے سرزد ہوں گی بچہ اسے فورا قبول کر لے گا۔اس لیے بچوں کے سامنے لغویات و فضولیات سے پرہیز کرنا،والدین اور دیگر بڑوں کی اخلاقی ذمے داری ہی نہیں بلکہ سماجی ذمے داری بھی ہے ۔اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ان بچوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انہیں ایک صالح ،صاف ستھرے ماحول کی تشکیل کے لیے فضا سازگار کرتے ہیں۔
بچے مستقبل کا سرمایہ ہیں ۔اس لیے یہ بات نہایت ہی اہم ہے کہ ہم ان کی پرورش کے لیے گھر کا ماحول خوش گوار اور صحت مند رکھیں ۔کیونکہ ایک بچہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بھی وقت گزارتا ہے۔ایک نیک اور صالح بچہ جب گھر سے باہر قدم رکھتا ہے تو سماج میں مختلف لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے تومتعلقہ افراد بچے کے عادات و اطوار اور کردار و گفتار سے یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس بچے کے گھر کا ماحول کس طرح کا ہے۔
ماحول دینی ہو تو اس کا اثر بچے کے ذہن کو متاثر ضرور کرتا ہے ورنہ عموما نئی نسل اپنے مذہب اور دین سے کوسوں دور نظر آرہی ہے ۔اس کمی کے لیے بھی والدین اور گھر کے افراد ہی ذمے دار ٹھہرتے ہیں۔بچے قدرتی طور پر معصوم ہوتے ہیں اور ان کی اس معصومیت میں آنے والے کل کا مستقبل پوشیدہ ہوتا ہے ۔بالخصوص ایک ماں کی گود میں بچے کی تقدیر پلتی ہے جو کہ اس مصرعے کی غماز ہے۔
تیری گود میں پلتی ہے تقدیر امم
آپ بہت اچھے ماں باپ بن سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اپنے بچے کو سمجھیں ان کا خیال رکھیں ان کی باتیں توجہ سے سنیں اور اپنی رائے دیں ۔
والدین کو چاہیے اس وقت بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں جب ان کا بچہ آدھی رات کو اٹھا کر ان سے کوئی سوال کرے اور کوئی ایسا مسئلہ پیدا کرے جس کا اس کے خیال میں فوری حل ضروری ہو۔ والدین جب بچوں کی دن رات کی پریشانیوں کا حل نکالیں گے تو بچوں کو گھر میں تحفظ کا احساس ہو گا اور وہ پراعتماد ہوں گے۔جو والدین بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ ان کی مسلسل نگرانی کرنا چھوڑ دیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو چاہے کرتے رہیں ۔ویسے بھی کہتے ہیں کہ ’’کھلائیں سونے کا نوالہ ،مگر دیکھیں شیر کی نظر سے۔‘‘
کچھ والدین بچوں کے معاملے میں بہت عجیب رویہ رکھتے ہیں ۔وہ بچوں کے سوالات کا بھی نہ صرف سختی سے جواب دیتے ہیں بلکہ ان کو مار پیٹ کر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر بچہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ دوستانہ طریقے سے رہتا ہے اور اپنے ماحول سے مانوس ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔کچھ بچے جن میں صلاحیتیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنا زیادہ وقت بے کار کاموں میں صرف کرتے ہیں ۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟یاد رکھیں ! بچپن کی مار ،بچوں کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے ۔اگروالدین مسلسل بچوں کے کے بارے میں پریشان رہیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ خود الجھن اور پریشانی کا شکار ہو جائیں گے ۔اس لیے بچوں کی حرکتوں کی وجہ سے جذبات میں نہ آئیں بلکہ ٹھنڈے دل سے ان کی باتوں پر غور کریں ۔بچوں کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ والدین خوش باش یا چڑچڑے بچے کا اندازہ تین سال کی عمر تک لگا سکتے ہیں ۔اگر اس کی صحت اچھی ہے اور وہ اپنے آپ سے کافی دیر کھیلتا رہتا ہے ماں باپ کی توجہ کے بغیر تو یہ اچھی بات ہے ۔آپ اپنے بچے کو بہت زیادہ توجہ دے کر اسے اپنا محتاج نہ بنائیں ۔اس کی شخصیت بنانے میں اس کی مدد کریں گھر کے ماحول کو پرسکون رکھیں کیونکہ ماں باپ ہی بچوں کا آئیڈیل ہوتے ہیں ۔جب آپ دونوں گھر میں موجود ہوں تو اپنا وقت بچوں کو دیں ،اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بچے آپ سے دور ہونا شروع ہو جائیں گے ۔بچے کو تیرہ سال کی عمر تک آپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔جب وہ کالج یا مدرسہ جانا شروع کرتا ہے تو پھر اپنا وقت گزارنے کا خود فیصلہ کرتا ہے اس وقت کی مصروفیات پوچھیں ،مگر بلا وجہ روک ٹوک نہ کریں ۔چھٹی کے دن بچوں کو گھمانے ضرور لے کر جائیں۔بچوں کی بہتر نشو و نما کے لیے ان کی غیر محسوس طریقے سے مدد کریں تاکہ ان میں اچھا انسان بننے کی صلاحیتیں بتدریج پیدا ہوں۔
