دریائے نیلم آزاد کشمیر اور جموں کشمیر کے درمیان پل کا کام دیتا ہے .دریا کے تین طرف پہاڑ ہیں ۔پہاڑوں کے اوپر سے جو راستہ بنایا گیا ہے وہ مقبوضہ کشمیر کی طرف جاتا ہے۔ وہاں پر چلنے والی سواریاں دیکھ کر عدیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔

حفصہ فیصل کراچی


"علی ،سمیر! بھئی جلدی سے آجاؤ، دیر ہورہی ہے، دیکھو عدیل سب سے پہلے تیار ہوکر پہنچ چکا ہے۔" اکمل صاحب نے بچوں کو آواز دیتے ہوئے کہا۔

"ابو بس آہی رہے ہیں " علی اور سمیر جلدی جلدی دیں بیگ اٹھاتے ہوئے آئے۔ دراصل آج اکمل صاحب علی، سمیر اور عدیل کودریائے نیلم کی سیر کروانے کے لیے لے کر جا رہے تھے ۔پچھلے دنوں ان تینوں کے امتحانات ختم ہوئے تھے اور اچھے طریقے سے امتحانات دینے کے بعد اکمل صاحب ہمیشہ اپنے بچوں کو کسی جگہ کی سیر کروانے لے جاتے تھے ۔اسی سلسلے میں آج دریائے نیلم کا پروگرام بنا تھا ۔ علی اور سمیر اکمل صاحب کے اپنے بیٹے تھے جب کہ عدیل ان کے ملازم ہاشم کا بیٹا تھا۔مگر اکمل صاحب ہمیشہ عدیل کو بھی اپنے بچوں کے برابر سمجھتے ۔ اس کو داخلہ بھی اسی اسکول میں دلوایا تھا ،جہاں پر ان کے اپنے بیٹے جاتے تھے۔

عدیل اور اس کے والد ہاشم کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے سری نگر سے تھا۔ دونوں وہاں سے ہجرت کرکے مظفرآباد کے اس علاقے میں آئے تھے ۔عدیل کی والدہ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا ۔ اب اس کے ماں باپ دونوں اس کے ابو ہاشم ہی تھے ۔

٭٭٭٭ تینوں بچے دریائے نیلم پہنچنے کے لیے بے قرار تھے ۔ سارا راستہ ہنستے کھیلتے گزرا۔دریا پر پہنچ کر عارضی ٹینٹ لگا کر سارا سامان اس میں رکھا گیا ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد تینوں دریا میں تیراکی کرنے کے لیے تیار تھے۔ سمیر نے تو باقاعدہ تیراکی سیکھی تھی جب علی اور سمیر اس کی رہنمائی میں کافی سیکھ چکے تھے۔ ویسے بھی مظفر آباد اور اس کے نواحی علاقوں میں جھیلیں اور دریاؤں کی بہتات تھی وہ اکثر کسی ایسی جگہ ہی جاتے تھے جہاں انہیں تیراکی کا موقع مل جاتا تھا۔

٭٭٭ " دریائے نیلم آزاد کشمیر اور جموں کشمیر کے درمیان پل کا کام دیتا ہے .دریا کے تین طرف پہاڑ ہیں ۔پہاڑوں کے اوپر سے جو راستہ بنایا گیا ہے وہ مقبوضہ کشمیر کی طرف جاتا ہے۔ وہاں پر چلنے والی سواریاں دیکھ کر عدیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔

کیونکہ چند سال پہلے وہ بھی انہی راستوں سے گزر کر کر اپنے وطن کو چھوڑ آیا تھا ۔ اسے وہاں دوبارہ جانا تھا اور اپنے وطن کو دشمنوں سے آزاد کروانا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر علی اور سمیر بے چین ہوگئے ۔اکمل صاحب نے اسے سینے سے لگایا ۔

اچھا !عدیل تم اپنے علاقے کے بارے میں کچھ بتاؤ , وہاں پر کیا کیا ہے؟
ہم نے تو سنا ہے کہ کشمیر جنت نظیر ہے کیا واقعی ایسا ہے ؟
سمیر نےاس کی توجہ ہٹانے کے لیے لیے سوال کیا۔
آہ ! کشمیر واقعی جنت نظیر ہے۔ دریائے نیلم اور سرسبز علاقہ دیکھ کر آپ سب کتنا خوش ہوتے ہیں ، اگر مقبوضہ کشمیر دیکھ لیں تو آپ کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہے ۔

سری نگر کی "ڈل جھیل"اس کا شفاف پانی ، ہر طرف ہریالی ، فضا میں بسی مختلف تازہ پھلوں کی مہک ، خوب صورت موسم واقعی جنت ہی کا گمان ہوتا ہے۔" عدیل خیالوں میں کھویا اپنے علاقے کا نقشہ کھینچ رہا تھا۔ "کاش! ہم بھی کشمیر کے ان علاقوں میں جاسکتے اور وہاں کی سیر کرسکتے" علی نے حسرت سے کہا۔ "میں ضرور اپنے وطن کو آزاد کرواؤں گا،
اپنی جنت کو دشمن سے حاصل کرکے رہوں گا۔پھر ہر کوئی وہاں آزادانہ آجا سکے گا"عدیل عزم سے بولا۔
ان شاءاللہ!!!!
یہ سمیر ،علی اور اکمل صاحب کی آوازیں تھیں۔