بچے کبھی کبھی اپنے رویہ سے پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔مثلا مالی لحاظ سے یا خرابی صحت کی وجہ سے ،یہ ایسے لمحات ہیں جن میں بچے اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتے ۔یقیناًیہ بہت اہم مسئلہ ہے اس طرح کے مسائل میں اول تو آپ خود میں تھوڑا صبر کریں ۔غصے کو قابو میں رکھیں اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں اس سے آپ کی بے زاری اور غصہ کم ہو گا۔اپنے بچوں کو مکمل انسان بنانے کے لیے والدین درج ذیل نکات ضرور ذہن میں رکھیں۔
1بچوں کو ہر وقت نصیحت نہ کریں
2بچے کی عزت نفس کا خیال کریں
3خود ان کو اپنے طور پر سوچنے کا موقع دیں تاکہ وہ اپنے آپ کو اچھا پیش کر سکیں۔
4بچوں سے بات کرتے وقت اپنے انداز الفاظ اور رویے پر ضرور غور کریں۔
5انہیں یہ احساس نہ دلائیں کہ آپ ان کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں ۔
6بچوں پر ہر وقت تنقید نہ کریں ورنہ ایک وقت آئے گا کہ وہ بھی آپ کی باتوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیں گے یا پھر آپ کو پلٹ کر جواب دیں گے۔
7بچوں سے بات کرتے وقت آواز اور لہجہ دھیما رکھنا چاہیے ،بہت زور سے بولنا اور سخت لہجہ فائدے کی بجائے نقصان دہ ہوتا ہے۔ 8بہت ساری نصیحتیں ایک ساتھ نہ کریں۔
9بچوں کی عمر کے مطابق ان کو کھلونے یا میدان میں کھیلنے کی تربیت یا ان کی عمر کے مطابق ان کو اچھے رسائل پڑھنے کو دیں۔
10یاد رکھنا چاہیےبچہ والدین کے غصے ،خوشی اور مایوسی سے بہت زیادہ سیکھتا ہے۔
11نصیحت کے لیے سزا کی بجائے سمجھانے سے کام لینا چاہیے
12بچوں میں برابری رکھیں ۔اگر آپ کا کسی بچے کے ساتھ لگاو زیادہ ہے تو دوسرے بچے احساس کم تری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
13 اگر بچے نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو اس کی تعریف کریں ۔اور اگر کوئی غلط کام کیا ہے تو سب کے سامنے ڈانٹنے کی بجائے اکیلے میں اسے سمجھائیں ۔
14اسکول و مدرسے کی ماہانہ رپورٹ خود جا کر اسکول و مدرسہ سے لیں ۔تاکہ بچے کو بھی احساس ہو کہ والدین میری نگرانی کر رہے ہیں۔
15بچے کو کبھی تنہا نہ چھوڑیں ،اس طرح وہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔
بچوں کے موجودہ بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین کا اپنے فریضے سے بے توجہی برتنا ہے ۔بچے اور بچیاں اللہ کی جانب سے ایک امانت ہیں ۔ان کی اچھی تربیت اور دیکھ بھال کرنا ،انہیں اسلامی تعلیمات کا پابند بنانا والدین کا دینی فریضہ ہے کیونکہ بچوں کے بناو اور بگاڑ میں والدین کا بڑا رد عمل ہوتا ہے ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔پھر اس کے والدین اسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘(بخاری و مسلم)یعنی بچے والدین کا عکس ہوا کرتے ہیں۔اسی طرح بچوں کی تعمیر اور تخریب میں ماں کی ذمہ داری بہت اہم ہوتی ہے ۔کیونکہ وہی نسل انسانی کی مربیہ ہوتی ہے ۔پورے خاندان اور معاشرے کے بناو اور بگاڑ کا دارو مدار اسی پر ہوتا ہے ۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا۔’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے اور اس سے اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔‘‘(بخاری و مسلم)
ایک ماں یہ فرض اس وقت انجام دے سکتی ہے جب وہ خود تربیت کے تمام اصول و ضوابط سے مزین ہوگی۔والدین کو یہ احساس کرتے ہوئے بچیوں کی تربیت کرتے وقت یہ ضرور میں رکھیں کہ اس بچی نے ماں بن کر اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